شمال مشرقی انگلینڈ کے علاقے سندرلینڈ میں تکیے کے غلاف میں چھپائے گئے پراسرار سانپوں کا معمہ
[ad_1]
اُس مجرم کی تلاش تو ابھی جاری ہے جو اس سال فروری میں 29 قیمتی سانپوں کو چھوڑ کر فرار ہو گیا تھا لیکن اس کیس نے سب کو حیران و پریشان کر دیا ہے۔
تکیے کے غلاف کے اندر کسی چیز کا حرکت کرنا ظاہر کر رہا تھا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
شمال مشرقی انگلینڈ کے علاقے سندرلینڈ میں ویلنٹائن ڈے سے ایک دن پہلے فائر فائٹرز کو ایک غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کہا گیا۔
وہاں ٹرین سٹیشن کے پیچھے ایک بستر کے اندر 13 رائل پائتھن سانپ چھپا کے رکھے گئے تھے جو دو سے چار فٹ تک لمبے تھے۔
جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم آر ایس پی سی اے کو بلایا گیا اور موقع پر پہنچنے والا اہلکار ان سست جانوروں کو جو سردی میں پڑے ہوئے تھے اینیمل ہوم لے گیا تا کہ انھیں آرام دہ گرم ماحول میں رکھا جائے۔ .
اگلی صبح یعنی 14 فروری کو جانوروں کے ایک مقامی ڈاکٹر نے ان سانپوں کا معائنہ کیا جو سب بہتر حالت میں تھے سوائے ایک سانپ کے جو بعد میں مر گیا۔
یہ وہ مرحلہ تھا جب آر ایس پی سی اے کے انسپیکٹر ٹریور واکر کو بلایا گیا۔ حالانکہ وہ قریب ہی واقع شہر نیوکاسل میں رہتے تھے لیکن وہ یارک شائر کے رہائشی تھے اور اس روز اپنے خاندان سے ملنے وہاں آ رہے تھے۔
ان سانپوں کو آر ایس پی سی اے کے مخصوص سینٹر میں لے جانے کی ضرورت تھی تو واکر نے پیشکش کی کہ وہ انھیں اپنی گاڑی میں لے جائیں گے۔
‘ہمارے پاس سانپوں کو رکھنے کے لیے 12 بیگ تھے۔ ہر بیگ میں ایک سانپ رکھا ہوا تھا۔ یہ بیگ گاڑی کے بوٹ میں رکھے ہوئے تھے جہاں مناسب گرمی تھی۔ میں نے یہ بات اپنی اہلیہ کو اس وقت بتائی جب تک ہم آدھے راستے تک پہنچ چکے تھے۔ میرے خیال تھا کہ اگر میں اس کو پہلے بتا دیتا وہ زیادہ خوش نہیں ہوتی۔’
سانپوں کو باحفاظت پہنچانے کے بعد واکر اپنے گھر کے معاملات میں مصروف ہو گئے لیکن اگلے روز انھوں نے اپنے آئی پیڈ پر دیکھا کہ انھیں ایک اور کال موصول ہوئی ہے۔
کوئی بالکل اسی جگہ پر مزید سانپوں چھوڑ گیا تھا۔ اس مرتبہ ایک رائل پائتھن اور 15 دوسرے سانپوں کو دو مختلف تکیہ غلافوں میں رکھا گیا تھا۔
نارتھ ایسٹ ریپٹائل ریسکیو نامی ادارہ رینگنے والے جانوروں کو بچاتا ہے اور ان کے رہنے کا بندوبست کرتا ہے۔ ادارے کے اہلکار ایلک وڈ کہتے ہیں کہ کسی بھی شریف آدمی کو یہ دیکھ کر جھٹکا لگے گا۔
‘یہ ظالمانہ حرکت ہے اور ہم میں سے کوئی بھی یہ دیکھنا نہیں چاہتا کہ کسی بھی جانور کے ساتھ ایسا ہو۔ ایسے واقعات سے جانوروں کو پالنے کا شوق بدنام ہوتا ہے۔’
سانپوں کے ملنے کے ان دو واقعات نے مقامی اور قومی سطح پر میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
واکر کہتے ہیں کہ سانپوں کی اتنی بڑی تعداد کا ملنا غیر معمولی بات ہے۔
‘اتنی بڑی تعداد کا مطلب ہے کہ ان کی تجارت ہو رہی ہے، شاید پالتو جانوروں کی کوئی دوکان ہوسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی دوکان والا اتنے قیمتی سانپوں کو اس طرح کیوں چھوڑ دے گا۔’
