مشرق وسطیٰ

کورونا وائرس: اپنے پیاروں کی آخری رسومات میں شرکت نہ کرنے والے خاندان کس کرب سے گزر رہے ہیں

[ad_1]

کورونا وائرستصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

کورونا وائرس سے امریکہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے لیکن جو خاندان اپنے کسی پیارے کو کھو دینے کے صدمے سے دوچار ہیں انھیں یہ اذیت بھی برداشت کرنی پڑ رہی کہ وہ اس وبا سے مرنے والوں کی آخری رسومات بھی ادا نہیں کر سکتے۔

امریکہ میں کورونا وائرس سے اب تک 12 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد اس سے متاثر ہیں۔

ماہرین مختلف سائنسی طریقوں سے اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اموات کی تعداد ایک لاکھ سے دو لاکھ چالیس ہزار کے درمیان ہو سکتی ہے۔

عوامی اجتماعات پر پابندیوں کے باعث کسی شخص کی وفات پر اس کے گھر والے اس کے دوست اور عزیز رشتہ دار اس کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے اکٹھے نہیں ہو سکتے اور ایک دوسرے کے غم میں شریک نہیں ہو سکتے۔ فی الوقت یہ عہد کیا جا رہا ہے کہ جب حالات بہتر ہوں گے تو ایک دوسرے کا غم بانٹنے کے لیے جمع ہوں گے۔

امریکہ میں بیماریوں کے پھیلاؤ کے انسداد کے ادارے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی ہدایات کے مطابق کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے کسی شخص کی میت کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟

کورونا وائرس: ایبوپروفن اور پیراسیٹامول خطرناک یا کارآمد؟

پہلے سے بیمار افراد کورونا وائرس سے کیسے بچیں؟

ان ہدایات میں مزید درج ہے کہ میت کو چھونے کے کچھ طریقوں سے وائرس لگنے کے امکانات کم ہیں مثلاً ہاتھ پکڑنے، یا میت سے لپٹنے لیکن وہ بھی اس وقت جب میت کو تدفین کے لیے تیار کر لیا گیا ہو لیکن دیگر حرکات مثلاً میت کو چومنے سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری ہے۔

کورونا وائرس کے اس بحران کے دوران امریکہ کے مسلمانوں پر جو کچھ گزر رہی ہے اس کے بارے میں امام آدم جمال نے ہمیں بتایا۔

انھوں نے ہمیں بتایا: ’پہلے ہم میت کے ساتھ قبرستان تک جاتے تھے، ہم میت کو قبر میں اتارنے کے بعد ایک ایک کر کے اس پر مٹی ڈالتے تھے۔ یہ سب کچھ اب بند کر دیا گیا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ مسجدیں بند ہیں اور آپ جمع نہیں ہو سکتے۔ آپ کو ہر حال میں احتیاط کے طور پر دو میٹر کا فاصلہ برقرار رکھنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مردے کو دفنانے سے پہلے میت کو غسل دینے کی روایت پر بھی اثر پڑا ہے۔

سرکاری ہدایات کے مطابق ’اگر میت کو غسل دینا اور اس کو کفن پہنانا مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے بہت اہم رسومات ہیں تو فیملیز کو اپنی کمیونٹی اور مذہبی رہنماؤں سے رجوع کرنا چاہیے اور جنازہ گاہوں کے عملے سے بات کریں کہ کس طرح میت کو کم سے کم چھونا پڑے۔‘

امام جمال کا کہنا ہے ان دنوں اگر کسی کے بارے میں علم ہے کہ اس کی موت کووڈ 19 سے ہوئی ہے تو مناسب اشیا میسر نہ ہونے کی صورت میں اس کو غسل نہ دیا جائے اور اگر ایسی چیزیں دستیاب ہیں جن سے آپ وائرس سے محفوظ رہ سکیں تب بھی میت کو اس طرح غسل دیا جائے کہ اسے کم سے کم چھونے کی ضرورت پڑے۔

انھوں نے کہا کہ یہ علامتی غسل کی طرح ہے جس میں میت پر ’پیڈنگ‘ کے ذریعے یہ فریضہ پورا کیا جاتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا ’اگر وبا لگنے کا خدشہ ہو تو میت کو ایسے دفن کیا جائے کہ اسے کم سے کم چھونا پڑے اور گھر والے گھر پر ہی نماز جنازہ ادا کریں۔‘

دیگر مذاہب کے لوگوں میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اموات کی تعداد ایک لاکھ سے دو لاکھ چالیس ہزار کے درمیان ہو سکتی ہے

