مشرق وسطیٰ

سعودی عرب دنیا میں سزائے موت دینے والے ممالک میں سرفہرست :ایمنسٹی انٹرنیشنل

[ad_1]

سعودی عربتصویر کے کاپی رائٹ
ANADOLU AGENCY

Image caption

گذشتہ سال اپریل میں سعودی عرب نے 37 لوگوں کو دہشتگردی کے جرائم میں ایک ساتھ سزائے موت دی۔ ایمنسٹی کے مطابق ان تمام مردوں میں سے پانچ کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے تھا

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سزائے موت میں کمی آنے کے باوجود سعودی عرب نے گذشتہ سال 184 لوگوں کو سزائے موت دی ہے۔

گذشتہ سال عراق میں بھی ہلاکتوں کی تعداد میں دُگنا اضافہ ہوا اور سو افراد کو سزائے موت دی گئی جبکہ ایران 251 سزائے موت کی سزاؤں کے ساتھ چین کے بعد دوسرے نمبر پر سب زیادہ سزائے موت دینے والا ملک بن چکا ہے۔

حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گذشتہ چار برسوں سے عالمی سطح پر سزائے موت میں کمی کا رحجان دیکھنے میں آیا ہے۔ اب یہ سزائیں کم ہو کر 657 تک آ گئی ہیں جو سنہ 2018 کے مقابلے میں پانچ فیصد کم ہیں۔

ایمنسٹی کے مطابق یہ گذشتہ دہائی کی سب سے کم تعداد بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب میں 37 افراد کے سر قلم کر دیے گئے

دنیا بھر میں سزائے موت میں ’37 فیصد کمی’

’پاکستان کا شمار سزائے موت پر زیادہ عمل کرنے والے ممالک میں‘

ایمنسٹی نے ان اعدادوشمار میں چین کو شامل نہیں کیا جہاں خیال کیا جاتا ہے کہ پھانسی دیے جانے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے لیکن وہ ایک ریاستی راز ہی بن کر رہ گیا ہے۔

یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ایران، شمالی کوریا اور ویتنام نے معلومات تک رسائی کو روکتے ہوئے سزائے موت پانے والوں کی صیحح تعداد نہیں بتائی۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Thinkstock

Image caption

حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گذشتہ چار برسوں سے عالمی سطح پر سزائے موت میں کمی کا رحجان دیکھنے میں آیا ہے

ایمنسٹی کی سینیئر ریسرچ ڈائریکٹر کلیر الگر کا کہنا ہے کہ ’سزائے موت ایک غیر مہذب اور غیر انسانی قسم کی سزا ہے اور اس بات کا کوئی ناقابل تردید ثبوت نہیں ہے کہ اس سے قید کے مقابلے میں جرائم کی حوصلہ شکنی ہوئی ہو۔‘

ان کے مطابق بڑی تعداد میں ممالک نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے اور یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ اب دنیا بھر میں ان سزاؤں میں کمی آ رہی ہے۔

’تاہم چند ایسے ممالک ہیں جنھوں نے اس عالمی رحجان کی نفی کرتے ہوئے سزائے موت میں ایک تسلسل سے اضافہ کیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے سزائے موت میں اضافہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔

گذشتہ سال سعودی عرب نے 178 مردوں اور چھ خواتین کو سزائے موت دی۔ سزائے موت پانے والوں میں آدھی سے ذیادہ تعداد غیر ملکیوں کی بنتی ہے۔ سنہ 2018 میں سزائے موت کی یہ تعداد 149 تھی۔

ان میں سے اکثریت کو قتل اور منشیات سے متعلق جرائم میں سزائیں سنائی گئی تھیں۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

دنیا بھر میں 106 ممالک نے تمام جرائم کے لیے سزائے موت کو قانون سے ہی ختم کر دیا ہے

ایمنسٹی کے مطابق ’سزائے موت میں اضافہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر شیعہ مسلم اقلیت کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔‘

گذشتہ سال اپریل میں 37 لوگوں کو دہشتگردی کے جرائم میں ایک ساتھ ہی سزائے موت دی گئی۔ ایمنسٹی کے مطابق ان تمام مردوں میں سے پانچ کا تعلق شیعہ کمیونٹی سے تھا، جن سے دوران قید تشدد کے نتیجے میں دہشتگردی کرنے کا اعترافی بیان لیا گیا۔

الگر کا کہنا ہے کہ عراق میں سنہ 2018 میں 52 افراد سے سنہ 2019 میں 100 افراد کو سزائے موت دیے جانا بہت افسوسناک ہے۔

اس میں اضافہ دہشتگرد تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والوں کو سزائے موت کی سزا سنانے کی وجہ سے ہوا ہے۔

جنوبی سوڈان میں حکام نے گذشتہ سال کم از کم گیارہ افراد کو سزائے موت دی ہے۔ سنہ 2011 سے جب یہ ملک آزاد ہوا ہے، یہ اب تک کی سب سے ذیادہ تعداد بنتی ہے۔

یمن نے 2018 میں چار جبکہ 2019 میں سات لوگوں کو سزائے موت دی۔ ایک سال کے وقفے کے بعد بنگلہ دیش اور بحرین نے بھی سزائے موت پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔

ایمنسٹی کے مطابق عالمی سطح پر سزائے موت میں کمی کا رحجان مختلف وجوہات سے دیکھنے میں آیا ہے۔

مصر، جاپان اور سنگا پور سمیت کئی ممالک میں سزائے موت میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، جو سزائے موت کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

سنہ 2017 میں اینٹی نارکوٹکس کے قانون میں تبدیلی کے بعد ایران نے مسلسل دوسرے سال ماضی کے مقابلے میں کم لوگوں کو سزائے موت دی۔

سنہ 2010 سے پہلی بار افغانستان میں کوئی سزائے موت نہیں دی گئی۔ سنہ 2018 میں موت کی سزا دینے والے تائیوان اور تھائی لینڈ میں بھی موت کی سزاؤں میں وقفہ دیکھا گیا ہے۔

دنیا بھر میں 106 ممالک نے تمام جرائم کے لیے سزائے موت کو قانون سے ہی ختم کر دیا ہے جبکہ 142 ممالک نے اپنے قانون سے سزائے موت کو یا تو ختم کر دیا یا اس پر عملدرآمد چھوڑ دیا ہے۔

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button