ڈوسکو پوپوف: اصل جیمز بانڈ جو ایک ٹرپل ایجنٹ تھا
[ad_1]
جوا، جاسوسی اور حسین دوشیزائیں۔۔۔ انھیں ہر فن میں مہارت حاصل تھی۔ ان کا نام پوپوف تھا۔
ہم دوسری جنگ عظیم کے دوران شہرت حاصل کرنے والے سربیا کے دوہرے جاسوس ڈوسکو پوپوف کی بات کر رہے ہیں۔ جاسوسی کی دنیا کی تاریخ میں پوپوف کا نام ایک ٹرپل ایجنٹ کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ برطانوی نیول انٹیلی جنس کے افسر ایان فلیمنگ نے ڈوسکو پوپوف سے ملاقات کے بعد ہی ‘جیمز بانڈ’ کا تاریخی کردار تخلیق کیا تھا۔
جبکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران پوپوف کو پرل ہاربر بندرگاہ پر جاپانیوں کے حملے کی خبر تھی۔
پوپوف نے اس وقت ایف بی آئی کے ڈائریکٹر ایڈگر ہوور کو اس کے بارے میں بتایا بھی تھا۔
اگر ایڈگر ہوور نے پوپوف کی بات پر یقین کیا ہوتا تو پرل ہاربر میں ہونے والی امریکیوں کی تباہی کو روکا جاسکتا تھا۔
اسے حوالے سے مزید پڑھیے
دوسری جنگ عظیم کی وہ جاسوس جن سے نازی ’ڈرتے‘ تھے
امریکی سائنسدان جس نے سوویت یونین کو جوہری راز دیے
شام کے سیاسی ایوانوں میں جگہ بنانے والا اسرائیلی جاسوس
عروس: سیاحتی مقام یا جاسوسوں کا اڈہ؟
کون تھے ڈوسکو پوپوف؟
ڈوسکو پوپوف کی پیدائش سنہ 1912 میں سربیا کے ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی تھی۔ بلغراد یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے۔
دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں لکھے گئے ناول ‘ایسٹوریل’ کے مصنف ڈیجان ٹیاگو اسٹانکووچ کا کہنا ہے کہ ‘جرمنی میں پوپوف کی ایسے لوگوں سے دوستی ہوئی جن کے تار وہاں کی خفیہ ایجنسی ‘ابیہر’ سے جڑے ہوئے تھے۔
ابیہر نے پوپوف سے رابطہ کیا اور انھیں برطانیہ میں جرمنی کے لیے جاسوسی کی پیش کش کی۔
‘کیونکہ اس وقت جرمنی کے برطانیہ میں زیادہ غیر ملکی جاسوس نہیں تھے۔ لہذا پوپوف نے ‘ابیہر’ کی پیش کش قبول کرلی اور براہ راست برطانوی خارجہ انٹلیجنس ایجنسی ‘ایم آئی سکس’ کے پاس چلے گئے۔ پوپوف نے ایم آئی سکس کو ساری چیزیں بتا دیں۔’
اس کے ساتھ ہی پوپوف برطانیہ اور جرمنی دونوں کے لیے کام کرنے والے ڈبل ایجنٹ بن گئے۔ یہ سنہ 1940 سے 1944 کے درمیان کی بات ہے۔
برطانیہ کے جاسوسی حلقوں میں پوپوف کا کوڈ نام ‘ایجنٹ ٹرائسیکل’ تھا۔
ایک رنگین طبیعت جاسوس
اٹھارہ سال قبل برطانیہ نے پہلی مرتبہ عالمی جنگ کے زمانے کے جاسوسوں اور ڈبل ایجنٹس سے منسلک خفیہ دستاویزات کو عام کیا۔
بی بی سی کی کلیئر ہلز نے ان دستاویزات کو دیکھنے کے بعد لکھا: ‘برطانوی مفادات کے لیے کام کرنے والے انتہائی رنگین مزاج جاسوس کو صرف ایک کوڈ نام سے پکارا جاسکتا ہے اور وہ ‘پلے بوائے ڈبل ایجنٹ’ ہے۔ وہ ایسا شخص تھا جو بیوی اور محبوبہ دونوں کو ایک ساتھ سنبھال سکتا تھا۔’
