جنرل

کورونا وائرس: کووڈ 19 سے مقابلے کے لیے برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کیا کر رہی ہے؟

[ad_1]


ایم آئی فائیو کے سربراہ اینڈریو پارکر

برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کی سات سالہ سربراہی کے بعد اینڈریو پارکر اپنے عہدے سے علیحدہ ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کے سکیورٹی امور کے نامہ نگار گورڈن کوریرا سے بات چیت کی ہے۔ اس بات چیت میں انھوں نے کورونا وائرس کی وبا، انسداد دہشت گردی اور سنہ 1983 میں جب وہ ایجنسی میں شامل ہوئے تھے اس کے بعد سے اب تک ایجنسی میں کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں ان سب پر روشنی ڈالی ہے۔

دریائے ٹیمز کے کنارے واقع ایم آئی فائیو کے صدر دفتر میں اینڈریو پارکر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ایجنسی کی سات سالہ سربراہی کے بعد اس عہدے سے علیحدہ ہونے کا یہ وقت عجیب ہے۔

انھوں نے کہا کہ دوسرے اداروں کی طرح سکیورٹی ایجنسیوں کو بھی غیر متوقع طور پر تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا، جیسا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں کورونا وائرس کی وبا کے بعد ہوا ہے، سے ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے۔

کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟

دنیا میں کورونا کے مریض کتنے اور کہاں کہاں ہیں؟

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس: مختلف ممالک میں اموات کی شرح مختلف کیوں؟

کورونا وائرس: وینٹیلیٹر کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں

کیا ماسک آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟

انھوں نے کہا کہ ترجیح اس بات کو دی جارہی ہے کہ اس کی کارروائیاں متاثر نہ ہوں تاکہ ایمرجنسی سروسز کووڈ 19 پر اپنی توجہ مرکوز رکھ سکیں۔

اینڈریو پارکر کا کہنا تھا کہ ’ان ہنگامی حالات میں غالباً عام دنوں کے مقابلے زیادہ ضروری ہے کہ ملک کی قومی سلامتی کا نظام چلتا رہے تاکہ جن ہنگامی حالات کا ہمیں سامنا ہے وہ مزید پیچیدہ نہ ہو جائیں اور اس سے صورتحال مزید خراب نہ ہو۔‘

ٹیمز ہاؤس کی راہداریاں عام دنوں کی نسبت شاید زیادہ خاموش تھیں لیکن اینڈریو پارکر بہت محتاط تھے اور انھوں نے اس بارے میں زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کیں کہ کس طرح ایجنسی کا طریقہ کار تبدیل ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’آپ سمجھ سکتے ہیں‘ کہ وہ کیوں اس بارے میں زیادہ تفصیل نہیں بتا رہے کہ وہ کس طرح کام کر رہے ہیں اور ایجنسی کی کیفیت کیا ہے۔

انھوں کہا ’لیکن ایم آئی فائیو بھرپور طریقے سے کام کر رہی ہے اور اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ تربیت یافتہ طبی عملہ جن میں ڈاکٹر اور نرسیں شامل ہیں اور جو عام حالات میں ایم آئی فائیو میں کام کرتے ہیں انھیں صحت کے قومی ادارے این ایچ ایس میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا گیا ہے تاکہ وہ کورونا وائرس کے خلاف صف اول میں خدمات سر انجام دے سکیں۔

انھوں نے بتایا کہ ایم آئی فائیو کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے بنائے جانے والے عارضی نائٹنگ گیل ہسپتالوں کی تعمیرات میں سکیورٹی فراہم کر رہی ہے۔

خطرہ موجود رہتا ہے گو اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔

’کچھ لوگ جن کے بارے میں ہمیں تشویش ہے کہ جو ممکنہ خطرے کا باعت بن سکتے ہیں وہ خود بھی اس لاک ڈاؤن کے حالات میں ہیں اور ان کی نقل و حرکت محدود ہے۔ اس سے ان کے عام رویے میں فرق پڑتا ہے لیکن خطرہ ختم نہیں ہوتا۔‘

انھوں نے کہا کہ کچھ دنوں میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد سنہ 2001 کے بعد سے ملک میں انتہا پسندی سے ہلاک ہونے والے لوگوں کی کل تعداد سے بڑھ سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے اب سیاست دان مختلف خطرات کی درجہ بندی بدل سکتے ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک صدی میں بدترین وبا سے گزرنے کے بعد حکومت کو یہ سوچنا پڑے گا کہ وہ اس خطرے کے بارے میں کیا کرتی ہے اور مالی وسائل کس طرح مختص کرتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ انھیں یقین ہے ’یہ سارے فیصلے کیے جائیں گے۔‘

’میری زندگی کے بدترین لمحات‘

انھوں نے کہا کہ ایم آئی فائیو میں گزری ان کی زندگی کے دوران جولائی سنہ 2005 کے حملے سنگین ترین لمحات تھے کہ جب برطانیہ سے ہی تعلق رکھنے والے چار افراد نے لندن کے ٹرانسپورٹ کے نظام پر بم حملے کیے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ‘یہ واقعہ کے بعد کئی سال تک ان کے دفتر کے بورڈ پر اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر لگی رہیں تھیں۔‘

