کالمزناصف اعوان

جب دھرتی جاگتی ہے……..ناصف اعوان

ان کی آواز کوئی نہیں سن رہا ان کی فریادیں فضاؤں میں گُم ہو رہی ہیں عدالتوں میں جائیں تو کیسے ‘ ان کے پاس وکیلوں کو دینے کے لئے بھاری فیسیں ہی نہیں پھر انہیں یہ بھی یقین نہیں کہ ان کی بپتا سنی جائے گی

چوبیس کروڑ عوام کو مکمل لوازمات زندگی میسر نہیں لہذا ان کو اپنی بقا کے لئے سر توڑ کوشش کرنا پڑ رہی ہے مگر سرکار ان کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ ا اس کا کہنا ہے کہ ملکی خزانہ اس پوزیشن میں نہیں وہ تو پچھلے تیس برسوں سے ایسے ہی چلا آ رہا ہے یہ کیسی بات ہے خزانہ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا جس کو بھرنے کے لئے حکومت نے ”مہنگائی اژدھا“ کھلا چھوڑ رکھا ہے ٹیکسوں کے تیر برسائے چلے جارہی ہے پھر ایسے ایسے ٹیکس کہ جو کسی کے وہم وگمان میں ہی میں نہیں ہوتے اس پر ہی اکتفا نہیں پرانے ٹیکسوں میں ہزار دو ہزار گنا اضافہ کر رہی ہے یوں عوام کی زندگیوں میں انگارے بھرے جا رہے ہیں وہ بے چارے احتجاج کر کرکے تھک چکے ہیں ان کی آواز کوئی نہیں سن رہا ان کی فریادیں فضاؤں میں گُم ہو رہی ہیں عدالتوں میں جائیں تو کیسے ‘ ان کے پاس وکیلوں کو دینے کے لئے بھاری فیسیں ہی نہیں پھر انہیں یہ بھی یقین نہیں کہ ان کی بپتا سنی جائے گی بھی کہ نہیں؟ کیونکہ اندھا قانون غریبوں پر کم ہی توجہ دیتا ہےاسے سرخ و سپید چہرے شاید زیادہ پسند ہیں لہذا ان کی صدا سننے کے لئے تیار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی غالب اکثریت موجودہ نظام سے سخت بیزار ہے بلکہ نفرت کرنے لگی ہے اور کسی بڑی تبدیلی کی خواہش کر رہی ہے وہ منتظر ہے کہ کوئی آئے جو ان کی آرزؤں کی تکمیل کرے ۔ مگر اقتدار کے لئے ہلکان ہونے والی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں ان کے سوچ کے زاویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں انہیں ہراساں کر رہی ہیں تاکہ وہ سہم جائیں دبک جائیں کوئی مطالبہ نہ کر سکیں اور ان کی ہر بات پر سر تسلیم خم کریں مگر اب ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ ان میں پیدا ہونے والے شعور نے انہیں اپنی آواز بلند کرنے پر مجبور کر دیا ہے وہ کہہ رہا ہےکہ اگر اب بھی انہوں نے خاموشی اختیار کی تو اپنا پیٹ بھرنے والی بلائیں سب کچھ ہڑپ کر جائیں گی لہذا طرح طرح کے قوانین بنائے جا رہے ہیں مگر اہل اقتدار و اختیار نہیں سمجھتے کہ جب ذہن جاگتے ہیں تو دھرتی جاگ جاتی ہے پھر ایک نیا سویرا طلوع ہوتا ہے جسے روکا نہیں جاسکتا۔ہمیں تاریخ کے اوراق میں ایسی مثالیں ملتی ہیں با ایں ہمہ باکمال لوگوں کی کوششیں جاری ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہر چیز ان کی مرضی کے عین مطابق ہو مگر ہم اپنے گزشتہ کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ اب اجتماعی شعور نے انگڑائی لے لی ہے لہذا اس کا مطالبہ ہے کہ اسے بنیادی حقوق دئیے جائیں اگر اس کے مطالبے کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو پھر صورت حال مختلف ہو سکتی ہے تمام جکڑ بندیاں ختم ہو جائیں گی وہ اپنا راستہ خود بنا لے گا مگر حکمران طبقہ ابھی بھی اپنے اندر کوئی لچک پیدا نہیں کر رہا وہ ایسے نظام کی تشکیل کے لئے آمادہ و تیار نہیں جو عام آدمی کے مستقبل کو روشن کر دے وہ بیدار دماغوں پر وہی پرانی سوچیں اور وہی پہلے والی روایتی سیاست و حکمرانی مسلط کرنے چلا ہے جو ممکن نہیں رہا اگر وہ اپنی طاقت اور چالاکیوں کی بدولت کامیابی حاصل کر بھی لیتا ہے تو اسے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ مجموعی اضطراب جو پچیس کروڑ عوام میں جنم لے گا اس کا سامنا اس سے نہیں ہوسکے گا لہذا وہ ضد بازی اور انا کو چھوڑ کر عوام دوست سیاست کاری کا آغاز کرے تاکہ فریقین میں پائی جانے والی رنجشیں دوریاں اور نفرتیں ختم ہو سکیں اس طرح وطن عزیز میں ایک نیا دور شروع ہو سکے گا مگر مکرر عرض ہے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سنتا ” کیونکہ بڑے دماغوں“ والے اپنے آپ کو بہت اعلیٰ تصور کرتے ہیں لہذا عامیوں کی صدا پر کان نہیں دھرتے جبکہ ارتقائی عمل آگے بڑھنے سے نئے نئے خیالات و حقائق سامنے أتے ہیں جن سے استفادہ کرنا چاہیے مگر یہاں معاملہ الٹ ہے .