جنرل

کورونا وائرس: ‘میں شاید وائرس کے بجائے بھوک سے مر جاؤں’

[ad_1]

Pantira Sutthi wearing a maskتصویر کے کاپی رائٹ
Wasawat Lukharang / BBC Thai

تھائی لینڈ کی سب سے بڑی کچی آبادی کلونگ توئی کی رہائشی اور کھانے پینے کی اشیا بیچنے والی پنتیرہ سوتھی کہتی ہیں ‘میں اس وقت شاید وائرس کی بجائے بھوک سے مرجاؤں گی۔‘

دارالحکومت بنکاک کے وسط میں آباد اس علاقے کو مقامی لوگ اس خوبصورت شہر کا بدصورت ترین حصہ مانتے ہیں۔

بوسیدہ لکڑی اور پرانے ٹن سے بنے چھوٹے مکانات پر مبنی اس ڈیڑھ مربع کلومیٹر کے علاقے میں دلدلی زمین کے ٹکڑے ہیں اور وہاں نالیاں پھیلی ہوئی ہیں۔

سوتھی سنگل مدر ہیں جو بغیر کسی مدد کے اپنے بچے اور پوتے کی پرورش کررہی ہیں۔ وہ قریبی سکول کے سامنے فرائڈ چکن اور میٹ بالز بیچ کر گزر بسر کرتی ہیں لیکن اس وبائی بیماری کی وجہ سے ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ بھی اچانک ختم ہوگیا کیونکہ سکول کو بند کردیا گیا ہے۔

وہ روزانہ ایک ہزار بھات (یعنی 30 امریکی ڈالر) کماتی تھیں لیکن اچانک ان کی آمدن صفر ہو گئی۔ وہ اس وائرس سے تباہ کن طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ کلونگ توئی کچی آبادی کے 20 ہزار ریائسیوں میں سے بہت سے لوگوں کی یہی کہانی ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Wasawat Lukharang / BBC Thai

عطیہ کیے گئے کھانے

سوتھی کے لیے اپنے گھر والوں کے لیے کھانے کی اشیا خریدنا ہینڈ سینیٹائزر یا چہرے کے ماسک خریدنے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ وہ ان میں سے ایک چیز ہی خرید سکتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘خوش قسمتی سے ابھی تک ہماری کمیونٹی میں کسی کو بھی انفکشن نہیں ہوا ہے۔ اس لیے میں اس سے بیمار نہیں ہوں گی اور نہ ہی مروں گی۔‘

لیکن اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ‘غربت آہستہ آہستہ ہمیں مار رہی ہے۔۔۔ میری صرف یہ خواہش ہے کہ صورتحال جلد بہتر ہو اور مجھے امید ہے کہ حکومت ہماری مدد کرے گی۔’

جنگل میں قرنطینہ، سڑک پر سیلف آئسولیشن۔۔۔

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں

کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟

ان کے کھانے کو خریدنے کے لیے نہ تو سکول کے بچے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسرے گاہک۔ ایسے حالات میں ان سے روزمرہ کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘میں واقعی میں کھانا بیچنے کے لیے باہر جانا چاہتی ہوں اور کچھ پیسے کمانے کی کوشش کروں گی۔ لیکن میرے پاس اتنا پیسہ بھی نہں ہے کہ میں اپنا ہی کھانا خرید سکوں۔ ایسے میں مجھے چکن اور میٹ بال خریدنے کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا کہ میں انھیں فروخت کروں۔’

اس وقت وہ مختلف مندروں اور مختلف فاؤنڈیشنز کی جانب سے تقسیم کیے جانے والے کھانے پر گزارہ کرتی ہیں۔

‘جب بھی میں یہ سنتی ہوں کہ لوگوں کو علاقے میں مفت کھانا دیا جا رہا ہے تو میں وہاں پہنچ جاتی ہوں اور زیادہ سے زیادہ کھانا لینے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ پورے گھر کے لیے کافی ہو سکے۔ میں وائرس سے خوفزدہ ہوں لیکن محدود وسائل اور پیسوں کی کمی کے ساتھ میرے پاس زندہ رہنے کے لیے یہی چارہ ہے۔‘

تصویر کے کاپی رائٹ
Wasawat Lukharang / BBC Thai

کچی آبادی میں رہنے والوں کے لیے منشیات فروشی اور چوری چکاری کے علاوہ زیادہ کیریئر کے راستے نہیں بچے ہیں۔

بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح تھونگروینگ تھونگفوین ایک 56 سال خاتون ہیں جو مزدوری کر کے گزر بسر کرتی ہیں اور اس وقت انھیں دو وقت کی روٹی کمانے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔

