
ججز نے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت دی، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا آرٹیکل 184/3 کا اختیار غیرمعمولی ہے۔ اگرسپریم کورٹ کو غیرمعمولی اختیار دیا جا سکتا ہے تو کیا واپس نہیں ہو سکتا۔ پہلے بھی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کا اختیارات دیے اب اگر اسے بدل رہے ہیں تو کیا مسئلہ ہے۔ کیا زیادہ دماغ مل کر سوچیں تو بہتر ہو گا یا پھر صرف ایک چیف جسٹس فیصلے کرے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔
رواں سال اپریل میں پریکٹس اینڈ پروسیجرز بل پارلیمان سے منظوری کے بعد نافذ ہوا تھا۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی لارجر بینچ نے اس پر عمل درآمد سے روک دیا تھا۔
پارلیمان کی جانب سے عدالت کے اختیار میں مداخلت سے متعلق پاکستان تحریک انصاف اور دیگر نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔
انہوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سبجیکٹ ٹو لاء کا مطلب ہے کہ آرٹیکل 191 کے تحت قوانین آئینی شقوں کے مطابق ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا آرٹیکل 184/3 کا اختیار غیرمعمولی ہے۔ اگرسپریم کورٹ کو غیرمعمولی اختیار دیا جا سکتا ہے تو کیا واپس نہیں ہو سکتا۔ پہلے بھی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کا اختیارات دیے اب اگر اسے بدل رہے ہیں تو کیا مسئلہ ہے۔ کیا زیادہ دماغ مل کر سوچیں تو بہتر ہو گا یا پھر صرف ایک چیف جسٹس فیصلے کرے۔‘
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اپیل ایک بنیادی حق ہے جس کو باقاعدہ قانون سازی سے دیا جانا چاہیے۔ کیا اس سے پہلے پارلیمنٹ اکثریت سے ترمیم نہیں کر سکتی تھی؟ اس وقت پریہ قانون سازی کرنا کیوں ضروری تھی؟‘
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ’اس سوال کو ماضی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔‘
تحریک انصاف کے وکیل عزیربھنڈاری نے سماعت کے دوران موقف اپنایا کہ ’مجھے ہدایات ہیں کہ درخواست گزاروں کے موقف کی تائید کرنی ہے۔ آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کا اہل نہیں بناتا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’مصنوعی ذہانت، خلا، سماجی رابطوں پرپارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرسکتا کیونکہ یہ فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ میں نہیں۔ پاکستان خلائی مشن شروع نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا تذکرہ فیڈرل لیجسلیٹیولسٹ میں نہیں۔‘
انہوں نے استفسار کیا کہ ’کسی کو خلائی پروگرام کرنا ہے توکیا وہ کسی معاہدے کے تحت ہو گا؟ خلائی مشن شروع کرنے کے لیے پارلیمنٹ کون سا اختیاراستعمال کرے گی۔‘
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ’میں خلائی مشن سے متعلق کیس تیار کر کے تو نہیں آیا۔‘
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’کُھل کر بات کیجیے۔ صدر بیٹھے ہیں یہ کہتے تھے فلاں ڈاکٹرائن ہے کہ کیس نہیں لگتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک چیف جسٹس نے فیصلہ کیا وہ ٹھیک ہے زیادہ ججزکریں توغلط ہے۔ یہ قانون ایک شخص کے لیے کیسے ہے یہ بھی سمجھ نہیں آیا۔ سب بس پارلیمنٹ پر حملہ کر رہے ہیں۔ یہ دیکھیں کہ قانون عوام کے لیے بہترہے یا نہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’مفروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں۔ مولوی تمیزالدین کیس سے شروع کریں یا نصرت بھٹو کیس سے۔ انہوں نے کہا آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کرنا چاہو کرو۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کو آئین میں ترمیم کی اجازت دی تھی۔ کیا آپ سپریم کورٹ کے اُس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں؟‘