فیڈریشن آف انڈیا ایسوسی ایشن کے صدر انیل بنسال نے بتایا: ہندو بھی مسلمانوں اور مسیحوں کی طرح اس قسم کے مسائل کا شکار ہیں۔ لوگوں کو وقت کے ساتھ بدلنا پڑے گا۔‘

اموات میں اضافے کے باعث تدفین کا انتظام کرنے والے اداروں پر دباؤ کی وجہ سے آخری رسومات کی ادائیگی میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔

آخری رسومات کے انتظامات کرنا امریکہ میں ایک بڑا کاروبار ہے اور گزشتہ سال اس پر مجموعی طور پر سترہ ارب ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔

تدفین کی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کی تعداد اکیس ہزار ہے جن کی اکثریت کے پاس گنجائش سے زیادہ کام ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق نیویارک سٹیٹ میں قبرستان دن رات تدفین کا کام کر ہے ہیں۔ ہسپتالوں کے پاس گنجائش ختم ہو جانے کے بعد ریفریجیٹڈ ٹرکوں میں میتوں کو رکھا جا رہا ہے۔

تدفین کے دو مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں جنازہ یا یادگاری تقریب ہوتی ہے جہاں پر رشتہ دار اور دوست جمع ہو کر مرنے والے کو یاد کرتے ہیں اور دوسرے مرحلے میں میت کو دفن کیا جاتا ہے یا پھر آگ لگائی جاتی ہے۔

ایک ماہر کے مطابق اوسطً ایک جنازے پر ایک ہزار سے سات ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جس کا انحصار تابوت کی قیمت، قبر کھودنے اور زمین کی قیمت پر بھی ہوتا ہے۔

امریکہ میں 55 فیصد افراد میت کو جلانے پر یقین رکھتے ہیں جبکہ 39 فیصد افراد تدفین کو ترجیح دیتے ہیں۔ اخراجات کے علاوہ، لوگوں کے ذہنوں میں دفن کرنے کے ماحولیاتی اثرات اور کمزور پڑتے مذہبی عقائد اور روایات کی وجہ سے میت کو جلانے کا رواج زیادہ ہو گیا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

جو خاندان اپنے کسی پیارے کو کھو دینے کے صدمے سے دوچار ہیں انھیں یہ اذیت بھی برداشت کرنی پڑ رہی کہ وہ اس وبا سے مرنے والوں کی آخری رسومات بھی ادا نہیں کر سکتے

واشنگٹن میں سٹیٹ فیونرل ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ راب گوف کا کہنا ہے: ’تجہیز و تدفین کے ادارے میت کو سیدھے قبرستان لے جاتے ہیں جہاں قبر پہلے سے تیار کر لی جاتی ہے۔‘

’قبرستان کے عملے کے علاوہ کوئی گھر والا موجود نہیں ہوتا اور گھر والے تدفین کے بعد قبر پر آ سکتے ہیں لیکن وہاں بھی لوگوں کو جمع ہونے کی اجازت نہیں، کوئی جنازہ نہیں ہوتا اور روائتی رسومات ادا نہیں کی جاتیں۔‘

کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں کی میتوں کو سرد خانوں میں رکھوا رہے ہیں تاکہ جب حالات بہتر ہوں تو روایتی طریقہ سے اس کی تدفین کی جا سکے اور ایسا اس صورت میں ممکن ہے کہ اگر مرنے والے کی موت کی وجہ کچھ اور ہو۔

تدفین کا بندوبست کرنے والے ایک ادارے کے صدر ڈبلیو وکٹر فچ کا کہنا ہے ’اگر کوئی خاندان میت کو لمبے عرصے کے لیے سرد خانے میں رکھواتی ہے تو انھیں یہ کہا جاتا ہے کہ میت کو خنوط کروا لیں۔ اس طریقہ کار میں جسم کے تمام مائع مادوں کو خشک کر کے ایسی ادویات لگا دی جاتی ہیں جو جسم کو گلنے نہیں دیتے۔‘

اس پر مزید تین سو سے ایک ہزار ڈالر خرچہ آتا ہے۔

قبرستان کے عملے کا تحفظ اور مناسب آلات کی عدم دستیابی

میتوں کی تجہیز و تدفین کا کام کرنے والے عملے کا تحفظ بھی ایک نازک معاملہ ہے خاص طور پر غسل دینے جیسی مذہبی روایات کو ادا کرتے وقت۔