وہ روزانہ اپنے شوہر کے ساتھ کچی آبادی سے نکل کر پاس کی شاہراہ پر اس انتظار میں کھڑی رہتی ہیں کہ کوئی انھیں مزدوری کے کام کے لیے لے جائے۔ وہ گھر سے باہر نہ جانے کے حکومتی مشورے سے واقف ہیں لیکن انھیں لگتا ہے کہ زندہ رہنے کے لیے پیسہ کمانا زیادہ ضروری ہے۔

تھونگفوئن کہتی ہیں ‘ہم جیسے غریب لوگوں کے پاس بہت کم چوائس ہے۔ میں جانتی ہوں کہ حکومت سب کو گھر میں رہنے کے لیے کہہ رہی ہے۔ لیکن اگر میں پیسہ کمانے کے لیے باہر نہیں جاتی تو ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔’

انھوں نے کہا ‘کوئی بھی ہمیں کام پر رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ جب ہم باہر ہوتے ہیں تو ہمیں وائرس کی زد میں آنے کا خطرہ رہتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہم اسے اپنے محلے میں لے جا رہے ہوں۔ لیکن میں کیا کرسکتی ہوں؟ میرے بچوں کو کھانے کی ضرورت ہے اور جن سے ہم نے قرض لے رکھا ہے وہ ادائیگی کے لیے منڈلاتے رہتے ہیں۔ مجھ پر بہت دباؤ ہے۔ بعض اوقات مجھے زندہ رہنے کا بھی فائدہ نہیں نظر آتا ہے۔‘

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

کلونگ توئی تھائی لینڈ کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے۔ سرکاری طور پر وہاں کم از کم 20 ہزار افراد رہائش پذیر ہیں لیکن یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور وہ شاید ایک لاکھ کے قریب ہے۔

مکانات ایک دوسرے کے اوپر تلے تعمیر کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنا انتہائی مشکل ہے۔

کچی آبادی کے زیادہ تر لوگ کوووڈ-19 وبائی بیماری سے واقف ہیں لیکن محدود وسائل کی وجہ سے وہ سوائے ایک دوسرے کی جانب دیکھنے کے بہت کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔

ایک دوسری رہائشی سنیت موئنوائی بتاتی ہیں ‘اس کمیونٹی میں زیادہ تر بچے، بوڑھے اور بیمار لوگ ہیں جن کی نقل و حرکت کم ہی ہے۔ یہاں اگر ایک بھی کیس ہوتا ہے تو پوری برادری کا صفایا سمجھو۔’

تصویر کے کاپی رائٹ
Wasawat Lukharang / BBC Thai

لڈڈا مینگمیپول 26 سال کی ہیں اور کچی آبادی میں رہتی ہیں۔ وہ چہرے کے ماسک بناتی ہے اور لوگوں کو مفت دیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جس کی ملازمت برقرار ہے اور اپنی فیملی کی دیکھ بھال کر پا رہی ہوں۔ لیکن میں اپنی بہت ساری آنٹیوں، انکلز اور پڑوسیوں کو دیکھتی ہوں جو اس بحران میں جدوجہد کر رہے ہیں۔

‘یہ سب مزدور ہیں اور اس وقت ان کے لیے کوئی نوکری نہیں ہے۔ بنکاک میں اس وبائی بیماری کا صرف پہلا مہینہ ہے اور لوگ پہلے ہی مشکلات میں ہیں۔ میں تصور نہیں کرسکتی کہ اگلے مہینے کیسی صورت حال ہوگی۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘میرے بلاک میں صورتحال قدرے خوفناک ہے۔ وہاں کووڈ 19 کا مصدقہ کیس ہے۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ برادری کے بہت سارے افراد اس وائرس کی زد میں آئیں گے اور اس سے ان کی موت ہوجائے گی۔’

تصویر کے کاپی رائٹ
Wasawat Lukharang / BBC Thai

فراموش کردہ لوگ

جہان پورے ملک میں تھائی عوام وبائی مرض سے لڑنے کی تیاری میں ہیں، کلونگ توئی کچی آبادی کے ہزاروں افراد پہلے ہی انتہائی خستہ حالت میں ہیں۔

اگرچہ حکومت نے سب کو باہر جانے اور سماجی دوری برقرار رکھنے کے لیے کہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگ ایسا نہیں کر پائیں گے۔

تھائی لینڈ میں کورونا کے متاثرہ نئے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسی طرح اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

لیکن نہ ہونے کے برابر آمدنی والی اس کچی بستی میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے وائرس لگنے کے امکانات میں بھی کام پر جانا ہی ان کے لیے واحد آپشن ہے۔

حکومت نے کلونگ توئی کو اگلے 10 سالوں میں مسمار کرنے والی جگہوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس برادری کو پہلے ہی فراموش کر دیا گیا ہے۔

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button