جنرل

کورونا وائرس: کیا وبا کو یورپ میں اقتدار مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟

[ad_1]

Viktor Orban, Vladimir Putin and Recep Tayyip Erdoganتصویر کے کاپی رائٹ
Reuters/EPA

Image caption

ترک صدر طیب اردوغان، روسی صدر پیوتن اور ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربن

کچھ یورپی رہنماؤں پر یہ الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ وہ عوامی صحت کے بحران کو مخالف آوازوں کو دبانے اور اپنی کرسی کی مضبوطی کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

ترکی نے سوشل میڈیا پر اظہار رائے کرنے والے سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا ہے اور روس کے باشندوں کو اس بنیاد پر جیل کی دھمکیاں مل رہی ہیں کہ وہ کوئی چیز جعلی خبر کے طور پر نہ پھیلائیں۔

اس بات کا خدشہ ہے کہ پولینڈ میں جمہوریت خطرے میں پڑ رہی ہے اور ہنگری میں تو جیسے اس کا صفایا کیا جا رہا ہے۔

بی بی سی کے نمائندوں نے اس صورتحال کا اندازہ لگانے کی کوشش کی کہیں کورونا وائرس کی وبا کو اقتدار کو مزید مضبوط بنانے کے لیے تو استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔

ہنگری میں پارلیمنٹ کی ’خود کشی‘: وسیع تر اختیارات وزیرِ اعظم کو منتقل

تجزیہ نک تھورپ، نامہ نگار بی بی سی ہنگری

ہنگری کے وزیر اعظم پر ملک کے اندر اور باہر یہی تنقید ہو رہی ہے کہ انھوں نے بجائے سب کو اکھٹا کرنے کے اس وبا کو اپنے اقتدار کو مزید مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔

پہلے وزیر اعظم وکٹر اوربن کی حکومت نے گیارہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا، یوں انھوں نے اس وبا کے مقابلے کی تیاری کے لیے زیادہ وقت حاصل کر لیا۔

اس کے بعد انھوں نے پارلیمان میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر ایمرجنسی میں مزید توسیع کر دی۔ اب حکومت کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ خطرے کے ٹلنے تک، جس کا فیصلہ ان کی حکومت خود کرے گی، ایسے ہی لامحدود اختیارات کے ساتھ حکمرانی کر سکتی ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Reuters

Image caption

خصوصی اختیارات حاصل کرنے کے لیے ہنگری پارلیمنٹ میں وزیر اعظم اوربن اپنا موقف پیش کر رہے ہیں

ناقدین اسے جمہوریت کے خاتمے سے تعبیر کرتے ہیں۔ تاہم وزیر انصاف کا اصرار ہے کہ اختیارات سے متعلق یہ قانون ایمرجنسی کے خاتمے کے ساتھ ہی تحلیل ہو جائے گا اور یہ ہر لحاظ سے ضروری اور مناسب اقدام تھا۔

کیا یہ جموریت کا خاتمہ ہے؟ آئینی ماہر پروفیسر زولٹن سیزنٹے نے خبردار کیا ہے کہ اس وبا کو آسانی سے حکومت اپنے اختیارات میں اضافے کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ولادیمیر پوتن کی جیت پر مغربی ممالک خاموش

کچھ لوگوں کے لیے اقتدار چھوڑنا مشکل کیوں ہوتا ہے

’ڈیئر پوتن، ہٹلر اور سٹالن نے دوسری جنگ عظیم کا آغاز کیا‘

ان کا کہنا ہے کہ اس کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہی ہے کہ خطرے کی حالت کب تک برقرار رہے گی۔ ان کے مطابق پارلیمنٹ نے حکومت پر نگرانی جیسے اپنے اختیارات سے دستبردار ہو کر خودکشی کی ہے۔

قانون کے تحت ابھی بھی وزیر اعظم وکٹور اوربن کے اختیارات کو تین طریقوں سے پرکھا جا سکتا ہے:

  • وبا کے خاتمے تک پارلیمنٹ کا اجلاس جاری رہے
  • آئینی عدالت اب بھی فعال ہے
  • عام انتخابات 2022 میں منعقد ہوں گے

وزیر اعظم اوربن کی فیڈس پارٹی کو پارلیمان میں نمایاں اکثریت حاصل ہے اور اس ایمرجنسی کے خاتمے تک تمام ضمنی انتخابات اور ریفرنڈم منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

اگرچہ آئینی عدالت اب بھی وزیر اعظم اوربن کے پسندیدہ ججز سے بھری پڑی ہے تاہم وزیر اعظم کے لیے بڑی حد تک آزاد عدلیہ ایک کانٹے کے طور پر موجود ہے۔

حکمران جماعت کو اس سال کے اختتام پر سپریم کورٹ کے نئے صدر (چیف جسٹس) کی تعیناتی کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم اوربن لا محدود اختیارات کے حامل بن جائیں گے۔

