کورونا وائرس: پناہ گزین کیمپ کووڈ 19 کی وبا سے کیسے نمٹیں گے؟
[ad_1]
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہر دو سیکنڈ میں دنیا میں کہیں نہ کہیں کوئی انسان زبردستی علاقہ بدر کیا جاتا ہے اور یہ بڑھتی ہوئی آبادی خاص طور پر مختلف بیماریوں کو شکار ہوتی ہے۔
ہجوم اور پھر نکاسی آب نہ ہونے کا مطلب ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو بچانے کے لیے جو طبی ہدایات ہیں مثلاً سماجی دوری اور بار بار ہاتھ دھونا یہ تو پناہ گزینوں کے لیے بالکل ناقابل عمل اقدام ہے۔
یہ خطرات بڑھ رہے ہیں کہ یہ وائرس کب دنیا کے ان کیمپوں میں پہنچ جائے گا جس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
ایک پناہ گزین نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی یہ وائرس یہاں نہیں پہنچا۔ اگر یہ کیمپوں میں پھیل گیا تو میرا خیال ہے کہ 80 فیصد افراد کو متاثر کرے گا کیونکہ یہ بہت پر ہجوم کیمپ ہیں۔
ممکنہ تباہی
بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں کوتوپالونگ کیمپ میں چیکوفہ اپنے شوہر اور دو بیٹیوں کے ہمراہ ایک ٹینٹ میں رہتی ہیں۔ اس ٹینٹ کی تین میٹر اور چوڑائی چار میٹر ہے۔
میانمار میں ہونے والے کریک ڈاؤن سے بچ کر سات لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں نے سنہ 2017 میں بنگلہ دیش میں جا کر پناہ لی تھی۔
تین سال گزرے اب ایک نیا خطرہ منڈلا رہا ہے اور ان کے پاس کہیں جانے کی جگہ نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’ہمارے پاس ایک لیٹرین اور ایک غسل خانہ ہے جسے دس خاندان استعمال کرتے ہیں۔ اور ایک ٹیوب ویل سے 50 گھروں کو پانی ملتا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے لوگ کیسے اس وائرس سے بچ سکتے ہیں۔‘
بندش
وائرس سے بچاؤ کے لیے جتنا ممکن ہو سکتا ہے اتنی تیاریاں جاری ہیں۔
چیکوفہ کا کہنا تھا ’گذشہ کچھ دنوں سے کیمپ میں خاموشی ہے۔ بازار، مدرسے اور تدریسی ادارے سب بند ہیں۔‘
’کچھ لوگ ماسک خرید رہے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ کچھ این جی اوز صابن دے کر لوگوں کو بتا رہی ہیں کہ ہاتھ کس طرح دھوئیں۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق 66 لاکھ افراد پناہ گزین کیموں میں زندگی گزرار رہے ہیں۔
تقریبا 20 لاکھ افراد خود ساختہ کیمپوں میں مقیم ہے جو مقامی طور پر بنیادی میسر سامان سے بنائے گئے ہیں۔
بنگلہ دیش دنیا کے گنجان آباد ممالک میں سے ایک ہے حتیٰ کے اس وبا کے آنے سے بہت پہلے سے ہی وہ اپنے ملک میں آنے والے پناہ گزینوں کے مسائل سے نبرد آزما تھا۔
بنگلہ دیش میں اب تک کورونا وائرس سے پانچ ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ چیکوفہ چاہتی ہیں کہ ان کیموں میں مزید طبی عملہ تعنیات کیا جائے۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ اب تک بنگلہ دیش میں قائم کسی بھی پناہ گزین کیمپ میں کووڈ 19 کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔
بنگلہ دیش نے 400 مریضوں کے لیے ایک سنٹر بنایا ہے اور مزید 1000 بسروں کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے۔
لیکن کوٹوپالونگ دنیا کا سب سے بڑا پناہ گزین کیمپ ہے اور انتہائی گنجان آباد ہے۔
بستروں کی کمی
کاکس بازار ضلعے میں واقع ہسپتالوں میں بہت محدود طبی سہولیات ہیں جہاں کووڈ 19 جیسے امراض کا علاج نہیں کیا جا سکتا اور یہ سہولیات کسی بڑی وبا کے پھوٹنے کے لیے بری طرح ناکافی ہیں۔
کاکس بازار میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان لوئس ڈونوون کا کہنا تھا ’اس وقت کاکس بازار کے صدر ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کا یونٹ ہیں جہاں 10 صرف دس بستروں کی جگہ ہے۔ مزید طبی حکام کی جانب سے کوششیں جاری ہیں۔‘