اسی لئے ملک عزیز بہت پیچھے جا چکا ہے وہ مسائل جو کبھی قابل برداشت تھے آج ناقابل برداشت ہیں لہذا پرانی و نئی نسل مایوس ہو چکی ہےاس کا اعتماد حکمرانوں پر سے اٹھ گیا ہے وہ انہیں شعبدہ باز اور دھوکے باز قرار دے رہی ہے کیونکہ یہ بھیس اور بیانات بدل کر اسے اپنے قریب لانا چاہتے ہیں جسے وہ خوب جان گئی ہے یہ جو دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ نون اور پی پی پی ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ وہ عوام کی أنکھوں می دھول جھونکنے میں کامیاب ہو جائیں گی تو ان کی خوش فہمی ہے ۔ اس الزاماتی سیاست اور نورا کشتی میں مسلم لیگ نون نے ہتھ ہولا رکھا ہوا ہے مگر پی پی پی کی قیادت نے طعن و تشنیع کے تیروں کی بوچھاڑ کر رکھی ہے وہ یہ سمجھ رہی ہو گی کہ اس طرح کی سیاست کاری سے عوام کی ہمدردیاں حاصل کر لے گی مزید برآں وہ یہ بھی تاثر دے رہی ہے کہ اب اسے اپنے والد گرامی سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں رہی وہ سیاست کاری میں آزاد ہے۔ بلاول بھٹو بھولے بادشاہ ہیں! یہ عوام وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں یہ سوشل میڈیائی اور تجربہ کار لوگ ہیں انہوں نے روایتی سیاستدانوں کی قلا بازیاں دغا بازیاں اور کہہ مکرنیاں دیکھ لی ہیں لہذا آپ انہیں کیسے بیوقوف بنا سکتے ہیں اگر آپ اور آپ کی جماعت کو اتنا ہی عوام کے مسائل سے دلچسپی ہوتی تو آب صوبہ سندھ کی مثال دے رہے ہوتے مگر وہاں ترقی نہیں ہو سکی اسی لئے ہی پی پی پی کو اتحادوں کی سیاست کے راستے پر بھی چلنا پڑا ہے جس کے سامنے فقط اپنا مفاد ہے لہذا چہرے بدلنے سے عزائم نہیں بدل سکتے کہ آپ بھی وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں ۔
بہر حال موجودہ سیاسی منظرنامے سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس سے لوگوں کی فلاح وبہبود کا کوئی تعلق نہیں سچ یہی ہے کیونکہ ان تمام جماعتوں کے پاس پچھلے ادوار میں اختیارات تھے مگر وہ ان کا استعمال عوام کی بھلائی کے لئے نہیں کر سکیں پچھلے ڈیڑھ برسی دور نے تو حد کر دی ایسے عوام کی خون پسینے کی کمائی کو ہتھیایا گیا کہ ان کہ چیخیں بلند سے بلند ہوتی گئیں اور وہ سلسلہ رکا نہیں‘ جاری ہے حیرت یہ ہے کہ اس کی ذمہ دار جماعتیں خود کو عوام دوست کہہ رہی ہیں اور مقبولیت کے اوپری درجے پر دیکھ رہی ہیں جو ایک مغالطہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں عوام میں پزیرائی بہت کم مل رہی ہے وہ بھی ایسے لوگ ہیں جن کے ذاتی مفادات ان سے وابستہ ہیں وگرنہ مفاد عامہ سے جڑے شہری ان سے اپنا رخ موڑ چکے ہیں کیونکہ اب سورج کی کرنوں نے ماحول پر چھائی دھند کو ہٹانا شروع کر دیا ہے مگر ہمارے حکمران طبقات اس منظر کو دیکھ کر بھی اپنے سوچ کے انداز کو تبدیل نہیں کر رہے وہ ایک ہی بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ انہوں نے ہر صورت عوام پر مسلط ہونا ہے خواہ اس کے لئے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے لہذا اہل وطن کو ان سے صحرا میں پھول اگانے کی توقع نہیں کرنی چاہیے اگر ان میں یہ اہلیت قابلیت اور صلاحیت ہوتی تو یہ اداسیاں و ویرانیاں نہ ہوتیں یہ فضائیں خوشبوؤں سے مہک رہی ہوتیں !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button