کورونا وائرس: بالکونیاں ہمیں کیسے مسحور کرتی ہیں؟
[ad_1]
موسیقار فیڈیریکو سِریانی کا تعلق اٹلی کے قصبے تورِن سے ہے۔ وہ اپنے محلے میں چھوٹی موٹی محفلیں سجاتے تھے۔ مگر جب حال ہی میں انھوں نے ایک ساتھی موسیقار فیڈیریکو میگلیانو کے ساتھ مل کر اپنی عمارت کی بالکنیوں میں قرنطینہ بند ہمسائیوں کے لیے ایک محفلِ موسیقی سجائی تو اس کی بات ہی کچھ اور تھی۔
سِریانی کہتے ہیں، ‘ہمارے تماشائیوں میں کارفرما حیرت کے جذبے کو آپ اپنے اندر محسوس کر سکتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے اپنا احساسِ تنہائی زائل ہونے پر ہمارا شکریہ ادا کیا۔’
ہزاروں اطالوی شہریوں کی طرح سِریانی بھی اس وقت اپنے گھر تک محدود ہوگئے تھے جب حکومت نے کوروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے 9 مارچ کو لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ اور دنیا بھر میں لاکھوں شہریوں کی مانند، جیسا کہ وہاں کی حکومتوں نے بھی اپنے شہریوں پر بندشیں عائد کیں، جبری تنہائی کے اس عہد میں سِریانی نے بیرونی دنیا سے رابطے اور امید کی جوت جگانے کے لیے اپنی بالکنی کی افادیت کو ازسرنو دریافت کرنا شروع کیا۔
گذشتہ ماہ کے دوران اطالوی شہریوں نے ملّی جذبہ قائم رکھنے کے لیے اپنی بالکونیوں سے ایک ساتھ مل کر قومی ترانہ گایا، آتش بازی کی اور طبّی عملے کو خراج تحسین پیش کیا۔
ان کے ان اقدامات کی دنیا کے دوسرے شہروں میں بھی تقلید کی گئی۔ اب جب کہ دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی ریاست کی نافذ کردہ سماجی دوری کی زد میں ہے، میڈرِڈ سے ممبئی، شکاگو سے شینجیانگ اور ہمبرگ سے اسکندریہ تک بالکنیوں کی اہمیت یک لخت اجاگر ہوکر سامنے آئی ہے۔ یہ ہمیں یاد دہانی کروا رہی ہیں کہ ہمیں اپنی ذات سے نکل کر باہر کی دنیا سے رابطہ کرنا چاہیے جو ہماری ذات سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے۔
اگرچہ بالکونیوں کی یہ نئی سماجی اہمیت ہم پر اب کھلی ہے، مگر قدیم زمانے سے انھیں دلکشی اور عوام میں ولولہ اور اتحاد پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بالکونیاں ہزاروں سال سے طرزِ تعمیر کا حصہ رہی ہیں۔ البتہ ان کی ساخت مقامی رسوم و رواج اور ثقافتی تقاضوں کے مطابق بدلتی رہی ہے۔
مدنی آثارِ قدیمہ کی ماہر، میری شیپرسن، اپنی کتاب ‘سن لائٹ اینڈ شیڈ ان دا فرسٹ سیٹیز’ میں لکھتی ہیں کہ پہلے پہل بالکونیوں کا سراغ تین ہزار سال قبلِ مسیح میں ایران میں ملتا ہے، جہاں قدیم عراقیوں (میسوپوٹیمیائی باشندوں) نے شہر کی گلیوں کو چلچلاتی دھوپ سے بچانے کے لیے مکانوں پر چھجے بنائے تھے۔ اس کے برعکس، کئی مورخین کا خیال ہے کہ اہلیانِ یونان نے چودہ سو سال قبلِ مسیح میں مکانوں کے اندر روشنی اور ہوا کی آمد و رفت بہتر بنانے کے لیے بالکنیاں تعمیر کی تھیں۔
برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ بیری کیمپ اپنی کتاب ‘اینشیئنٹ اِیجپٹ: ایناٹمی آف اے سوِلائزیشن’ میں بیان کرتے ہیں کہ حکمران کس طرح سے رعایا کو اپنے درشن کروانے کے لیے محلات میں بنی بالکنیوں کو استعمال کرتے تھے۔
یہ رواج تاریخ میں کئی مواقع پر سامنے آیا ہے۔ قدیم روم میں ابتدائی شکل کی بالکنیوں میں بیٹھ کر شہنشاہ اور سینیٹرز کولوسیم میں گلیڈیئٹرز کے مقابلے دیکھتے اور رعایا کو اپنا دیدار کرواتے تھے۔
