جنرل

کورونا وائرس: فائیو جی ٹیکنالوجی پر ٹیلی کام انجینئرز کو قتل کی دھمکیاں

[ad_1]

5 جیتصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

برطانیہ میں ٹیلی کام انجنیئروں نے بی بی سی ‘ریڈیو ون نیوز بیٹ’ کے پروگرام میں بتایا ہے کہ انھیں ایسے افراد کی جانب سے ہراساں اور دھمکایا جا رہا ہے جو یہ سمجھتے ہیں وہ انجنیئر فائیو جی کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں اور اس ٹیکنالوجی کو کورونا وائرس کی وبا سے غلط طور پر جوڑ رہے ہیں۔

سائنسدانوں نے اس طرح کے تمام تر دعوؤں کو بالکل بے بنیاد اور لغو قرار دیا ہے۔ لیکن برطانیہ میں ہزاروں ورکروں کی نمائندہ تنظیم نے بتایا ہے کہا انھیں اس نوعیت کی 120 شکایات موصول ہو چکی ہیں۔ ان دھمکیوں میں جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔

برطانیہ میں کمیونی کیشن ورکر یونین (سی ڈبلیو یو) کے نائب جنرل سیکریٹری اینڈی کیر کا کہنا کہ انھیں ایسی شکایت موصول ہوئیں ہیں جن میں کچھ لوگوں کو چھرا مارنے، مار پیٹ کرنے اور قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں ہیں۔

سی ڈبلیو یو چالیس ہزار کے قریب ورکروں کی نمائندہ تنظیم ہے۔

یہ بھی پڑھیے

فائیو جی کیا ہے اور پاکستان کے لیے کتنا فائدہ مند ہے؟

چینی کمپنی ہواوے، روبوٹ کا بازو اور ہیروں کا شیشہ

چاند پر فور جی نیٹ ورک متعارف کروانے کا منصوبہ

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

اینڈی کہتے ہیں کہ ان میں بہت سے لوگ فائیو جی ٹیکنالوجی پر کام بھی نہیں کر رہے وہ صرف نیٹ ورک کی دیکھ بحال اور چلانے کا اہم کام انجام دے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ لوگ اپنے گھروں میں بند ہیں اور کوئی اپنا پسندیدہ ٹی وی پروگرام دیکھنا چاہتا ہے یا کوئی اپنے رشتہ داروں سے رابطے میں رہنا چاہتا ہے۔ اس کا واحد طریقہ ٹیلی کام کا جال ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ انجینئر ہی ہیں جو ٹیلی کام کے اس جال کو چلا رہے ہیں تاکہ امدادی کام کرنے والوں اور طبی عملے کے لیے رابطے دستیاب ہو۔

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے تصدیق کی ہے کہ حال ہی میں ٹیلی کمیونکیشن کے کھمبوں کو توڑنے اور تاروں کو جلانے کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

بی بی سی کے پروگرام نیوز بیٹ میں تین انجینئروں سے بات کی گئی جنھوں نے صرف اپنی حفاظت پیش نظر اپنی شناخت چھپانے کی درخواست کی۔

نارتھ یورکشائر کے 28 سالہ مائیک

مائیک نو سال سے انجینیئر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ جو واقعات پیش آئے ہیں ان میں انھیں لوگوں کی طرف سے گالم گلوچ کا سامنا کرنا پڑا ہے، ایسی ویڈیو پیغام بھیجے گئے ہیں کہ ہم کیوں یہ موت کے کھمبے لگا رہے ہیں اور ہم کیوں لوگوں کو ہلاک کرنے کے درپے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ انجینئروں پرمختلف چیزیں پھینکی گئیں۔

’دھمکی دی گئی کہ وہ لڑکوں کو ساتھ لے کر آئیں گے اور تمھیں چھریاں ماریں گے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر ہم نہیں گئے تو ہمیں گولی مار دیں گے۔‘

انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا جب سے دھمکیاں دیئے جانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ اپنا کام کرتے وقت زیادہ محتاط ہو گئے ہیں۔ ‘ہمیں اپنے ارد گرد سے چوکنا رہنا پڑتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور کون آ جا رہا ہے۔‘