پوپوف لندن کے سیووئے ہوٹل میں ایک خصوصی کمرے میں ٹھہرا کرتے تھے۔ خوبصورت دوشیزاؤں کا خیال کس طرح رکھا جاتا ہے اس معاملے میں پوپوف ماہر تھے۔
اور اسی لیے انھیں پلے بوا کے طور پر جانا جاتا تھا۔ بہر حال بعد میں دنیا کو پتہ چلا کہ پوپوف کو بستر میں ایک سے زیادہ ساتھیوں کا بھی شوق تھا۔
برٹش انٹیلی جنس سروس کے ایک افسر میجر ٹی اے رابرٹسن نے ایک سرکاری ریکارڈ میں پوپوف کے بارے میں لکھا: ‘سنہ 1940 کے کرسمس میں میں اور ٹرائسیکل لندن کے کواگلینوس ریستوراں میں لنچ پر ملے۔
وہاں سے ہم لینڈس ڈاؤن کلب کے برکلے اسکوائر میں بلیئرڈ کھیلنے کے لیے گئے۔ پھر ڈنر کے لیے سیووئے ہوٹل لوٹ آئے۔ میرے خیال میں ٹرائسیکل نے بہت مزے کیے۔ اس نے خوب شیمپین پی۔’
‘انتہائی خفیہ’
برطانیہ کی خفیہ مشینری میں پوپوف کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ لوگ انھیں ملک کا سب سے اہم ایجنٹ بھی کہا کرتے تھے۔
وائرلیس مواصلات، نہ نظر آنے والی روشنائی سے لکھے جانے والے پوسٹ کارڈ، مائیکرو ڈاکس کے مخصوص کوڈز، پوپوف کی ترکش میں ایسے کئی تیر تھے۔
پوپوف نے اپنے جرمن ساتھیوں کو یہ باور کرا دیا تھا کہ وہ انھیں برطانیہ کے متعلق اہم خفیہ سراغ دے رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ ‘ایم آئی سکس’ کی رضامندی سے ہی پوپوف یہ معلومات جرمنی کو فراہم کرا رہے تھے۔
ایجنٹ ٹرائسیکل کی فائل میں ایک باب ‘انتہائی خفیہ’ کے نام سے بھی تھا۔ اس باب میں اس واقعے کا ذکر تھا جب ایک جرمن افسر نے پوپوف کو برطانوی ہتھیاروں کے بارے میں معلومات اکھٹا کرنے کے لیے سوالات کی ایک فہرست دی تھی۔
جرمن افسر پوپوف سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ برطانیہ میں ویبرج، وولہیمپٹن اور ڈارٹ فورڈ میں موجود فیکٹریوں میں کیا تیار کیا جارہا ہے۔ برطانوی فوج کے پاس کس قسم کی بندوقیں اور اسلحے ہیں؟
لیکن پوپوف ڈبل ایجنٹ تھے۔۔۔
جرمنی پوپوف سے ہر قسم کی معلومات اکٹھا کرنا چاہتا تھا۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ برطانیہ کے پاس کتنے جنگی طیارے ہیں، کتنے اسپٹ فائر اور ہریکین طیارے ہیں؟ فوج کے بکتر بند شعبے میں کیا ہے اور کیا نہیں۔
برطانوی خفیہ سروس کے عہدیدار پوپوف کے لیے ان سوالات کے جوابات تیار کرتے جو بظاہر حقیقی لگیں لیکن وہ عام طور پر نامکمل ہوتی تھیں۔ ایجنٹ ٹرائسیکل ان معلومات کو جرمن حکام کو فراہم کرا دیتے تھے۔
ڈوسکو پوپوف نے نہ نظر نہ آنے والی ایک روشنائی کا فارمولا تیار کیا تھا۔ وہ اسے ایک گلاس شراب میں ملایا کرتے تھے۔ پوپوف کی فائل میں ایسی درجنوں چیزوں کا ذکر ہے۔
