برنی سینڈرز تو جیت رہے تھے، پھر مسئلہ کیا ہوا؟
[ad_1]
گذشتہ بدھ کو امریکی صدارتی امیدوار برنی سینڈرز نے اپنی انتخابی مہم یہ کہہ کر معطل کر دی کہ انھیں ڈیموکریٹک پارٹی کی اپنی نامزدگی کا کوئی عملی راستہ نہیں نظر آ رہا۔
مگر حقیقی طور پر ان کی انتخابی مہم کو ناقابلِ تلافی نقصان کئی ہفتے پہلے اس وقت ہوا جب وہ مشیگن اور میزوری کی ریاستوں میں پرائمریز ہار گئے۔
اس کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کا پرائمری سیزن ویسے ہی مشکلات میں پڑ گیا کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے جلسے متاثر ہونے لگے اور کچھ ریاستوں کو پرائمری انتخاب ملتوی کرنے پڑے۔
اسی وقت ہی شاید برنی سینڈرز کے سخت ترین عقیدت مندوں کے علاوہ سب کو ہی سمجھ آ گئی تھی کہ اب ان کے پاس کوئی واپسی کا راستہ نہیں بچا۔
ان ریاستوں میں شکست نے اس مہم کی کمر توڑ دی تھی اور کورونا وائرس کی وجہ سے شاید ناگزیر کو تھوڑی دیر کے لیے ملتوی کر دیا۔
اسی حوالے سے مزید پڑھیے
برنی سینڈرز امریکی صدارتی انتخابات کی دوڑ سے باہر؟
’توجہ پالیسی پر ہونی چاہیے نہ کہ صدر کے الفاظ پر‘
حقیقت سامنے آنے لگی
مارچ کے اوائل میں فلوریڈا کے شہر سینٹ پیٹرز برگ کے کوریگن پب میں سینڈرز کی انتخابی مہم کے لیے کام کرنے والے کچھ کارکن میشیگن اور میزوری کے نتائج دیکھنے کے جمع ہوئے۔
ان انتخابات کی اہمیت کا انھیں خوب اندازہ تھا۔ ان کی ریاست فلوریڈا میں پرائمری انتخابات اگلے ہفتے ہونے تھے اور اگر مڈ ویسٹ کے خطے میں جہاں برنی سینڈرز نے 2016 میں کافی کامیابیاں حاصل کی تھیں، اگر وہاں وہ نہ جیت سکا تو فلوریڈا میں تو ان کا کوئی امکان نہیں جہاں 2016 میں انھیں مار پٹی تھی۔
کوریگن پب کا کمرہ کافی کھلا تھا مگر ذرا خالی ہی تھا۔ برنی کی حمایت میں ایک بینر ٹی وی سے لٹک رہا تھا۔ سکرین پر ووٹوں کے اعداد و شمار آ رہے تھے۔ ماحول ایک جنازے جیسا تھا۔
اس رات کو لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے برنی کی اپنی تقریر بھی نہیں ہونی تھی۔ اوہائیو میں ایک جلسہ ہونا تھا مگر کورونا کی وجہ سے اسے منسوخ کر دیا گیا تھا اور وہ اپنی ریاست ورمونٹ چلے گئے تھے۔
27 سالہ جرمی ڈولن اس کیفے کے مالک ہیں اور برنی سینڈرز کا حامی ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے ان دوستوں سے کیا کہے گا جو کہ سینڈرز کی مہم کے لیے کام کر رہے تھے۔
‘اگر آپ کامیاب نہ بھی ہوں، آپ پھر بھی طاقتور ہیں۔ اور جو خیالات آپ رکھتے ہیں وہ امریکہ بھر میں مقبول ہیں۔ آپ کو کامیابی نہ بھی ملے تو بھی آپ ان کا لڑنا روک نہیں سکتے۔‘
اسی دن میں پہلے قریبی یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں کچھ حامی قدرے کم نظریاتی انداز میں چیزوں کو دیکھ رہے تھے اور وہ برنی سینڈرز کے ڈیموکریٹک حریف پر زیادہ تنقید کر رہے تھے۔
ریچل ویٹسمن کہتی ہیں ‘اگر ہم پائیدار ترقی پسند مستقبل چاہتے ہیں تو برنی سینڈرز ہی واحد راستہ ہے۔ جو بائڈن کے اپنی دہانت کھونے کے علاوہ ان کی سیاست کسی طور فیصلہ کن نہیں ہے۔ وہ ہمیں اسی دور میں لے جانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ٹرمپ منتخب ہوا تھا۔ ‘
کم از کم یہ تو اچھی بات ہے!