آر ایس پی سی اے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں لیکن ان میں بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ سی سی ٹی کی کوئی فوٹیج موجود نہیں ہے۔
جانوروں کے حقوق کی مہم چلانے والے ایک گروپ پیٹا نے اس بارے میں معلومات پہنچانے والے کے لیے ڈھائی ہزار پاونڈ کا انعام رکھا ہے، ایسی معلومات جن سے اس کام میں ملوث افراد کو گرفتار اور سزا دی جا سکے۔
پیٹا کی ڈائریکٹر ایلیسا ایلن کا کہنا ہے کہ ’اتنے سارے جانوروں کو ایسے پھینکنا ہمدری کی کمی کا ثبوت ہے۔‘
ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں چار لاکھ سانپ پالتو جانور کے طور پر گھروں میں رکھے ہوئے ہیں حالانکہ اژدھے اور کارن سانپوں کو پالنا ایک مہنگا شوق ہے۔
آر ایس پی سی اے کے معیار کے مطابق ہر سانپ کو ایک الگ گھر میں رکھا جانا چاہیے جو اتنا بڑا ہو کہ وہ اس میں سیدھا ہو سکے۔ اِس گھر کا ایک حصہ دوسرے حصے کے مقابلے میں گرم اور ہلکا ہو۔ اِس گھر میں ہوا کی مناسب آمد و رفت ہو۔ اگر آپ نے اژدھا پالا ہوا ہے تو ہوا میں نمی کا تناسب مغربی افریقہ جیسا رکھا جانا ضروری ہے جہاں سے ان اژدھوں کا تعلق ہے۔ جبکہ کارن سانپوں کے لیے امریکہ کے خشک علاقوں جیسے ماحول کا انتظام ہونا چاہیے۔
سانپوں کو پالنے کے ماہرین بھی یہ سمجھ نہیں سکے ہیں کہ سٹیشن کے پاس ملنے والے سانپ کس کے ہو سکتے ہیں.
واکر کا کہنا ہے کہ ان اقسام کے سانپوں کے دیکھ بھال کرنے کے لیے اچھے خاصے پیسے درکار ہوتے ہیں اور انھیں گھروں میں رکھنا انتہائی مشکل ہے۔
سانپوں کو پالنے میں مہارت رکھنے والے بھی یہ سمجھ نہیں سکے ہیں کہ سٹیشن کے پاس ملنے والے سانپ کس کے ہو سکتے ہیں۔
ایلک وڈ کہتے ہیں کہ اگر کوئی سانپوں کی اتنی بڑی تعداد کو دینا چاہتا تھا تو اس حوالے سے کسی کو تو علم ہونا چاہیے تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ یہاں ایسے لوگوں سے بات کریں جو ریپٹائل کمیونٹی چلاتے ہیں، یا ایسے جو دوکانیں چلاتے ہیں وہ بھی کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے۔‘
ایلک وڈ بتاتے ہیں ملنے والے اژدھوں میں سے کچھ تو بہت قیمتی ہیں کیونکہ یہ بہت نایاب قسم کے رنگوں اور نقش و نگار والے ہیں جنھیں مورف کہا جاتا ہے۔
ان کے خیال میں شاید ان سانپوں کے مالک نے ایسا نہ کیا ہو، شاید کوئی حادثہ ہوا ہو، کوئی غیر متوقع بیماری یا موت، کوئی گھریلو ناچاقی جس کے نتیجے میں اس سانپوں سے تعلق رکھنے والے فرد کی سمجھ میں نہ آیا ہو کہ اب ان کا کیا کرنا ہے۔
نیشنل سینٹر فار ریپٹائل ویلفیئر کے کرس نیومین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں اتنے قیمتی سانپوں کا ملنا عجیب ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سانپ پالنے والے ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں، وہ ایک برادری کی طرح ہوتے ہیں، لہٰذا ان میں سے کسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کس کے سانپ ہیں۔
‘عموماً جو شخص کارن سانپ پالتا ہے وہ کارن سانپ ہی اپنے پاس رکھتا ہے اور اسی طرح اژدھے پالنے والے صرف اژدھے پالتے ہیں، مختلف طرح کے سانپ نہیں رکھتے۔’
کرس نیومین کو اسی وجہ سے یہ معاملہ مشکوک لگتا ہے، کسی کی جانب سے سانپ پالنے کا شوق رکھنے والی برادری کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ .
‘جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اس شوق کے بارے میں اکثر منفی باتیں کرتے ہیں، اسی لیے آپ یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اِس کے پیچھے کچھ نہ کچھ تو ہے۔’
تاہم نیومین سے جب پوچھا گیا کہ یہ کس نے کیا ہے تو انھوں نے کہا کہ انھیں یہ معلوم نہیں۔
لیکن ایلک وڈ کہتے ہیں کہ کئی لوگ اِس معاملے میں آر ایس پی سی اے کو شامل کرنے کے بارے میں متنفر ہیں کیونکہ یہ ادارہ تمام غیر معمولی جانوروں کو پالتو کے طور پر رکھنے کے خلاف ہے۔.
جب سنہ 2000 کی دہائی میں اینیمل ویلفیئر ایکٹ سامنے لایا جا رہا تھا تو اس وقت یہ مہم چلائی گئی تھی کہ رینگنے والے تمام جانورں کو رکھنے پر پابندی لگائی جائے۔ سانپوں کوپالنے والوں کی برادری اس مہم کو ابھی بھولی نہیں ہے۔
آر ایس پی سی اے کے پریس آفیسر کا کہنا ہے کہ ریپٹائل پالنے والوں میں یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ ادارہ سانپوں کو رکھنے کے خلاف ہے۔ انھوں نے ادارے کی اس دستاویز کا حوالہ دیا جس میں جانوروں پالنے کے دوران ان کا خیال رکھنے کے لیے ضروری معلومات دی گئی ہیں۔
آر ایس پی سی اے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ادارے کو رینگنے والے جانوروں کی تجارت اور گھروں پر رکھنے کے بارے میں تحفظات ہیں۔ ان میں سے کچھ مخصوص جانورں کی ضروریات کو پورا کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل کام ضرور ہے۔
’مثال کے طور پر بعض اژدھے اپنی عمر کے ساتھ 30 فٹ تک لمبے ہو جاتے ہیں اور عام گھروں میں انھیں مناسب جگہ فراہم کرنا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔‘
جانوروں کے حقوق کی مہم چلانے والا گروپ پیٹا کا دیرینہ موقف ہے کہ نجی ملکیت میں سانپوں کے لیے صورتحال تکلیف دہ ہوتی ہے۔
‘ان میں سے اکثر کو ان کے قدرتی ماحول سے نکال کر ہزاروں میل دور پہنچا دیا جاتا ہے اور انتہائی خراب سہولیات میں رکھا جاتا ہے۔’
ادارے نے حال ہی میں ایک مہم شروع کی ہے جس میں ایسی قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کے ذریعے یہ لازمی ہو کہ سانپوں کو ایسی جگہ رکھا جائے جہاں وہ پوری طرح اپنے آپ کو پھیلا سکیں۔
اِس دوران آر ایس پی سی اے کی تحقیقات جاری ہیں۔
ٹریور واکر کہتے ہیں کہ ‘ہم نے اپیل کی ہے کہ اگر کسی کے پاس بھی یہ معلومات ہیں کہ ان دو راتوں میں کیا ہوا تھا تو وہ سامنے آئے، خاص طور پر اگر کسی نے کوئی گاڑی دیکھی ہے تو ہمیں بتائے۔’
ادارے کو اس گتھی کے کچھ سرے ملے ہیں لیکن انھیں ابھی ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
Source link
International Updates by Focus News