کالمزناصف اعوان

قرضوں کی جکڑ بندی اور ہمارا مستقبل….ناصف اعوان

اس سے متعلق یہی کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ہی سوچ بچار کر رہے ہیں

اس خیال سے عام آدمی کا دل دھک دھک دھڑکنا شروع کر دیتاہے کہ کہیں مہنگائی مزید نہ بڑھ جائے نئے ٹیکس نہ لگ جائیں اب تو سرحدی صورت حال پر بھی ان کی پریشانی بڑھ رہی ہے۔ اس طرح پورے ملک میں غیر یقینی و بے چینی کی فضا جنم لے چکی ہے ۔
حکمران کیا سوچ رہے ہیں اس سے متعلق یہی کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ہی سوچ بچار کر رہے ہیں انہیں کسی مہنگائی کسی مسٔلے سے کوئی غرض نہیں انہیں حکمرانی کے مزے لوٹنے ہیں اس کے لئے وہ ‘ وہ کچھ کرنے کو بھی تیار بیٹھے ہیں جو عام آدمی کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے اس طرح تو امور مملکت کا چلنا آسان نہیں کہ حکمران کچھ سوچیں اور عوام کچھ اور ؟ ان کے مسائل بڑھتے جائیں ان کو سہولتیں نہ ملیں بلکہ پہلے والی بھی کم پڑ جائیں جبکہ وہ نئی حکومت سے یہ توقع کر رہے ہوں کہ وہ انہیں مسائل کے گرداب سے باہر نکالے گی مگر انہی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف سے جو قرضہ لینے جارہی ہے اس کے ساتھ ناگوار شرائط بھی لے رہی ہے جن پر من و عن عمل کرنا ہو گا ؟
جس سے غریبوں کے نشیمنوں پر بجلیاں گریں گی ہی ۔ادھر پٹرول گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے کچھ پہلے بھی ہو چکا ہے ۔
یہ سراسر ظلم ہے کہ جو لوگ ایک ایک نوالے کو ترسیں مگر ان کے مشکل وقت کے لئے پس انداز کئے گئے چند سکوں کو بھی ایک خاص مہارت سے ہتھیا لیا جائے۔ حکمران جو خود کو عوام کے نمائندے کہلاتے ہیں ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ جب اقتدار میں آتے ہیں اور ایڑیاں اٹھا اٹھا کر وعدے کرکے آتے ہیں تو کیوں عوام کو سہولتیں فراہم نہیں کرتے اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ قومی خزانے میں ان کےلئے گنجائش نہیں ؟
جناب عالی ! پھر آپ کو کیا مجبوری ہے اقتدار میں آنے کی ؟ ” توآڈی بانہاں ویلنے چ آئی ہوئی سی“ عوام کو آپ کی صورتیں دیکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں انہیں تو اپنے مسائل حل کرنے سے غرض ہے اگر وہ (حکمران) ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں آرام کرنا چاہیے ۔ ہم تو آصف علی زرداری صدر پاکستان سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ اپنی بقیہ زندگی کا مزہ لیں اور یورپ ومغرب کی سیر و سیاحت کریں یہاں کے الجھیڑوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے اب ان کی صحت ایسی نہیں کہ وہ ہر وقت جوڑ توڑ کی سیاست کریں اور اپنی توانائیاں ضائع کریں مگر شاید انہیں اسی میں تسکین ملتی ہو گی؟
بہرحال سچ یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے لئے معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ انہوں نے آئی ایم ایف ہی سے قرضہ لے کر حکومت چلانی ہے اور آئی ایم ایف کبھی کسی کو خوشحال دیکھ سکتا ہے ؟ اسے تو اپنی قسط کی وصولی کی فکر ہوتی ہے چاہے جیسے بھی ہو لہذا اب وہ حکم جاری کرے گا کہ عوام پر ٹیکسوں کی یلغار کرو عوام چیخیں یا دھاڑیں مار کر روئیں اس کے اور حکمرانوں کے دل کی دھڑکن نہیں رکے گی کیونکہ ان کے سینے میں وہ دل ہی نہیں ؟
اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ نوجوانوں میں اور مایوسی بڑھے گی حکمرانوں سے اور بدظن ہوں گے پھر یقیناً وہ باہر کے ملکوں کا رخ کریں گے پہلے بھی یورپ اور سکینڈے نیوین کے ممالک میں جا رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہاں جا کر انہیں محنت مزدوری کرنا وارے میں ہے کیونکہ ادھر انصاف ہے تحفظ ہے اور ایک مربوط انسان دوست نظام حیات ہے ۔ جو ان ملکوں میں بوجہ نہیں جا سکتے وہ جرائم کی دنیا کی طرف بڑھیں گے یوں جرائم کی شرح میں ہوشربا اضافے کا امکان ہے ؟دھوکا دہی کی وارداتیں جو پہلے بھی ہو رہی ہیں اب ان کی رفتار و تعداد میں مزید ا ضافہ ہو سکتا ہے۔حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے یہ سب دیکھتی نہ رہے کوئی حل ڈھونڈے ۔وطن عزیز انتہائی مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے اس کی معاشی حالت تو سب کے سامنے ہے سرحدوں پر بھی خطرات منڈلانے لگے ہیں افغانستان نے باقاعدہ جنگ کا اعلان کر دیا ہے بھارت بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہےلہذا
ہمیں جلد از جلد محبت ویکانگت کا مظاہرہ کرنا چاہیے مگر ہم یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اگر دشمن نے ہماری طرف خونی آنکھ سے دیکھا تو وہ باقی نہیں رہے گی اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے اندرونی جھگڑے یا مسائل اپنی جگہ مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ کوئی اگر ہمارے اوپر جارحیت کا ارتکاب کرے تو ہم خاموش رہیں گے ہم سب اس کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں گے اور اس کا بھرپور جواب دیں گے اپنی افواج کے شانہ بہ شانہ سینہ تان کر کھڑے ہوں گے لہذا دشمنان وطن کسی بھلیکھے میں نہ رہیں ہم متحد ہیں ایک ہیں !
موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اہل اختیار کو چاہیے کہ وہ یکجہتی کے جزبے کو ابھارنے کے لئے اقدامات کریں حزب اختلاف کو اعتماد میں لیں ۔سب پاکستانی ہیں محب وطن ہیں کوئی غدار نہیں کوئی بد خواہ نہیں لہذا نفرتوں کو مٹایا جائےایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی پالیسی کو ترک کیا جائے ۔پی ٹی آئی ایک بڑی جماعت ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اندرون اور بیرون اس کی مقبولیت یکساں ہے ۔ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسے شریک اقتدار کیا جاتا ہے تو ملک میں خوشحالی کی باد نسیم چلنا شروع ہوسکتی ہے ۔ جتنے قرضوں کی ہمیں ضرورت ہے پی ٹی آئی انہیں اپنی بہتر حکمت عملی ملکی وسائل اور اپنے کارکنوں کے تعاون سے پورا کر سکتی ہے
مگر لگ رہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے کافی مانوس ہو چکی ہے لہذا وہ اس کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی جبکہ ملک اب مزید قرضوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا اسے بھاری رقوم کا خود بندوبست کرنا ہو گا چاہے ہمیں کچھ عرصہ تھوڑی تکلیف ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے حکومت کا اگر یہ خیال ہے کہ وہ ملک کے اثاثے فروخت کرکے مطلوبہ رقوم حاصل کر سکتی ہے اور ان سے معاشی بحران پر قابو پا سکتی ہے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے کیونکہ جب تک نیت میں خلوص پیدا نہیں کیا جاتا اور بہترین منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ہماری کایا نہیں پلٹ سکتی ۔ آئی ایم ایف پر انحصار کرکے ہم دیکھ چکے وہ کبھی بھی ترقی پزیر ملکوں کو بنیادی ترقی کے لئے قرضہ نہیں دیتا تاکہ غربت بے روزگاری ختم نہ ہوں اب تو اس نے سی پیک کو جو پیسے ادا کرنے ہیں اس کے لئے بھی چند شرائط عائد کر دی ہیں لہذا آئی ایم ایف کے پروگراموں کی وجہ سے ہم پیچھے رہ گئے ہیں اس میں ہمارے حکمرانوں کا بھی قصور ہے کہ وہ پیسا ہضم کرکے کھیل ختم کرتے رہے ہیں لہذا ہمارے کرتا دھرتا چاہتے ہیں کہ ملک آگے بڑھے تو انہیں اپنے قدرتی وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھانا ہو گا علاوہ ازیں قومی دولت کا غیر ضروری استعمال روکنا ہوگا احتساب کی روایت ڈالنا ہوگی ایک ایسا نظام وضع کرنا پڑے گا جس میں مساوات ہو انصاف ہو ایسا کرنا مشکل نہیں تاریخ میں ہوا ہے کہ تباہ حال قومیں جد وجہد کے راستے پر گامزن ہو کر ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
حرف آخر یہ کہ اہل اختیار اپنی اناؤں کے حصار سے باہر آئیں اور عوام کی اجتماعی سوچ کو تسلیم کر یں تاکہ ہر نوع کے بحران کا مقابلہ کیا جا سکے !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button