اگرچہ برنی سینڈرز کی 2020 کی انتخابی مہم بھی 2016 کی طرح ناکام رہی ہے مگر اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس بار بہت سی چیزیں اچھی ہوئیں۔
2016 میں ان کی بڑی کمزور سی تنظیم تھی، اور بہت چھوٹے سے بجٹ پر وہ کام کر رہے تھے اور انھیں جو بھی مقبولیت ملی صرف تب جا کر ملی جب پیسے آنا شروع ہوگئے۔
اس بار ان کی تنظیم کے انتظامی ڈھانچے کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ بہت سے رضاکارانہ اور پیشہ وارانہ لوگ ان کے لیے کام کر رہے تھے اور ان کے مالی وسائل اس قدر تھے کہ وہ ہر ریاست میں لڑ سکتے تھے۔
سنہ 2020 کی انتخابی مہم کے لیے برنی سینڈرز نے مجموعی طور پر 181 ملین ڈالر اکھٹے کیے جن میں سے زیادہ تر ان افراد کی جانب سے تھے جنھوںں نے 200 ڈالر سے کم عطیات دیے تھے۔ ان کے مقابلے میں جو بائڈن نے 88 ملین جمع کیے جن میں سے زیادہ تر بڑی بڑی ڈونیشنز تھیں۔
سینڈرز کی انتخابی مہم کی ایک اور خاص بات ان کی نوجوان ووٹروں میں مقبولیت تھی۔ جن ریاستوں میں وہ بائڈن سے بڑے پیمانے پر بھی ہارے ان ریاستوں میں بھی سینڈرز نے 30 سال سے کم عمر کے ووٹرز میں زیادہ ووٹ لیے۔
ریچل اس بارے میں کہتی ہیں کہ ‘سیاستدان بوڑھے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن مستقبل تو ہمارا داؤ پر ہے۔ میرے خیال میں نوجوان تنگ آ چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمیں ایک ترقی پسند مستقبل چاہیے۔‘
برنی سینڈرز کی حمایت کرنے والوں میں لاطینی امریکی کمیونٹی کے لوگ بھی تھے۔ نیواڈا اور کیلیفورنیا کی ریاستوں میں سینڈرز کی کامیابی میں ان کا اہم کردار تھا۔ ان دونوں ریاستیں میں وہ 2016 میں ہلری کلنٹن سے ہارے تھے۔
نوجوان لاطینی ووٹرز انھیں پیار سے `تیو برنی‘ یعنی انکل برنی پکارتے تھے۔
فلوریڈا میں نتائج دیکھتے ہویے ایک رضاکار جیکی ایزز کہتی ہیں کہ ’لاطینی لوگوں کو برنی اس لیے پسند ہیں کیونکہ ان کی کہانی میں ایسے بہت سے عنصر ہیں جو لاطینی امریکی کمیونٹی کے لیے اہم ہیں۔
وہ ایک ایسی تاریکینِ وطن کی فیملی سے تھے جو کہ بنیادی چیزیں جیسے کہ گھر کا کارپٹ اور پردے خرید نہیں سکتے تھے۔‘
اور پھر کچھ برے پس منطر کی باتیں ہیں جن کا ذکر برنی نے اپنی مہم کے ورثے کے طور پر کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ عمر کے لحاظ سے مباحصہ جیت گئے ہیں۔ ا
نھوں نے نظریاتی بحث میں بھی کامیابی کا اعلان کیا جس کی مثال کے طور پر انھوں نے یونیورسل ہیلتھ کیئر، ماحولیاتی تبدیلی، اور مفت کالج کی تجاویز کا ذکر کیا جو کہ اب مرکزی دھارے میں زیرِ غور آنے لگے ہیں۔
جس دن برنی سینڈرز نے اپنی مہم ختم کی اس دن مصنف اور تجزیہ کار نوم چونسکی نے ڈیموکریسی ناؤ کے ریڈیو پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب یہ کہا جا رہا ہے کہ سینڈرز کی مہم ناکام رہی مگر ایسا نہیں ہے۔ ‘وہ انتہائی کامیاب رہی۔ اس نے میدان میں بحث اور مباحثے کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا۔‘
مگر مسئلہ یہ تھا، جس کا برنی سینڈرز نے خود اعتراف کیا، کہ وہ `الیکٹیبلیٹی‘ یعنی منتخب ہونے کی صلاحیت کے حوالے سے لڑائی ہار رہے تھے۔ اور الیکٹیبلیٹی یا الیکٹیبلیٹی کا تاثر اس مرتبہ ڈیموکریٹک ووٹرز کے لیے انتہائی اہم تھا۔
خطرےکی گھنٹی
سیڈر ریپڈز نامی شہر میں فروری کی ایک ٹھنڈی صبح کو جیمز ہُڈ، اپنی بیوی، اور دو نوجوان بچوں کے ساتھ آئیوا کاکس سے قبل برنی سینڈرز کے ایک جلسے میں تقریر سننے کے لیے کھڑے تھے۔