دوسری جنگِ عظیم کے آغاز پر جرمنی کے آمر ایڈولف ہٹلر نے آسٹریا کے انضمام کا اعلان ویانا میں شاہی محل کی بالکنی سے کیا تھا۔ اور سات برس بعد برطانوی وزیراعظم وِنسٹن چرچل نے شاہی محل، بکنگھم پیلس کی بالکنی میں شاہی خاندان کے ساتھ کھڑے ہو کر جنگ کے خاتمے کا جشن منایا تھا۔
وقت کے ساتھ بالکونیوں کے ڈیزائن بھی بدلے اور ان میں زیادہ تنوع پیدا ہوا۔ قرون وسطٰی میں عربوں نے مشربیہ بالکنیوں کو رواج دیا۔ ان میں عرب ثقافت کے مطابق تخلیے یا پردے کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا اور ساتھ ہی یہاں بیٹھنے والے تازہ ہوا کے جھونکوں کا لطف بھی اٹھاتے تھے۔ بعد میں یورپ میں رینیساں یا احیاء کی تحریک کے دوران آرکیٹیکٹ دانیتو برامینتے کی ڈیزائن کردہ بالکنیاں اٹلی میں مقبولیت اختیار کر گئیں۔
وِینس اپنی بالکونیوں کے لیے خاص شہرت رکھتا ہے کیونکہ ماہرین تعمیرات کو اس تنگ شہر کے مکانوں کو تازہ ہوا کی فراہمی کا یہ ہی ایک وسیلہ سوجھا تھا۔
سترہویں صدی میں برطانوی سیاح ٹامس کوریٹ اپنے سفرنامے میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے مکانوں میں ایسے چھجے صرف اٹلی میں دیکھے تھے جہاں شہری شام کے وقت کھڑے ہو کر اطراف کا نظارہ کرتے تھے۔
نوآبادیاتی نظام نے بالآخر دنیا بھر میں بالکونیاں متعارف کروا دیں۔
مالٹا اور سپین کے اندلوسیہ میں پائی جانے والی بالکونیاں مراکش کے امراء کی یاد دلاتی ہیں۔ اسی طرح ویتنام کے دارالحکومت ہینائے سے لے کر امریکا میں نیواورلینس تک آہنی بالکنیاں فرانسیسی حکمرانوں کی نشانیاں ہیں۔
انیسویں صدی کے یورپ میں شہری آبادی میں زبردست اضافہ ہوا اور بالکونیاں جدید شہروں کے فن تعمیر کا خاصہ بن گئیں۔ بعد میں انھیں ایڈورڈ مینٹ اور امبرٹو بوچیونی جیسے یورپی مصوروں اور شاعروں نے اپنے فن کا موضوع بھی بنایا
یونیورسٹی آف ورجینیا سے وابستہ مورخ شیلا کرین لکھتی ہیں کہ بالکنیوں سے ہماری اجتماعی دلچسپی کا سبب ان کا وہ مقام ہے جو وہ ہماری نجی اور عوامی زندگی کے درمیان بطور ایک پل ادا کرتی ہیں۔ ان کی اسی حیثیت کو بعد میں 1960 کی ایک فلم نے امر بنا دیا۔
‘رومن بالکنی’ نامی فلم کے ایک سین میں بالکنی میں ہونے والی گفتگو سے محبت کی لازوال داستان رقم ہوتی ہے۔
ان کی ثقافتی اہمیت کے علاوہ بالکونیوں نے سیاسی تبدیلی کے لیے بھی جگہ فراہم کی۔
1950 اور 1960 کی دہائیوں میں الجزائر کی تحریک آزادی کے دوران جب فرانس نے عوامی اجتماعات پر پابندیاں عائد کی تو لوگوں نے اس تحریک کو اپنی بالکونیوں میں زندہ رکھا۔
کرین لکھتی ہیں کہ آزادی کی حامی خواتین اونچے سروں میں مخصوص آوازیں نکالتی تھیں جبکہ فرانس نواز برتنوں کو آلات موسیقی بنا کر اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے۔
کیرولِن ایرونِس، جنھوں نے بحیرۂ روم کے خطے اور اسرائیلی شہر تل ابیب میں بالکنیوں پر تحقیق کی ہے، کہتی ہیں کہ ٹی وی کے آنے سے پہلے بالکونیاں وقت گزاری کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں، ‘ٹیلی فون، ٹی وی اور ایئرکنڈیشن جیسی ٹیکنالوجیز نے رفتہ رفتہ لوگوں کو کمروں کے اندر محدود کر دیا۔ اور اس طرح پچھلے پچاس سال میں شہری زندگی میں بالکنی کا کردار معدوم ہوتا چلا گیا۔’