درخواستگزار کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ظفرعلی شاہ کیس کے فیصلے سے متفق نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’کیا پارلیمان نے اچھا قانون نہیں بنایا کہ ہم اس فیصلے کو واپس لے سکیں؟ ججزنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئین کے ساتھ کھلواڑکی اجازت دی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سپریم کورٹ بار کہتی تھی کسی ڈاکٹرائن کی وجہ سے مقدمات مقررنہیں ہوتے۔ کیا ڈاکٹرائن آئین کے مطابق تھی؟ آپ کہتے ہیں بس فرد واحد کا اختیارکم نہ ہو۔ فرد واحد نے ہی ہمیشہ ملک کی تباہی کی ہے۔ مارشل لاء لگتا ہے تو ملک فرد واحد ہی چلاتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ’اس کمرے میں بہت سی تصاویر لگی ہیں جو مارشل لاء آنے پر حلف بھول جاتےہیں، ماضی میں جائیں وکلاء سپریم کورٹ کے 184تین کے بے دریغ استعمال پربہت تنقید کرتے رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے184 تین کے استعمال سے ماضی میں لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔ آپ کے بطورشہری اس ایکٹ سے کون سے حقوق متاثر ہوئے؟‘
چیف جسٹس نے درخواستگزار کے وکیل سے کہا کہ ’نظرثانی میں اپیل کا حق ملنے سے آپ کو کیا تکلیف ہے؟‘
وکیل حسن قادر نے کہا کہ ’اس سے قانون کی رسائی کا حق متاثر ہو گا کل کو سماجی ومعاشی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایکٹ کے سیکشن تین کے تحت کیا کمیٹی طے کرے گی کہ ازخود نوٹس لینا ہے یا نہیں؟‘
جسٹس عائشہ ملک نے سوال اُٹھایا کہ ’اگر قانون کا مقصد انصاف تک رسائی ہے تو فُل کورٹ کے خلاف اپیل کا حق کیوں نہیں حاصل ہو گا؟ کیا فل کورٹ کے خلاف اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں؟‘
درخواستگزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ قانون سازوں کے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی آیا ہی نہیں تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ’اپیل کا حق برقرار رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ فُل کورٹ یا لارجر بینچ کا راستہ بلاک ہو گیا۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ’کیا انصاف تک رسائی کے لیے قانون سازی نہیں ہوسکتی؟ درخواستگزاراس کیس سے کیسے متاثرہ فریق ہے؟ ‘
جس پر درخواستگزار کے وکیل نے جواب دیا کہ ’میرا موکل وکیل ہے اورنظام انصاف کی فراہمی کا سٹیک ہولڈر ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ ’اس ایکٹ کے تحت عوام کا انصاف تک رسائی کا بنیادی حق کیسےمتاثرہوا؟ کیا جب ازخود نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس تھا توانصاف تک رسائی متاثرنہیں ہوتی تھی؟‘
جسٹس عائشہ ملک نے درخواست گزار مدثر حسن کے وکیل حسن عرفان سے کہا کہ ’آپ اب تک درخواست قابل سماعت ہونے پردلائل دے رہے ہیں؟ صرف یہ بتا دیں کہ کون کون سی دفعات سے آپ متفق یا مخالف ہیں۔‘
درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ پارلیمان نے قانون سازی کی آڑ میں دراصل آئین میں ترمیم کر دی ہے۔ آرٹیکل 184 تین خاموش ہے کہ کون سا خاص حق متاثر ہو گا تو نوٹس ہو سکے گا۔‘
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندو خیل نے سوال اُٹھایا کہ ’کیا سپریم کورٹ کے اختیارات کسی ایک کو دیے جا سکتے ہیں، سپریم کورٹ کے اختیارات کس قانون کے تحت دوسرے کو دیے جا سکتے ہیں؟‘
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ’مقدمات کو مقرر کرنا اور بینچز تشکیل دینا سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات ہیں۔‘
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔
درخواستگزار کے وکیل اکرام چوہدری نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ’باقی دلائل تحریری طور پر جمع کرا دوں گا۔‘