ترکی: اردوغان کے لیے ایک بہترین موقع

اورلا گورین :نامہ نگار بی بی سی، استنبول

ترکی کے جارح مزاج رہنما رجب طیب اردوغان کو کورونا وائرس کی وبا کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انسانی حقوق کے سماجی کارکنوں کے خیال میں ان کے پاس پہلے ہی بہت اختیارات ہیں۔

ترکی کی ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر ایما سنکلیئر ویب کا کہنا ہے کہ ترکی کا نظام پہلے ہی مرکزیت والا ہے اب مزید اختیارات کو مضبوط کرنے کی ایسی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

تاہم ان کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیوں کو قابو میں لانے کے لیے اس وبا کے بعد ایک ایسی کوشش دیکھنے کو ضرور ملی ہے۔

کورونا وائرس سے متعلق انھیں ایک بل میں، جو بنیادی طور پر معاشی اقدامات سے نمٹنے کے لیے ہے جس سے وائرس کے اثر کو کم کیا جا سکتا ہے، ان کمپنیوں کو خاصا دباؤ میں لایا گیا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

ترکی کے جارح مزاج رہنما رجب طیب اردوغان کو کورونا وائرس کی وبا کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انسانی حقوق کے سماجی کارکنوں کے خیال میں ان کے پاس پہلے ہی بہت اختیارات ہیں

ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو حکومت کا تابعدار بنا کر ان پر مزید کنٹرول حاصل کرنا اور سینسرشپ کو یقینی بنانا تھا۔ اس مسودے میں شامل ترامیم کو اچانک مسودے سے نکال لیا گیا ہے، تاہم ایما سنکلیئر ویب کو ایسا لگتا ہے کہ یہ ترامیم مستقبل میں دوبارہ متعارف کرائی جا سکتی ہیں۔

اس بحران کے دوران ترکی کی حکومت اس بیانیے کو کنٹرول کے لیے پرعزم ہے۔ سوشل میڈیا پر کووڈ 19 سے متعلق ’اشتعال انگیزی پھیلانے‘ پر سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

بہت تھوڑے ڈاکٹرز نے بولنے کی جرات کی ہے۔

ترکی کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے علی جرکیزوگلو کا کہنا ہے کہ ’حقائق کو چھپانا اور بدقسمتی سے معلومات پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا اس ملک پر حکمرانی کا طُرہِ امتیاز بن چکا ہے۔

ان کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں میں یہ ڈاکٹرز، نرسز اور صحت کے صحت کے شعبے میں کام کرنے والے عملے کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔

وکیل حورم سونمز اس بات سے پریشان ہیں کہ یہ وبا صدر اردوغان کے لیے ایک موقع بن کر آئی ہے۔

حورم جو آزادی اظہار رائے کے مقدمات میں عدالتوں میں پیش ہو کر ملزمان کا دفاع کرتی ہیں کا کہنا ہے کہ اس وبا سے معاشرہ اور حزب اختلاف کمزور ہوئے ہیں۔

وائرس ہر ایک کا ایجنڈا بن چکا ہے۔ ترجیح زندہ رہنا بن چکی ہے۔ ان کے مطابق اس حوالے سے سنجیدہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ اس وبا کو حکومت اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔

روس: وبا نے پوتن کی خواہشات پر پانی پھیر دیا

تجزیہ سٹیو روزن برگ، نامہ نگار بی بی سی، ماسکو

جنوری میں کریملین کا خیال تھا کہ انھوں نے ہر معاملے کو سلجھا دیا ہے۔ پلان یہ تھا کہ ولادیمیر پوتن کو مزید دو بار کے لیے صدر بنانے کے لیے روس کے آئین میں ترامیم متعارف کرائی جائیں گی۔

اس مقصد کے لیے 22 اپریل کو روسی عوام سے کامیابی کا ووٹ حاصل کرنے کی تیاریاں جاری تھیں تاکہ ان ترامیم کے لیے عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔

صدر پوتن کے ناقدین اسے ’آئینی مارشل لا‘ قرار دیتے ہیں لیکن بظاہر ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔

تاہم کووڈ-19 نے ہر چیز کو روک دیا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

صدر پوتن کو بھی انتخابات ملتوی کرنے ہی پڑیں گے، آخر آپ کیسے اس وبا کے دوران لوگوں کو باہر نکل کر ووٹ ڈالنے کا کہہ سکتے ہیں؟

اب کریملین کی مشکل یہ ہے کہ کب اور کیسے ان انتخابات کا انعقاد ہو سکے گا۔ اس آئین کی حمایت کرنا ہو سکتا ہے کہ آخری چیز ہو جو روسی عوام کے ذہنوں میں ہو۔

کورونا وائرس لاک ڈاؤن سے معیشت تباہی کے دھانے پر ہے۔ یہ پیش گوئیاں بھی کی جا رہی ہے کہ دو سال کے طویل عرصے کی کساد بازاری سے کروڑوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔

روسی عوام اپنے روز مرہ کے مسائل کا ذمہ دار مرکزی حکام کے بجائے مقامی حکام اور نوکر شاہی کو قرار دیتے ہیں۔

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب یہاں کے لوگ شدید معاشی تکلیف میں ہوتے ہیں تو پھر یہ اپنے ملک کے رہنماؤں پر اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ بظاہر اب یہ مشکل پڑنے ہی والی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کریملین کے رہنما نے کورونا وائرس جیسی وبا کے خلاف لڑنے کے لیے حال ہی میں اپنے اختیارات مقامی گورنرز کو تفویض کر دیے ہیں، اب وہ بھی ذمہ داری میں شریک ہیں۔

صدر پوتن کے حامی جن میں سرکای میڈیا بھی شامل ہے اب یہ دلیل دیں گے اس طرح کا قومی بحران کا تقاضا یہ ہے کہ روس کی عوام ڈٹے رہیں، انتہائی مضبوط قیادت ہے یعنی دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ پوتن کی حکومت کو مزید توسیع دی جائے۔

کریملین کے ناقدین یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ پوتن اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے اس وبا کو استعمال کر رہے ہیں۔

پارلیمنٹ سے ایک نئے قانون کی منظوری لی جا رہی ہے جس کے تحت اگر کوئی کورونا وائرس سے متعلق جعلی خبریں پھیلائے گا تو اسے ڈھائی ہزار ڈالر تک کا جرمانہ یا پانچ سال تک قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

قرنطینہ کو ہر صورت یقینی بنانے کے لیے نگرانی کے نظام پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔

لاک ڈاؤن کا مطلب یہ بھی ہے کہ حزب اختلاف اب احتجاج بھی نہیں کر سکے گی: کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر اکھٹے ہونے پر پابندی عائد ہے۔

پولینڈ: کیا اقتدار پر قبضہ جمانے کے لیے حکومت انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے؟

پولینڈ کی حکومت پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ وبا کے پھیلاؤ کے باوجود مئی میں صدارتی انتخابات کے انعقاد سے انسانی جانوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

صدر اندریج ڈوڈا، جو حکومت کے اتحادی ہیں، اس وقت وبا کے دوران اپنی بڑھتی مقبولیت کی طرف دیکھ رہے ہیں اور صاف لگتا ہے وہ جیت کے لیے فیورٹ امیدوار ہیں۔

حکمراں جماعت کا موقف ہے کہ صدارتی انتخابات کا انعقاد اس کی آئینی ذمہ داری بنتی ہے اور یہ کہ لاک ڈاؤن کے دوران پوسٹل ووٹ ہی ان انتخابات کا بہترین حل ہے۔

یہ آپشن اس وقت ترجیح اول ہے، لیکن حکومت اس تجویز کی بھی جمایت کر رہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے صدر ڈوڈا کو مزید دو سال کے لیے صدارت کے عہدے پر برقرار رکھا جائے۔۔۔ جب تک کہ وہ خود انتخابات کا نہ کہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹ
EPA

حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ پوسٹل ووٹ ووٹرز، ڈاک اور انتخابی عملے کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔ یورپی یونین اور پولینڈ کے اپنے انتخابی کمیشن نے ان انتخابات کے انعقاد پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ انتخابات کا انتظار کرنے کا ایک قانونی راستہ بھی موجود ہے۔ اور وہ قدرتی آفت قرار دے کر انتخابات پر پابندی عائد کر دی جائے اور پھر مزید 90 دن کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھائے جائیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ غیر معمولی حالات کے نفاذ کے بدلے عوام کو معاوضہ بھی دینا پڑے گا۔

انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والے گروپس کا کہنا ہے کہ اگر مئی میں انتخابات ہوتے ہیں تو پھر یہ شفاف نہیں ہوں گے کیونکہ حزب اختلاف نے تو انتخابی مہم منسوخ کر رکھی ہے جبکہ حکومت کو اس وبا کے دوران صحت کے شعبے میں کام کرنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر میڈیا کوریج سے مدد مل رہی ہے۔

اگر انتخابات منسوخ کر دیے جاتے ہیں تو پولینڈ کساد بازاری کا شکار ہو جائے گا اور صدر ڈوڈا کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔

اگر کوئی اپوزیشن کا امیدوار جیت گیا تو پھر نئے صدر کے ویٹو جیسے اختیارت سے حکومت کو اپنے ساڑھے تین سالہ پروگرام کو چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

وارسا میں انسانی حقوق کے وکیل مالگورزاٹا سلولیکا کا کہنا ہے کہ یہ صرف نصابی کتابوں کی مثال ہے کہ بحران سے کیسے بڑا فائدہ حاصل کر کے اقتدار میں رہا جائے۔

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button