اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

جیل بھرو تحریک: پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں دن بھر کیا چلتا رہا؟

پی ٹی آئی کی جانب سے میڈیا کو دیے گئے شیڈول کے مطابق مرکزی قیادت کو جیل روڈ دفتر کے سامنے ساڑھے 12 بجے پہنچنا تھا اور پھر وہاں سے ایک ریلی کی صورت میں پنجاب اسمبلی کے سامنے چئیرنگ کراس پر پولیس کو رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں دینا تھیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ملک بھر میں ’جیل بھرو تحریک‘ کے پہلے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ لاہور سے شروع ہونے والی اس تحریک میں ایک ہی دن میں ڈرامائی واقعات ہوئے اور آخری وقت تک یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس کی حکمت عملی بہتر ہے تحریک انصاف کی یا پھرپولیس کی۔
بدھ کی صبح 11بجے ہی جیل روڈ پر واقع تحریک انصاف کے مرکزی دفتر میں کارکنان اکھٹے ہونا شروع ہوئے جبکہ یاسمین پہلی رہنما تھیں جو وہاں پہنچی تھیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے میڈیا کو دیے گئے شیڈول کے مطابق مرکزی قیادت کو جیل روڈ دفتر کے سامنے ساڑھے 12 بجے پہنچنا تھا اور پھر وہاں سے ایک ریلی کی صورت میں پنجاب اسمبلی کے سامنے چئیرنگ کراس پر پولیس کو رضاکارانہ طور پر گرفتاریاں دینا تھیں۔
دن ایک بجے جب مرکزی دفتر سے قافلہ نکلا تو شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ان کو چیئرمین تحریک انصاف نے گرفتاری دینے سے منع کر دیا ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف کی حکمت عملی سے لگ رہا تھا کہ رہنماوں کی بجائے کارکنان کی گرفتاریاں دینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
تحریک انصاف کا یہ قافلہ تقریباً 2 بجے سہ پہر چئیرنگ کراس پہنچ چکا تھا۔ قیادت کے لیے ایک بڑا سٹیج بنایا گیا تھا جبکہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے لوہے کے جنگلوں سے بنی علامتی جیلیں بھی بنائی ہوئی تھیں جو میڈیا کی توجہ کا مرکز تھیں۔
چیئرنگ کراس میں تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنان اور رہنما بار بار پولیس کو دعوت دے رہے تھے کہ انہیں گرفتار کیا جائے لیکن پولیس کی طرف سے کوئی تیاری دکھائی نہیں دیتی تھی۔
صرف دو قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیاں کھڑی دکھائی دے رہی تھیں جبکہ کوئی دو درجن پولیس اہلکار حفاظتی ڈیوٹیاں دیتے دکھائی دیے۔
جب شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں کارکنوں کو سامنے سڑک پر موجود لاہور کے پولیس چیف یعنی سی سی پی او کے دفتر کے باہر اکھٹا ہونے کی ہدایت کی تو یہیں سے اچانک صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی آنا شروع ہوئی۔
کارکنوں نے سی سی پی او آفس کی طرف چلنا شروع کر دیا تو کنٹینر پر موجود لیڈرشپ بھی نیچے آنا شروع ہوئی۔ اور تھوڑی ہی دیر میں صورت حال ایسے تھی کہ ایک پریزن وین میں تحریک انصاف کی وہاں موجود پوری قیادت بشمول شاہ محمود قریشی، اسد عمر، اعظم سواتی ، جمشید چیمہ وغیرہ بیٹھے دکھائی دیے۔
اس وین کی چھت اور چاروں اطراف کارکنان چمٹے ہوئے تھے۔ یہ وین وہاں سے چل نکلی تو دوسری وین پر بھی تحریک انصاف کے کارکنوں نے دھاوا بول دیا اور کوئی اس کی چھت پر چڑھ گیا۔ کوئی اندر بیٹھ گیا۔ یہ وین بھی وہاں سے روانہ ہو گئی۔
پھر آہستہ آہستہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی تعداد کم ہونا شروع ہوئی۔
اس کے بعد اچانک چاروں اطراف سے قیدیوں کو لے جانے والی ایک درجن کے قریب گاڑیاں نمودار ہوئیں اور ساتھ پولیس کی بھاری مسلح نفری بھی دیکھنے کو ملی۔
پولیس نے لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کرنا شروع کر دیے کہ جو جو لوگ گرفتاری دینا چاہتے ہیں وہ گاڑیوں میں بیٹھیں لیکن اب کوئی بھی کارکن نہیں بیٹھ رہا تھا۔
اب صورت حال یہ تھی کہ تحریک انصاف کی قیادت ایک وین میں بند تھی اور اس کی چھت پر کارکنان بیٹھے ہوئے تھے اور باقی کارکن تتربتر ہو گئے۔
اسی دوران شاہ محمود قریشی نے وین کے اندر ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ انہیں پولیس نے دھوکے سے گاڑی میں بٹھایا ہے۔
یہ پریزن وین پہلے کیمپ جیل کے باہر رکی رہی۔ اس کے بعد اس کو کوٹ لکھپت جیل کی طرف روانہ کر دیا گیا۔
اب اطلاعات یہ ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت کو لے جانے والی وین کوٹ لکھپت جیل پہنچ چکی ہے جبکہ حماد اظہر اور دیگر رہنما اپنی گاڑیوں میں کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے ہیں۔
جیل کے مرکزی دروازے پر بھاری سکیورٹی تعینات کر دی گئی ہے جبکہ ہنگاموں سے نمٹنے والی پولیس نے بھی پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔
تحریک انصاف کی اپنی حکمت عملی میں قیادت کی گرفتاری شامل نہیں تھی لیکن پولیس نے وہاں موجود تقریباً ساری قیادت کو ہی ایک وین میں اکھٹا کر لیا۔ لیکن ابھی تک پولیس نہ تو مقدمات اور ہی نہ ہی قانونی گرفتاریوں کی کوئی تفصیلات میڈیا سے شئیر کی ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button