ان حملوں کے بعد برطانیہ جس طرح انتہا پسندی کے خلاف کام کرتا رہا ان میں بنیادی تبدیلیاں لائی گئیں ہیں اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے بعد ازاں ایسے منصوبے ناکام بنانے میں مدد ملی جو کہ ستمبر 11 کے حملوں سے زیادہ تباہی کا باعث بنتے۔

انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں موجود انتہا پسند گروہوں نے شمالی امریکہ کے اوپر پرواز کرنے والے سات مسافر جہاز مائع بارودی مواد سے گرانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ تاریخ میں یہ انتہا پسندی کا سب سے سنگین اور بڑا منصوبہ رہا ہے۔

پارکر سنہ 2013 میں ایم آئی فائیو کے سربراہ بنے تھے اور سنہ 2017 میں برطانیہ میں انتہا پسندی کے کئی واقعات ہوئے۔

لندن بریج اور مانچسٹر کے دو واقعات میں ملوث ملزمان ایم آئی فائیو کی تفتیش میں رہ چکے تھے اس لیے حملوں کی تحقیقات کے دوران ادارے کو تنقید کا سامنا رہا۔

پارکر نے کہا کہ ان سے یہ کئی مرتبہ پوچھا گیا کہ ’ان میں کیا غلط ہوا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ سوالات غلط نہیں ہیں بلکہ یہ جائز سوالات ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہم ان سوالات کو کبھی مذاق میں نہیں اڑاتے کیونکہ ہم اپنے آپ سے بھی یہی سوالات کرتے ہیں۔ ہر واقعے کے بعد ہم محکمے کی سطح پر بھی انکوائری کرتے ہیں تاکہ آئندہ کے لیے احتیاط کی جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ ایم آیی فائیو انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند گروہوں کے خلاف کلیدی کردار ادا کر رہی ہے اور ابھی شمالی آئرلینڈ میں سرگرم ہے۔

’لیکن دوسری ریاستوں سے خطرات زیادہ سنگین ہو گئے ہیں جہاں سے سوشل میڈیا اور غلط معلومات پھیلانے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ معاشرے میں بے چینی پیدا کی جائے اور ان میں روس شامل ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جو چیز ہمارے لیے اور دوسرے خفیہ اداروں کے لیے اس دور میں لازمی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے جمہوری نظام کو دوسرے ملکوں کی مداخلت سے بچایا جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ انھیں بریگزٹ ریفرنڈم میں روس کی طرف سے مداخلت کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

چین حال ہی میں توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔

چین سے تعلقات زیادہ تر تجارتی نوعیت کے ہیں لیکن ایم آئی فائیو سائبر جاسوسی اور تخلیقی حقوق کی جعل سازیوں کو پکڑنے کی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے۔

پارکر کا کہنا ہے انھیں خفیہ اداروں کی طرف سے برطانوی حکومت کو فائیو جی ٹیلی کام نیٹ ورک میں چینی کمپنی ہواوے کو محدود حصہ دینے کا مشورہ دینے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔

ان خبروں پر کہ حکومت میں شامل کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے بارے میں مناسب طور پر شفاف رویہ نہ اپنانے پر چین سے پوچھ گچھ ہونی چاہیے، پارکر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے جو حکومت کی سطح پر کیا جائے گا۔‘

ایک ایسے ادارے جس میں وہ سنہ 1983 میں شامل ہوئے اور سات سال تک اس کی سربراہی بھی کی اس سے علیحدہ ہوتے وقت ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے جو سب سے بڑی تبدیلی ایجنسی میں محسوس کی وہ یہ ہے کہ کن لوگوں کو ایجنسی میں ملازمت دی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے ملازمت شروع کی تھی اس وقت بہت کم سیاہ فام اور دیگر لسانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایجنسی میں ملازم تھے۔ اور خاص طور پر ہم جنس پرستوں کو ایجنسی میں شامل نہ کیے جانے کے بارے میں باقاعدہ قوانین و قواعد موجود تھے۔ یہ پالیسی 1990 کی دہائی میں ہم جنس پرستی کو جرائم کی فہرست سے نکالے جانے کے بعد نئی صدی میں تبدیل کی گئی۔

انھوں نے کہا کہ اس سے لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی ہو گی اور یہ ’ہمارے لیے بہت شرمندگی اور ندامت کا باعث ہے۔‘ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایم آئی فائیو کے کسی سربراہ نے یہ بات تسلیم کی ہو۔

پارکر کہتے ہیں کہ ’بحران کے وقت میں دور جانا بہتر وقتوں کے مقابلے کچھ عجیب ہے۔۔۔ لیکن ایم آئی فائیو میں کوئی فیئرویل پارٹی نہیں ہوگی کیونکہ سوشل ڈیسٹنسنگ (سماجی فاصلے) کے اصولوں کی پیروی کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ این ایچ ایس صف اول پر اپنا کام جاری رکھ سکے۔‘

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button