فچ کا کہنا ہے ’میت کو غسل دیتے وقت ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ پانی بند نہ ہو تاکہ جسم سے نکلنے والا کوئی مادہ کسی کو نہ لگے۔ اس دوران مختلف تولیے استعمال کیے جاتے ہیں اور مختلف چیزیں استعمال کی جاتی ہیں۔ ان سب کو صاف کرنے تک دوسری تمام چیزوں سے الگ رکھا جاتا ہے۔‘

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

امریکہ میں کورونا وائرس سے اب تک 12 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد اس سے متاثر ہیں

انھوں نے کہا کہ ہسپتال بعض اوقات وفات کی وجہ نہیں بتاتے اور اس بارے میں خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے لیکن اس لیے قبرستان میں ہر موت کے بارے میں یہ ہی تصور کیا جاتا ہے کہ یہ کورونا وائرس سے ہی ہوئی ہو گی۔

جنازہ گاہوں کو احتیاطی چیزوں کی قلت کا سامنا ہے۔ انھیں ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کی طرح چہرے کے ماسک، دستانے اور لباس نہیں مل رہے۔

فنچ کا کہنا ہے وہ حکام کے سامنے رابطے میں ہیں تاکہ ترجیح بنیادوں پر یہ حفاظتی اشیا فراہم کی جا سکیں۔

’مشکل ترین کام‘

سب سے مشکل کام مرنے والے کے رشتہ داروں کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ جنازے میں کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔

سیئٹل میں مسلمانوں کی ایک تنظیم مسلم کمیونٹی ریسورس سینٹر کے نمائندے خضر شریف نے بتایا: ’یہ جذباتی دور ہے۔ کبھی لوگ ہدایات پر عمل کرتے ہیں کبھی وہ ایسا نہیں کرتے۔‘

وکٹر فنچ نے ایک ایسے شخص کی موت کی مثال دی جو واشنگٹن میں بہت جانی پہچانی اور ہر دل عزیز شخصیت تھی۔ ان کا تعلق واشنگٹن میں یونیورسٹی سے بھی تھا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے ان کے جنازے میں آنے کی توقع تھی لیکن ان کی آخری رسومات ادا نہیں کی جا سکیں۔

فنچ نے ان کا نام ظاہر نہیں کیا۔

لوگ اب سمارٹ فونز کا استعمال کر رہے اور ویب کاسٹ اور لائیو سٹریمنگ کے ذریعے جنازوں میں شریک ہو رہے یا پھر ان کو ریکارڈ کر کے ایک دوسرے کو بھیج رہے ہیں۔

خدشہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے اس صدمے اور تکلیف کے اثرات معاشرے کی اجتماعی نفسیات پر پڑیں گے۔

گوف کا کہنا ہے کہ ’کووڈ 19 کے تصدیق شدہ مریضوں کو مرنے سے پہلے قرنطینہ میں رہنا پڑتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ رشتہ داروں ان سے نہیں مل سکتے اور مرتے وقت ان کے ساتھ کوئی رشتہ دار موجود نہیں ہوتا۔ موت کے بعد جب وہ جنازہ گاہوں میں آتے ہیں تو انھیں یہ کہا جاتا ہے کہ آپ میت کے قریب نہیں جا سکتے، اسے چھو نہیں سکتے اس کو غسل نہیں دے سکتے۔

فچ بڑھتی ہوئی اموات کے اثرات کو محسوس کر سکتے ہیں۔

گوف کا کہنا ہے ’اس سے نکلنے میں ایک طویل عرصہ لگے گا۔ اس احساس سے کہ ہم موت کے وقت موجود نہیں تھے اور پھر ہم تدفین میں بھی شریک نہ ہو سکے۔ کووڈ وائرس کے ختم ہو جانے کے بعد لوگ برسوں اس کے اثرات سے نہیں نکل پائیں گے۔‘

امام جمال کا کہنا ہے ’مسلمانوں کے لیے مقدس رمضان کا مہینہ اپریل کی تیئس تاریخ سے شروع ہو رہا ہے۔ اس مہینے میں مسلمان ہر رات مسجد میں جمع ہو کر عبادت کرتے ہیں۔ اس مرتبہ کوئی مسجد نہیں جا سکے گا اور گھروں پر ہی رہنا پڑے گا۔‘

انھوں نے کہا: ’سب کو گھر میں رہ کر نماز ادا کرنا ہو گی اور بہت سے لوگوں کو ایسا کرنے میںمشکل ہو سکتی ہے۔ تو بحیثیت کمیونٹی ہمیں اپنے آپ کو صورتحال کے مطابق تیار کرنا ہو گا اور آئن لائن اپنی خدمات پیش کرنا ہوں گی۔‘

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button