درخواست گزار مدثر حسن کے وکیل حسن عرفان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’تمام عدالتی سوالات کے جواب آئین میں موجود ہیں۔ آرٹیکل 184 تین کا استعمال آئین نے سپریم کورٹ پر لازم قرار دیا۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا آرٹیکل 184 تین کا اختیارصرف چیف جسٹس کے پاس نہیں بلکہ پوری سپریم کورٹ کے پاس ہے؟‘
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ’آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو اپنے ضابطے کے رولزبنانے کے لیے بااختیاربناتا ہے۔ سپریم کورٹ خود اپنے اختیارات کو ایک یا جتنے بھی ججزمیں تقسیم کرسکتی ہے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’اگر کل پارلیمنٹ قانون بناتی ہے بیوہ عورتوں کے کیسزکو ترجیح دیں۔ کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی؟‘
وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ عوام کی منشاء آئین کی بنیاد ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’یہاں سوال قانون سازی کے اختیار کا ہے۔ آئین میں ٹیکنیکل اصطلاح ہے کہ مقننہ قانون سازی کے اختیارسے تجاوزکرے تویہ فراڈ ہے۔ سوال یہ ہےکہ کیا پارلیمنٹ اتنی باریکی سے سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرسکتی ہے؟‘
چیف جسٹس نے باور کرایا کہ ’ہمیں اس کیس کو آج کنارے لگانا ہے۔‘ انہوں نے درخواستگزار کے وکیل سے کہا کہ ’45 منٹ سے آپ کوسن رہے ہیں اب دلائل ختم کیجیے۔ اگرکوئی دلیل رہ جائے تو تحریری طورپرجمع کرائی جا سکتی ہے۔‘
وکیل اکرام چوہدری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ’ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کاررواٸی کا ریکارڈ ہی نہیں‘ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ نے اس معاملے پر سپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا؟‘
انہوں نے جواب دیا کہ ’نہیں میں نے ریکارڈ کے لیے خط نہیں لکھا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اب قانون بن چکا ہے۔ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی تھی یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔ قانونی دلائل دیجیے کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کے حق کوسلب کیا۔‘
وکیل اکرام چوہدری نے حسبہ بل کیس کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’حسبہ بل قانون بنا ہی نہیں تھا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بن چکا ہے۔‘
درخواستگزار کے وکیل اکرام چوہدری نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’اس قانون کو خاص وجہ سے بنایا گیا ہے۔ ایکٹ کو مخصوص شخص کے لیے بنایا گیا۔ ایکٹ کے سیکشن 3 میں 184 تین کے کیسز کے لیے ججز کمیٹی بنائی گئی ہے۔‘
انہوں نے موقف اپنایا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی سیکشن تین آئین اورسپریم کورٹ رولز کے متصادم ہے۔ سیکشن تین کے تحت 184/3 کا ہرمعاملہ تین رکنی کمیٹی کے پاس جانا خلافِ آئین ہے۔ پارلیمان نے اختیارات کی آئینی تقسیم کی خلاف ورزی کی ہے۔‘
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’کچھ ججز سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کا اختیار آمنے سامنے ہے کچھ ایسا نہیں سمجھتے۔ ہمارے سامنے اٹارنی جنرل اور سینئیر وکلاء ہیں۔ سب کو سنیں گے۔‘
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’ہماری کوشش ہوگی کہ آج کیس کو ختم کریں۔ ایک کیس کو ہی لے کر نہیں بیٹھ سکتے۔ سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیسز زیرِ التوا ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج اس قانون کا اثر بالخصوص چیف جسٹس اور دو سینیئر ججز پر ہو گا۔ اختیارات کو کم نہیں بلکہ دو سینئیر ججز کے ساتھ بانٹا جا رہا ہے۔ اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹسز پر بھی ہو گا۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