ڈیون پورٹ سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ وکیل جیمز کا کہنا تھا کہ وہ اس امیدوار کو سننا چاہتے ہیں مگر اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ ان کے خیال میں سینڈرز بہت بوڑھے تھے اور بہت زیادہ لوگوں کو منقسم کر دیتے تھے۔
’اس ملک میں بہت سے لوگوں کے لیے برنی کو ووٹ دینا مشکل ہوگا۔ ذاتی طور پر وہ مجھے پسند ہیں اور میرے خیال میں ان کی کارکردگی بھی ٹھیک ہوگی۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ اگر ان کی کوئی پالیسی معتدل نوعیت کی ہوتیں تو شاید وہ کامیاب ہو جاتے بجائے اس کے کہ آپ کالج مقف کر دیں۔‘
جمیز کہتے ہیں کہ میرے جیسے ووٹرز کی برنی سینڈرز کو ضرورت ہے اگر وہ 2020 میں 2016 کے برعکس کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ انھیں 2016 میں بھی برنی پسند تھے۔ اس دفعہ تو انھوں نے اپنے گھر پر برنی کا سائن بھی لگایا تھا۔ مگر آخر میں انھوں نے ہلری کلنٹن کو ووٹ دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ زیادہ محفوظ امیدوار تھیں۔
مگر چار سال بعد بھی برنی نے اپنے موقف تبدیل نہیں کیے تھے۔
اس سب کے باوجود سینڈرز ڈیموکریٹک امیدوار بننے کے بہت قریب آگئے۔ آئیوا کاکس جس میں بہت بدنظامی رہی اور ایک ہفتے تاخیر سے نتائج کا اعلان کیا گیا، پھر بھی ان کے سب سے زیادہ ووٹ تھے۔
نیو ہیمپشائر میں انھوں نے ایک چھوٹے مارجن سے پیٹ بوٹیجج کو ہرایا اور پھر نیواڈا میں تو انھوں نے میدان مار لیا جہاں انھوں نے جو بائڈن کو 26 فیصد ووٹوں سے ہرایا۔
مگر آخر میں یہ شاید ان یہی ان کی انتخابی مہم کا اونچا ترین پوائنٹ تھا۔
نیواڈا میں جیت کی شام انھوں نے کہا تھا کہ ’ہم لوگوں کو متحد کر رہے ہیں۔ نیواڈا میں ہم نے مختلف عمر والوں اور مختلف نسل والوں کا ایک اتحاد بنایا ہے جو کہ نہ صرف نیواڈا بلکہ اس پورے ملک میں کامیاب ہوگا۔‘
مگر ایسا ہو نہ سکا۔
اس کے بجائے ان کی ٹکر ایک ابھرتے ہوئے جو بائڈن سے ہوئی جنھوں نے حیران کن حد تک بڑی کامیابی اگلے ہی ہفتے جنوبی کیرولائنا میں لی۔ اور سابق صدر کی بڑی عمر کے اور سیاہ فام ووٹرز میں سپورٹ ملک کے جنوبی حصے میں واضح رہی اور انھوں نے سپر ٹیوز ڈے کو 14 میں سے 10 پرائمریز میں کامیابی حاصل کی۔
اور اس طرح برنی سینڈرز کا لیڈر کا درجہ چلا گیا۔
اب آگے کیا ہوگا؟
بدھ کو اپنی انتخابی مہم ختم کرنے کا اعلان برنی سینڈرز نے ایک مثبت نوٹ پر کیا۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ ان کی انتخابی مہم ختم ہو رہی ہے ان کی تحریک جاری رہے گی۔
‘اگرچہ اب شاید ہمارا راستہ قدرے سست ہوگا، مگر ہم اس ملک کو بدل کر رہیں گے، اور دنیا بھر میں ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر دنیا کو بدل دیں گے۔‘
گذشتہ پانچ سالوں میں برنی سینڈرز نے بالکل ہوا میں ایک تحریک نکال کھڑی کی ہے۔
اپریل 2015 میں جب انھوں نے اپنی صدارتی انتخابی مہم کا اعلان کیا تھا تو وہاں بہت تھوڑے سے صحافی پریس کانفرنس میں شریک ہوئے تھے۔
آج وہ امریکہ کے طاقتور ترین رہنمائوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا شمار براک اوباما، نینسی پلوسی، بل کلنٹن جیسے لوگوں میں ہوگا۔ اور انھوں نے یہ اثر و رسوخ کسی عہدے سے نہیں حاصل کیا، بلکہ ان لوگوں کی وجہ سے حاصل کیا جن کو وہ مخاطب کرتے ہیں۔
78 سالہ سینڈرز اپنے سیاسی کیریئر کے عروج پر ہیں۔ اور ایسا تو بہت مشکل ہے کہ وہ دوبارہ صدارتی امیدوار بنیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جو تحریک انھوں نے شروع کی ہے، اس کی قیادت اب کون کرے گا؟
Source link
International Updates by Focus News