امریکہ اور ایران کشیدگی: لفظوں کی جنگ تصادم میں بدلنے کا خدشہ
[ad_1]
گذشتہ برس ایک تقریر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ کی انقلابی فوج نے 1770 کی دہائی میں برطانیہ کے زیرِ کنٹرول ’ہوائی اڈوں پر قبضہ کرلیا تھا۔‘
اس تناظر میں دیکھا جائے تو بدھ کے روز کی گئی ان کی ٹویٹ، جس میں امریکی بحریہ کے کمانڈروں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ امریکی جنگی جہازوں کو ہراساں کرنے والی ایرانی گن بوٹس کو فائرنگ کر کے ڈبو دیں‘، معمولی سا ہی غلط بیان تھا۔
لیکن رواں سال کے آغاز میں عراق میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد یقینی طور پر یہ امریکہ کی طرف سے براہ راست فوجی کارروائی کی سب سے بڑی دھمکی تھی۔
جنرل قاسم سلیمانی کے قتل سے امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ تو پھر صدر ٹرمپ کی حالیہ دھمکی کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اور اب جب ایران اور امریکہ دونوں ممالک کووڈ-19 کے وبائی مرض سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اس نئی کشیدگی کی وجہ کیا ہے؟
یہ بھی پڑھیے
جنرل سلیمانی کا تابوت اور ایرانیوں کا ’تبرک‘
قاسم سلیمانی کا جنازہ پڑھانے والے پاکستانی کون ہیں؟
کیا مسلم ممالک ایران کے لیے متحد ہو پائيں گے؟
عراق میں اتحادی فوج کے اڈے پر راکٹ حملہ، تین فوجی ہلاک
صدر ٹرمپ کی اس دھمکی کے پیچھے گذشتہ ہفتے پیش آنے والا ایک واقعہ ہے، جس میں امریکہ کے مطابق پاسدارانِ انقلاب نیوی کی متعدد مسلح سپیڈ بوٹس نے خلیج سے گزرنے والے امریکی جنگی جہازوں کے بحری بیڑے کو تنگ کیا۔
ان جہازوں میں یو ایس ایس لیوس بی پُلر، ایک موبائل بیس جہاز، اور ایک تباہ کن بحری جہاز یو ایس ایس پال ہیملٹن شامل تھے۔
امریکی بحریہ کا کہنا ہے کہ ایک تیز رفتار ایرانی گن بوٹ نے ان جہازوں کو کاٹتے ہوئے امریکی کوسٹ گارڈ کٹر کے سامنے 10 گز (9 میٹر) تک کا فاصلہ عبور کیا۔
پاسدارانِ انقلاب نے تصادم کا اعتراف کیا ہے لیکن انھوں نے اس کا الزام امریکیوں پر ڈالا ہے۔
جمعرات کے روز پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایران کی بحری فوجوں کو ’خلیج فارس سے کسی بھی امریکی دہشت گرد فورس جس سے ایران کی فوج یا غیر عسکری جہاز رانی کو خطرہ ہو، ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔‘
اب الفاظ کی اس جنگ کے عملی جنگ میں بدنے کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔
بہرحال صدر ٹرمپ کے ٹویٹر پر دیے گئے ’حکم‘ میں تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہے۔
خلیج میں امریکی جنگی جہازوں کے کمانڈروں کے پاس پہلے ہی اپنے عملے کی زندگیوں اور ان کے جہازوں کی حفاظت کے لیے جو بھی اقدامات وہ ضروری سمجھیں، کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
اور وہ چھوٹی ایرانی کشتیوں کے ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے عادی ہیں۔
لیکن اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر کی توجہ وبائی مرض پر ہونے کے باوجود پہلے سے موجود بین الاقوامی تناؤ وہیں کا وہیں موجود ہے۔ بلکہ ہوسکتا ہے اس میں اضافہ ہوا ہو۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور ایران ایک دوسرے کے حوالے سے مستقل سٹریٹجک اہداف رکھتے ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایران خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو کم کر کے اپنی طاقت بڑھانا چاہتا ہے۔
مثال کے طور پر شام میں کیے گئے حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اور اس کے اتحادی ابھی بھی پورے زور و شور سے وہاں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔
ایران میں کووڈ -19 کے بحران اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری اور غیر یقینی صورتحال سے سخت گیروں رہنماؤں کو فائدہ پہنچنے کا خطرہ موجود ہے اور ہو سکتا ہے ایران کے کچھ رہنماؤں کو ایسا لگا ہو کہ چونکہ امریکہ کو اپنے ملک میں چیلنجز درپیش ہیں، اس لیے شاید وہ خلیج میں کسی بھی کارروائی میں کم دلچسپی رکھتا ہو۔
دوسری طرف ٹرمپ انتظامیہ اس امید پر ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی اپنی پالیسی کو دوگنا کر رہی ہے کہ شاید یہ وبائی مرض بالآخر تہران میں اسلامی حکومت کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔
اسی دوران ایران دوسرے محاذوں پر پیشرفت جاری رکھے ہوئے ہے۔
بدھ کے روز ایران نے اپنی سیٹلائٹ مدار میں بھیجی ہے۔ پاسدارانِ انقلاب کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک فوجی سیٹلائٹ ہے جسے شمالی کوریا کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے میزائل پروگرام میں مزید بہتری آتی جا رہی ہے۔
اگرچہ ایران عالمی طاقتیں کہلانے والے ملکوں کے ساتھ کیے گئے 2015 معاہدہ کا حصہ ہے جو اس کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرتا ہے، لیکن وہ اس معاہدے کی متعدد شرائط کی خلاف ورزی کر رہا ہے
ماہرین کو تشویش ہے کہ اگرچہ تہران کے لیے گئے بہت سے اقدامات ایسے ہیں کہ ان کا رخ موڑا جا سکتا ہے، لیکن شاید وہ اس مقام کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں وہ کاربن فائبر سنٹری فیوجز یعنی یورینیم کی افزودگی کے لیے ضروری مشینری کو بین الاقوامی معائنے سے بالاتر بنا سکتے ہیں۔
اگر تھوڑے عرصے کے لیے کم توجہ دی جائے تو شاید امریکہ ایران کشیدگی کم ہو جائے، لیکن ایسا ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
اچانک کسی تنازعے کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ اب بھی اتنا ہی برقرار ہے، بلکہ شاید پہلے سے بھی زیادہ کیونکہ دونوں ممالک کورونا وائرس کے باعث ایک دوسرے کی کارروائی کرنے کی صلاحیت کے متعلق مغالطے کا شکار ہیں۔
Source link
International Updates by Focus News