نہ نظر آنے والی روشنائی سے لکھے ان کے پوسٹ کارڈز، ائیر میل سے بھیجے گئے خطوط جن پر ‘اوپینڈ اینڈ ایگزامنڈ’ کی مہر لگی ہوتی تھی، گرل فرینڈز کو لکھے گئے خطوط جو دراصل ہز میجسٹی کی خدمت میں بھیجی جاتی تھیں۔
وہ انگریزی، اطالوی اور فرانسیسی تینوں ہی زبانیں بولتے تھے جبکہ انھیں ضرورت کی جرمن زبان بھی آتی تھی۔
اپنے پیغام میں انھوں نے اتحادی ممالک کی بمباری سے جرمنی کے شہروں کو ہونے والے نقصان کی معلومات دی تھی۔ ایسے ہی ایک پیغام میں پوپوف نے کہا تھا کہ جرمنی کے ہیمبرگ بندرگاہ کو بمباری سے کافی نقصان پہنچا ہے لیکن وہ اس کے بعد بھی استعمال کے قابل ہے۔
ذہین اور مہذب
ڈوسکو پوپوف کے بارے میں ایک برطانوی فوجی عہدیدار نے لکھا: ‘ایجنٹ ٹرائسیکل جرمنی کو شرمندہ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔ سنہ 1941 میں ایک موقعے پر پوپوف نے یہاں تک کہا کہ دو سال کے اندر برطانیہ کی فتح کا انھیں پورا یقین ہے کیونکہ جرمنی کی معیشت اور اخلاقی قوت دونوں ہی کمزور ہوگئے تھے۔’
ایسے ہی ایک رسمی پیغام میں پوپوف کو ایک ‘ذہین اور مہذب شخص’ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
مکمل پیغام ان الفاظ میں تھے: ‘اس کے پاس شخصیت ہے، دلکشی ہے۔ وہ یورپ یا امریکہ کے کسی بھی شہری سوسائٹی میں اس طرح رہتا ہے گویا وہ اس کا گھر ہے۔
وہ بین الاقوامی پلے بوائے کی طرح ہے۔ امن کے دوران وہ سال میں ایک ماہ یا اس سے زیادہ پیرس میں گزارتا ہے۔ اسے خاص طور پر خوبصورت خواتین کی صحبت پسند ہے۔’
سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ایجنٹ ٹرائسیکل نے برطانوی انٹیلیجنس سروس سے معاوضہ لینے سے انکار کردیا تھا۔ پوپوف کا کہنا تھا کہ جس ملک کے لیے وہ مخلصانہ جذبات رکھتے ہیں اس کے لیے کام کرکے وہ خوش ہیں اور جرمنی اسے ضرورت کے مطابق بہت زیادہ پیسے دیتی ہے۔
لیکن بہت سے مواقع پر برطانوی خفیہ سروس نے ان کی رقم سے امداد کی تھی۔ ایسے ہی ایک ریکارڈ میں لکھا گیا: ‘جمعہ ، 14 مارچ ، 1941 میں سووئے میں لنچ پر میری ملاقات ٹرائسیکل سے ہوئی۔
جب ٹرائسیکل نے بتایا کہ اس کے پاس بل ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے تو وہ تھکے ہوئے نظر آئے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ ان کی گذشتہ شام بہت مہنگی گزری ہوگی۔’
اٹلی میں تربیت حاصل کرنے کے بعد انگریزوں نے پوپوف کو پرتگال بھیج دیا جہاں ان کے جرمن باس ‘کسینو ایسٹوریل’ ہوٹل میں مقیم تھے۔
ڈیجان ٹیاگو اسٹانکووچ نے بتایا: ‘اس وقت پرتگال کا تاریخی ‘کسینو ایسٹوریل’ ہوٹل جاسوسی کی سرگرمیوں کا اڈہ ہوا کرتا تھا۔