لیکن کوروناوائرس کی عالمگیر وبا نے بالکنی کے ہماری زندگی میں کردار کو پھر سے اجاگر کر دیا ہے۔ آج جب دنیا کی بیشتر آبادی قرنطینہ میں ہے تو لوگوں کے درمیان ربط پیدا کرنے میں بالکنی کے کردار کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔
اٹھائس برس کی اینتونیو ڈی زارلو اٹلی کے شہر فلورنس میں میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ‘میں اس اپارٹمنٹ میں تین سال سے رہ رہی ہوں مگر اپنے ہمسایوں سے کبھی کوئی تعلق نہیں رکھا۔‘
‘ انھوں نے بتایا کہ اٹلی میں لاک ڈاؤن کے بعد انھوں نے متعدد بار بالکنی میں بیٹھ کر کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنے پڑوسیوں سے گپ شپ کی ہے۔ 23 مارچ کو ان کی یونیورسٹی گریجویشن کا موقع تھی۔ اس روز اس وقت ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان کے پڑوسیوں نے اس خوشی میں کامیابی کا سہرا اور تحائف جھاڑوں کے ڈنڈے سے لٹکا کر انھیں پیش کیے۔
ایرونِس کا کہنا ہے کہ ‘آج ٹیکنالوجی لوگوں کو بالکنی سے دور نہیں کر رہی بلکہ وہ انھیں نئے سماجی حلقے کے طور پر دوبارہ دریافت کرنے میں مدد دے رہی ہے۔’
اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے بالکنی میں کیے گئے فن کے مظاہروں کو دور دراز کے علاقوں میں بھی تماش بین میسر آ جاتے ہیں۔
جب سولہ مارچ کو سریانی نے قرنطینہ میں اپنا پہلا شو کیا تو دنیا بھر سے تقریباً تین ہزار لوگوں نے اسے فیس بک پر لائیو دیکھا۔ ان کا کہنا ہے، ‘ورچوئل مداح ہمیں تعریفی پیغامات بھیج رہے تھے اور سامنے موجود مداح اپنی بالکنیوں میں کھڑے تالیاں بجا کر داد دے رہے تھے۔’
تورین کی رہنے والی روزابیلا دورانتے کہتی ہیں کہ ان کی عمارت میں رہنے والے چرخی اور رسی کی مدد سے ایک دوسرے کو کھانا بجھواتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ یہ خیال انھیں اس وقت آیا جب اسی عمارت میں رہنے والوں کے واٹس ایپ پر ایک پڑوسی نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کے ہاتھ کا بنا ہوا کیک سب میں بانٹنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ‘اب لطف اندوزی کا کوئی تو سامان ہونا چاہیے۔’
اسی طرح دنیا بھر میں لوگ نت نئے طریقوں سے بالکونیوں کا فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔ انڈیا میں لوگ اپنی بالکنیوں میں برتن بجا کر ناچتے گاتے ہیں اور وقت گزارتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے پچاس سال پہلے الجزائر کی عورتوں نے کیا تھا۔
ایرونِس کو توقع ہے کہ یہ تعلق قرنطینہ ختم ہونے کے بعد بھی قائم رہے گا اور لوگ بالکنیوں کی سماجی اہمیت کو فراموش نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا ہے، ‘بالکنی ہمیں جو کچھ دیتی ہے وہ آج کی ٹیکنالوجی نہیں دے سکتی: یہ ہمیں ایک پڑوس کا شعور بخشتی ہے اور مشکل میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا جذبہ عطا کرتی ہے۔’
دی زارلو کی بات میں بھی اسی خیال کی بازگشت سنائی دیتی ہے، ‘قرنطینہ ختم ہو جائے گا، سب کچھ معمول پر آ جائے گا، مگر ہمیں ہمسائیت کے اس احساس کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
Source link
International Updates by Focus News