یو این ایچ سی آر مقامی آبادی کو اس حوالے سے آگہی پھیلانے کی تاکید کر رہا ہے۔
بہتر کیمپس
بنگلہ دیش سے 7000 ہزار کلو میٹر دور بوسنیا میں پناہ گزین آنے والی وبا کے لیے خود کو زیادہ محفوظ سمجھتے نہیں۔
28 سالہ روزہان اپنے شوہر او تین بچوں کے ساتھ عراق سے آئی ہیں وہ گذشتہ چھ ماہ سے بہاک پناہ گزین کیمپ میں رہتی ہیں۔
ان کا خاندان فن لینڈ جانا چاہتا ہے جہاں ان کی بہن اور کچھ دوست رہتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’ہم جانیں بچانے کے لیے اپنے گھر سے نکلے ، جنگ سے بچنے کے لیے اور اب ہمیں کورونا وائرس کا سامنا ہے۔ ‘
ان کا کہنا تھا لوگ کورونا وائر س کے بارے میں بات کر رہے ہیں متفکر بھی ہیں لیکن ابھی زیادہ نہیں۔ وہ خوش ہیں اور ضرورت کے مطابق معلومات حاصل کر رہی ہیں۔
زندگی پھر بدل گئی
19 سالہ سیما بھی جنگ سے بھاگ کر آئی ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے چھ افراد کے ساتھ یہاں ہیں۔ ان کا خاندان پاکستان سے ملحق افغانستان کے سرحدی علاقے میں رہتا تھا۔
’ہم پختون ہیں اور میرے والد کی زندگی خطرے میں تھی۔ میرے خاندان نے وہاں سے نکلنے اور فرانس جانے کا سوچا۔ ہم گذشتہ تین سال سے سفر میں ہیں۔‘
ان کا خاندان خود ساختہ لاک ڈاؤن میں ہے ان کے مطابق ان کے پاس خوراک اور حفاظتی سامان موجود ہے۔ ان کا خاندان محفوظ رہنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
’مجھے 20 دن پہلے کورونا وائرس کے بارے میں علم ہوا اور ہماری زندگیاں پھر سے بدل گئیں، ہمیں ان نئے حالات کو اپنانا ہو گا۔‘
بذریعہ ایران سفر
پاکستان اور افغانستان سے یورپ آنے والے بیشتر لوگ بذریعہ ایران زمینی سفر کرتے ہیں اور ایران اس وبا سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
پناہ گزینوں کی عالمی تنظم آئی ایم او کے بوسنیا ہریگونیا کے لیے نمائندہ پیٹر وین کا کہنا تھا ’ایسے پناہ گزینوں کی وجہ سے کیمپوں میں وبا پھیلنے کا واضح خطرہ موجود ہے جو ایسے ممالک سے گزر کر آ رہے ہیں جہاں کورونا وائرس کے کیسز موجود ہیں۔`
بہک میں 7500 پناہ گزین رہتے ہیں ان میں سے 5200 سرکاری سنٹرز میں ہیں جہاں طبی جانچ بڑھا دی گئی ہے اور کورونا کے کیسز کے لیے آئیسولیشن زون بنا دیے گئے ہیں۔
تاہم کیمپ سے باہر رہنے والوں کے پاس کوئی حفاظت نہیں ہے۔
کیمپ سے باہر زیادہ خطرہ
پیٹر وین کا کہنا تھا ’سب سے بڑا خطرہ ان پناہ گزینوں کے لیے ہے جو سرکاری سنٹرز کے باہر ہیں یا کسی نجی جگہ رہتے ہیں یا خالی عمارتوں میں مقیم ہیں۔ ان گروہوں کی سکریننیگ نہیں ہو رہی اور ان کی طبی سہولیات تک رسائی بھی نہیں۔‘
آئی ایم او کا کہنا ہے کہ اگر ان میں کوئی کورونا وائرس کا کیسز آیا تو اس کی شناخت نہیں ہو پائے گی اور اس کی وجہ کیمپ کے اندر کے پناہ گزینوں کو بھی خطرہ ہوگا اور مقامی آبادی کو بھی۔
کسی کو پیچھے نہ چھوڑیں
عالمی ادارہِ صحت کا کہنا ہے کہ وہ خطرے کا سامنا کرنے والے افراد کی مدد کے لیے مختلف حکومتوں اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کے ساتھ مل کر کرام کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ اسے اب تک کسی پناہ گزین کیمپ میں وبا کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے لیکن اگر ایسا ہوتا ہے ہر ملک کو خود ہی اس سے نمٹنا ہو گا۔
اگر کووڈ 19 یہاں تک پہنچ گیا تو ہر ملک کو خود اپنا بچاؤ کرنا ہو گا۔
ڈبلیو ایچ او کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہم توقع کرتے ہیں کہ ہر ملک اپنی حدود میں موجود پناہ گزینوں اور تارکین وطن کا خیال رکھے گا اور کسی کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔‘
لیکن جب ممالک میں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد موجود ہے ان کے پاس ان کی مدد کے لیے وسائل بھی بہت کم ہیں۔
Source link
International Updates by Focus News