‘کسینو ایسٹوریل’ لزبن شہر کے باہر ساحل سمندر پر ایک ریزارٹ تھا۔
مورخ آئرین پیمینٹل بتاتی ہیں: ‘دوسری عالمی جنگ کے وقت پرتگال ایک غیر جانبدار ملک تھا۔ یورپ کے دیگر غیر جانبدار ممالک کی طرح ہی پرتگال میں بھی جاسوسی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔
ہوٹل کی لابی، بار، ہر جگہ جاسوسوں سے بھری ہوتی تھی۔ وہاں زیادہ تر جرمنی اور برطانوی جاسوس ہوا کرتے تھے۔’
‘وہ ایک دوسرے کا استقبال کرتے، ملتے جلتے تھے اور خفیہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ پوپوف اور ان کے جرمن باس ‘کسینو ایسٹوریل’ کے رولیٹ ٹیبل (جوئے کا ایک قسم کا کھیل) پر نمبروں کے ذریعے معلومات شیئر کرتے ھتے۔’
ایان فلیمنگ سے ملاقات
اگر اس وقت دنیا کورونا وائرس کے بحران سے نبرد آزما نہ ہوتی تو باکس آفس پر جیمز بانڈ ‘نو ٹائم ٹو ڈائی’ کی دھوم ہوتی۔
ڈیجان سٹانکووچ بتاتے ہیں کہ ‘دوسری جنگ عظیم کے دوران سنہ 1941 میں گرمیوں کی ایک رات ‘کسینو ایسٹوریل’ ہوٹل میں پوپوف اور ایان فلیمنگ کی ملاقات ہوئی۔’
اس وقت ایان فلیمنگ برطانوی نیول انٹیلی جنس کے افسر ہوا کرتے تھے اور بعد میں جیمز بانڈ کا کردار تخلیق کرنے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔
ڈیجان ٹیاگو اسٹانکووچ نے کہا: ‘میرا خیال ہے کہ ایان فلیمنگ کے دل میں جیمز بانڈ کا خیال اسی ملاقات کے بعد اسی جگہ سے آیا ہوگا۔’
پرتگال کے بعد ڈوسکو پوپوف کا ایک اگلا مشن امریکہ تھا۔
ڈیجان کا کہنا ہے کہ ‘امریکہ جانے سے ایک دن قبل پوپوف ایسٹوریل میں جوا کھیل رہے تھے۔ اگلے دن انھیں سفر پر جانا تھا تو ان کے پاس بہت سارے پیسے تھے۔
یہ رقم جرمنوں نے انھیں دی تھی۔ وہ جوئے کی میز پر بہت ہی لاپرواہی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ مختلف لڑکیوں کے ساتھ نظر آر ہے تھے۔ ان کی شخصیت کسی جاسوس کی طرح بالکل نظر نہیں آتی تھی۔ اسی وقت ایان فلیمنگ نے ان پر نظر پڑی۔’
پرتگال کا ‘کسینو ایسٹوریل’
فلیمنگ اور پوپوف دونوں ایک ہی وقت میں ایسٹوریل میں تھے۔ ہوٹل میں پالسیئو ایسٹوریل کے ڈسپلے میں ان دونوں کے چیک ان کے دستاویزات لگے ہوئے ہیں۔
سنہ 1969 میں اسی ہوٹل میں جیمز بانڈ کی فلم ‘آن ہیر میجسٹی سیکرٹ سروس’ کے کچھ حصوں کی شوٹنگ ہوئی۔
اس ہوٹل میں جیمز بانڈ کے نام سے ایک سوٹ بھی ہے جس میں مہمان ٹھہر سکتے ہیں۔
ڈیجان ٹیاگو اسٹانکووچ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ‘ہمارے پاس معلومات ہیں کہ فلیمنگ اور پوپوف باقاعدگی سے یہاں رہتے تھے۔ اس بات کا بہت امکان موجود ہے کہ فلیمنگ اور پوپوف اسی رات کیسینو میں ملے ہوں گے۔ تاہم فلیمنگ نے پوپوف سے ملاقات کے بارے میں کبھی کچھ نہیں لکھا۔ اس لیے ان کی کہانی دنیا کو معلوم نہیں ہے۔’
