ویتنام نے ایسا کیا کیا کہ وہاں کورونا سے ایک بھی موت نہیں؟
[ad_1]
کووڈ۔19 کا انفیکشن پوری دنیا میں پھیل رہا ہے لیکن ایک ایسا ملک ہے جہاں اس کی جھلک بہت کم نظر آتی ہے۔
یہ ملک ویتنام ہے اور جو اس ملک چین سے متصل ہے جہاں سے یہ وبا شروع ہوئی۔ ویتنام کی آبادی بھی قریب نو کروڑ سے زیادہ ہے۔
لیکن 23 اپریل تک اس ملک میں کووڈ 19 کے انفیکشن کے صرف 270 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں کووڈ-19 سے ویتنام میں ایک بھی شخص کی موت نہیں ہوئی ہے۔
جب وائرس کا پھیلاؤ شروع ہوا تو ویتنام نے اپنے عوام کو آگاہ کیا اور اس وبا سے لڑنے کے لیے جنگی پیمانے پر تیاریاں کین لیکن اب یہاں سے پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں اور سکولوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ویتنام نے ایسا کیا کیا جسے دوسرے ممالک بھی ایک ماڈل کے طور پر اپناسکتے ہیں۔
کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟
دنیا میں کورونا کے مریض کتنے اور کہاں کہاں ہیں؟
کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟
کورونا وائرس: مختلف ممالک میں اموات کی شرح مختلف کیوں؟
کورونا وائرس: وینٹیلیٹر کیا ہوتا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں
کیا ماسک آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے؟
سرحدیں بند کرنے کا فیصلہ
جنوری کے آخری دنوں میں ویتنام میں کورونا انفیکشن کا پہلا کیس سامنے آیا تھا۔
اس کے بعد فوری فیصلہ کرتے ہوئے ویتنام نے چین کے ساتھ اپنی سرحد کو مکمل طور پر بند کردیا۔
اس کے علاوہ تمام بڑے ہوائی اڈوں پر دوسرے ممالک سے آنے والے ہر شہری کی تھرمل سکریننگ کے ذریعے جانچ انتظام کیا گیا تھا۔
حکومت کو احساس ہو گیا تھا کورونا انفیکشن ان لوگوں میں نظر آ رہا ہے جو بیرون سے وہاں پہنچ رہے ہیں۔ اور پھر حکومت نے بیرون ملک سے آنے والے ہر فرد کو 14 دن کے لیے قرنطینہ میں رکھنے کا حکم دیا۔
حکومت نے لوگوں کو قرنطینہ رکھنے کے لیے ہوٹلوں کا بل ادا کیا۔ مارچ کے اخیر میں ویت نام نے تمام غیر ملکیوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔
ویتنامی نژاد غیر ملکی شہریوں اور ویتنامی شہریوں کے کنبہ کے افراد کے داخلے پر بھی پابندی عائد کردی۔
‘رابطے کی ٹریسنگ’ پر زور
کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کو تنہائی میں رکھنے کے بعد ان لوگوں کے رابطے میں آنے والے لوگوں کا پتہ چلایا اور ان تمام لوگوں کا کورونا ٹیسٹ کرایا گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ ویتنام اپنے ملک میں ہی کم لاگت کی ٹیسٹنگ کٹس تیار کرنے میں بھی کامیاب رہا۔
ویتنام کے پاس لوگوں کی وسیع پمیانے پر کورونا جانچ کے لیے جنوبی کوریا یا جرمنی جتنے وسائل نہیں ہیں۔
وسائل کی کمی کی وجہ سے ویتنام کی حکومت نے کم خرچ والا طریقہ اختیار کیا اور انفیکشن کی جانچ کے معاملے میں جارحانہ انداز میں لوگوں کو تلاش کیا گیا اور متاثرہ افراد کو تنہائی میں رکھنے کے انتظامات کیے گئے۔
معاشرے کو بیدار کریں
ویتنام کی حکومت نے کورونا وائرس کے خلاف لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے ملک گیر پمانے پر مہم چلائی۔
اس مہم میں لوگوں کو چھوٹے ویڈیوز اور پوسٹروں کے ذریعے کورونا وائرس سے بچاؤ کے طریقوں سے آگاہ کیا گیا۔
تاریخی ویتنام-امریکی جنگ میں ویت نام کی حکمت علی کی یاد دہانی کراتے ہوئے وزیر اعظم گوین یوان فوک نے عوام سے اپیل کی کہ وہ طویل عرصے تک وبائی بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں۔
نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی ، کینبری میں پروفیسر ایمریٹس کارل تھیار کا کہنا ہے کہ ‘ویتنام کا معاشرہ بیدار ہے۔ وہاں ایک پارٹی نظام موجود ہے۔
پولیس سسٹم، فوج اور پارٹی اس فیصلے پر عملدرآمد کرتی ہے جو اعلی سطح پر لیا جاتا ہے۔ حکومت کی اعلی قیادت اس طرح کے چیلنجوں کے دوران اچھے فیصلے بھی کرتی ہیں۔’
لیکن کیا دوسرے ممالک ان طریقوں کو بطور ماڈل اپنا سکتے ہیں؟
بی بی سی ویتنامی سروس کے ایڈیٹر جیانگ گوین کے مطابق اس حکمت عملی کے کامیاب ہونے کے بعد بھی اس کی اپنی خامیاں ہیں۔
اس کے تحت لوگوں کو اپنے پڑوسیوں پر نگاہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ زبردستی قرنطینہ بھیجے جانے کے خوف سے بہت سارے متاثرہ افراد ابھی تک سامنے نہیں آئے ہیں۔
ویتنام نے جن طریقوں کو اختیار کیا اس سے ویتنام کی معیشت بھی متاثر ہوئی ہے۔ بہت سے کاروبار بند ہوگئے ہیں۔
امریکہ، یورپی یونین اور مشرقی ایشیا کے پریمیم روٹس پر پروازوں کی منسوخی کے باعث سرکاری ملکیت والی ویتنام ایئرلائنز کو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
ویتنام کے شہروں میں صورتحال کیا ہے؟
ویتنام کورونا سے متاثرہ مریضوں کو قرنطینہ میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ تاہم بہت ساری جگہوں پر شہریوں کی آزادی پر بھی اس نے قدغن لگائی ہے۔
موثر مقامی انتظامیہ اور مضبوط سکیورٹی نظام کی وجہ سے ویتنام بعض معاملات میں پورے ضلع کو قرنطینہ میں رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
لیکن یورپی ممالک طرح ویتنام نے لاک ڈاؤن نافذ نہیں کیا۔ اب ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی سمیت ایک درجن بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن کے لیے جو انتظامات کیے گئے تھے انھیں اب ہٹایا جا رہا ہے۔
لیکن اب بھی تین اضلاع یا شہر مکمل طور پر لاک ڈاؤن میں ہیں اور ان تینوں مقامات پر تقریبا ساڑھے چار لاکھ افراد رہ رہے ہیں۔
مقامی فوج اس علاقے کی حفاظت کر رہی ہے اور یہاں سے کوئی باہر نہیں نکل سکتا ہے۔
گوین بتاتے ہیہ کہ ‘کورونا وائرس کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے سیاسی عزم کے علاوہ منظم نظام حکومت اور فرمانبردار عوام کا ہونا کافی ہے۔
Source link
International Updates by Focus News