صدر ٹرمپ کورونا وائرس کے معاملے میں اپنے انٹیلجنس ادارے سے متفق نہیں
[ad_1]
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بظاہر اپنے ہی ملک کے انٹیلیجنس اداروں کی اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ کورونا وائرس انسان کا بنایا ہوا نہیں ہے۔
انٹیلیجنس برادری کے بیان کے برعکس انھوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ انھوں نے اس حوالے سے ثبوت دیکھے ہیں کہ کورونا وائرس ایک چینی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔
اس سے قبل امریکہ کے قومی انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ابھی بھی یہ معلوم کیا جا رہا ہے کہ وائرس کیسے شروع ہوا۔
مگر بیان میں کہا گیا کہ انھوں نے یہ تصدیق کر لی ہے کہ کووِڈ-19 ’انسان کا بنایا ہوا یا جینیاتی تبدیلی کے ذریعے بنایا ہوا نہیں ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
کورونا وائرس نے امریکہ کو کیسے بے نقاب کیا؟
کورونا وائرس: امریکہ اور چین کی جنگ کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟
کورونا وائرس: امریکہ اور چین کیوں ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں؟
چین نے لیبارٹری میں وائرس کی تیاری کے نظریے کو پہلے ہی مسترد کر دیا ہے اور کووِڈ-19 پر امریکی ردِعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
گذشتہ سال کے اواخر میں چین کے شہر ووہان سے ابھرنے والا یہ وائرس اب تک مصدقہ طور پر دنیا بھر میں 32 لاکھ سے زائد لوگوں کو متاثر کر چکا ہے جبکہ دو لاکھ 30 ہزار سے زائد لوگ اب تک اس مرض سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے کیا کہا؟
جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں ایک رپورٹر نے صدر ٹرمپ سے پوچھا: ’کیا آپ نے اب تک ایسی کوئی چیز دیکھی ہے جس سے آپ کو یہ مکمل یقین ہوجائے کہ وائرس ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی سے شروع ہوا تھا؟‘
اس کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا: ’ہاں، میں نے دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا ہے۔‘ لیکن انھوں نے اس کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
انھوں نے کہا ’مجھے لگتا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کو اپنے اوپر شرم آنی چاہیے کیونکہ وہ چین کے تعلقاتِ عامہ کے دفتر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔‘
جب ان سے اپنے تبصرے کی وضاحت کرنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے کہا: ’میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا۔ مجھے آپ کو یہ بتانے کی اجازت نہیں ہے۔‘ انھوں نے رپورٹرز سے کہا: ’چاہے انھوں [چین] نے غلطی کی ہو یا یہ غلطی سے شروع ہوا ہو اور پھر انھوں نے ایک اور غلطی کی ہو، یا یہ کہ کسی نے کچھ سوچ سمجھ کر کیا؟‘
انھوں نے کہا کہ: ’مجھے نہیں سمجھ آتا کہ کیسے لوگوں کو باقی چین میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی مگر انھیں باقی دنیا میں جانے دیا گیا۔ یہ غلط ہے، یہ ان کے لیے ایک مشکل سوال ہے۔‘
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے جمعرات کو رپورٹ کیا کہ وائٹ ہاؤس کے سینیئر حکام نے امریکی انٹیلیجنس اداروں سے تفتیش کرنے کے لیے کہا ہے کہ کہیں وائرس ووہان کی ریسرچ لیبارٹری سے تو نہیں آیا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکام نے بدھ کو این بی سی نیوز کو بتایا کہ انٹیلیجنس اداروں کو یہ بھی پتا لگانے کا حکم دیا گیا ہے کہ آیا چین اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے وائرس کے بارے میں معلومات چھپائے تو نہیں رکھیں۔
انٹیلیجنس سربراہ کا کیا کہنا تھا؟
امریکہ کے تمام انٹیلیجنس اداروں کے منتظم ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس کے دفتر سے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک غیر معمولی عوامی بیان میں کہا گیا کہ وہ کووِڈ-19 کے قدرتی طور پر پیدا ہونے کے بارے میں ’سائنسی برادری کے عمومی اتفاقِ رائے سے‘ متفق ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’[انٹیلیجنس برادری] ابھرتی ہوئی معلومات کی کڑی پڑتال جاری رکھے گی تاکہ جانا جا سکے کہ یہ وبا متاثر جانوروں کے ساتھ رابطے میں آنے سے پھوٹی یا پھر یہ ووہان میں کسی لیبارٹری میں حادثے کی وجہ سے شروع ہوئی۔‘
یہ امریکہ اور چین دونوں کی جانب سے پیش کیے گئے اُن سازشی مفروضوں کے خلاف امریکی انٹیلیجنس کا پہلا واضح بیان ہے کہ یہ وائرس درحقیقت ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے۔
پس منظر کیا ہے؟
صدر ٹرمپ حالیہ دنوں میں اس وبا کے معاملے پر چین کے ساتھ لفظی جنگ کو ہوا دیتے رہے ہیں حالانکہ امریکی صدارتی انتظامیہ کے حکام نے کچھ عرصہ قبل قرار دیا تھا کہ ان کی بیجنگ کے ساتھ صلح ہوگئی ہے۔
بدھ کو انھوں نے عندیہ دیا کہ چین چاہتا ہے کہ وہ نومبر میں دوبارہ انتخابات میں ہار جائیں۔
صدر ٹرمپ اس سے قبل چینی حکام پر ابتدا میں وائرس چھپانے کا الزام لگا چکے ہیں اور انھوں نے کہا تھا کہ وہ اس مرض کو پھیلنے سے روک سکتے تھے۔
اسی طرح انھوں نے عالمی ادارہ صحت پر بھی تنقید کی ہے اور اس کے لیے امریکہ کی فنڈنگ ختم کر دی ہے۔
چین کی وزارتِ خارجہ نے اس سب کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے وائرس سے نمٹنے میں مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
وزارت کے ایک ترجمان نے بار بار یہ بات ثبوت پیش کیے بغیر دہرائی ہے کہ کووِڈ-19 شاید امریکہ میں پیدا ہوا ہو۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ چین کو مالیاتی طور پر نقصان پہنچانے کے طریقے ڈھونڈ رہی ہے۔
اطلاعات یہ ہیں کہ چین پر ہرجانے کا مقدمہ کرنے یا خود پر چین کے واجب الادا قرضوں کو منسوخ کرنے کے بارے میں بحث جاری ہے۔
Source link
International Updates by Focus News