لیکن فلیمنگ کی موت کے بعد پوپوف نے اپنی سوانح عمری ‘اسپائی انکاؤنٹ سپائی’ لکھی جس میں انھوں نے دعوی کیا ہے کہ انھی سے فلیمنگ کو جیمز بانڈ کی ترغیب ملی تھی۔
جیمز بانڈ کی فلم ‘کسینو رائل’ دراصل ‘کسینو ایسٹوریل’ ہے۔
جیمز بانڈ کے لیے ترغیب
ڈیجان ٹیاگو اسٹانکووچ کا کہنا ہے کہ ‘تاریخ میں ایسے بہت کم جاسوس ہیں جن کی شخصیت جیمز بانڈ کے کردار سے مماثلت رکھتی ہے، لیکن ڈوسکو پوپوف واقعی میں جیمز بانڈ کی طرح تھے۔ ہاں شراب پینے کی عادت کے علاوہ۔ پوپوف کا دعوی تھا کہ وہ جیمز بانڈ کی طرح نہیں پی سکتے لیکن 007 کا کردار بلاشبہ شراب کا شوقین ہے۔’
اپنی کتاب ‘ایسٹوریل’ کی تحقیق کے سلسلے میں ڈیجان ٹیاگو اسٹانکووچ نے پایا کہ فلیمنگ نے اپنے کردار جیمز بانڈ کے لیے جو قیمتی چیزیں، شان و شوکت والی طرز زندگی اور خوبصورت عورتوں کے شوق جیسی خوبیاں تخلیق کیں ان سے بہت حد تک یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ پوپوف سے متاثر ہے۔
ڈوسکو پوپوف کے ڈیٹنگ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے بہت سی خواتین سے تعلقات تھے۔
پوپوف کی گرل فرینڈز میں فرانسیسی اداکارہ سیمون سیمون کا نام بھی شامل ہے۔
ٹرائسیکل کا کوڈ نام
بہت سے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پوپوف کو ایجنٹ ٹرائسیکل کا کوڈ نام اس لیے ملا کیونکہ وہ ٹرپل ایجنٹ تھا اور اس نے امریکہ کے لیے بھی کام کیا تھا۔
ڈیجان ٹیاگو اسٹانکووچ ان کی ایک اور کہانی سناتے ہیں: ‘جس کہانی پر مجھے یقین ہے وہ یہ ہے کہ پوپوف کو پرل ہاربر بندرگاہ پر جاپانیوں کے حملے کا پتہ چل گیا تھا۔
لیکن وہ اتنے بڑبولے بے وقوفانہ حرکت کرنے والے تھے کہ امریکی انٹلیجنس ایجنسی ایف بی آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر ایڈگر ہوور کو ان کی باتوں پر یقین نہیں آیا۔
ہوور نے ان پر بھروسہ نہیں کیا۔ پوپوف ایسے شخص کی طرح نہیں لگتے تھے جن کے پاس اتنی اہم معلومات ہو۔’
لیکن پھر جرمنی کے انٹیلیجنس افسران کو پوپوف پر اتنا بھروسہ کیوں تھا؟
ڈیجان ٹیاگو اسٹانکووچ کا کہنا ہے کہ ‘جب پوپوف کا کنبہ بلغراد میں غربت سے لڑ رہا تھا، وہ دولت سے کھیل رہے تھے۔
ہزاروں ہزاروں لٹا رہے تھے۔ بلغراد میں نازیوں کے حملے کے دوران پوپوف کے اہل خانہ کو یرغمال بنا کر رکھا گیا تھا۔ اسی وجہ سے جرمنی کو لگا کہ پوپوف پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پوپوف کا ڈبل گیم کبھی نہیں رکا ۔کیونکہ پوپوف کا مقصد کسی بھی چیز سے زیادہ تھا دولت حاصل کرنا تھا۔’
Source link
International Updates by Focus News