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

برمنگہم کے 24 سالہ جیک

جیک نے بتایا کہ ‘میں نے جس سے بھی بات کی اس کو ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ مجھ پر اور میری ٹیم پر لوگ چینختے ہیں، تم لوگوں کو ہلاک کر رہے ہوں، فائیو جی لگانا بند کرو۔ جس سے ہم پریشان ہوتے ہیں۔ ہم سے یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہر روز جب ہم کام پر جانے کے لیے وین میں بیٹھتے ہیں تو ہمیں یہ فکر ہوتی ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن آپ کو کام تو کرنا ہی ہے اور اس دوران اپنا خیال بھی رکھنا ہے۔’

ویسٹ مڈلینڈ کی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ جرائم پر فوری کارروائی کرتے ہیں کیونکہ ان سے عوام کے جان و مال خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

پلے متھ کے 26 سالہ سیم

سیم اپنے بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہتے ہیں اور اس وقت وہ برطانیہ کے مختلف شہروں میں عارضی طور پر تعمیر کیے جانے والے نائٹ اینگل ہپستال بنانے کا کام کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ کوئی شخص ان کو پریشان کرنے کے لیے ان کی ویگن کی چابی یہ سوچ کر لے گیا کہ شاید وہ فائیو جی پر کام کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے اپنے کام کرنے کے طریقے میں کچھ تبدلی کر لی ہے اب میں نے اپنی گاڑی پر کمپنی کا نشان مٹا دیا ہے اور کمپنی کی وردی بھی نہیں پہنتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھی انجینیئروں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات ہوئے ہیں اور کئی جگہوں پر کیبن توڑ دئیے گئے اور کھمبوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میری فیملی پریشان ہے۔ میری بیوی جو گھر پر رہتی ہے روزانہ مجھے گھر سے نکلتے وقت تاکید کرتی ہے کہ فون کرتے رہنا اور اپنا خیال رکھنا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھے اپنا کام بہت پسند ہے ہماری وجہ سے لوگ خاص طور پر ایمرجنسی ورکر رابطے میں رہتے ہیں اور مجھے اپنے انجینئر ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔‘

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

یہ بات دہرائی جانی ضروری ہے کہ کورونا وائرس اور فائیو جی ٹیکنالوجی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

اولگا رابنسن کورونا وائرس اور فائیو جی ٹیکنالوجی کی سازشی تھیوری کی ماہر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’سائنسدانوں کا کہنا ہے فائیو جی اور کورونا وائرس کا دور دور میں بھی آپس کا کوئی تعلق نہیں ہے وہ اتنی ہی مختلف چیزیں ہیں جیسے چاک اور پنیر اور فائیو جی استعمال کرنے سے آپ کو کورونا وائرس سے لگنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔’

ان کا کہنا ہے ’فائیو جی کا آپ کے مدافعتی نظام پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اس کی ریڈیو لہریں انتی تیز نہیں ہوتیں جو آپ کے جسم کے خلیوں اور مدافعتی نظام پر اثر انداز ہو سکیں۔’

اگر یہ سب کچھ سچ نہیں ہے تو پھر لوگ اس پر کیوں یقین کرتے ہیں۔ اولگا کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں لوگ ان افواہوں پر اس لیے یقین کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ابھی کورونا وائرس کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان افواہوں پر لوگ اس بھی یقین کر لیتے ہیں کیونکہ جعلی ماہرین سائنسی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں۔

اولگا کے پاس کچھ مشورے ہیں جن سے آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔

ان کے مطابق آپ سب سے پہلے رکیں اور سوچیں اور اس کے بعد کوئی چیز بھی آگے بڑھائیں۔ ‘اس کے بعد یہ دیکھیں کہ یہ کون کہہ رہا ہے یا یہ کون سا گروپ ہے جو یہ دعوے کر رہا ہے۔‘

دوسرے لفظوں میں اگر آپ کو اپنے واٹس ایپ پر اپنے کسی دوست سے کوئی پیغام ملے جو اس کو اس کے کسی دوست نے بھیجا ہو اور اسے یہ پیغام کسی ڈاکٹر سے ملا ہو اس پر فورا یقین نہ کر لیں۔

اس کو غور سے پڑھیں اور اس پر تحقیق کریں کیوں کے سوشل میڈیا پر بہت کچھ غیر تصدیق شدہ اور جھوٹ چل رہا ہوتا ہے۔ اگر اس کے بعد بھی آپ کو اس کے سچ ہونے کا یقین نہ آئے تو اس کو آگے نہ بڑھائیں یا شیئر نہ کریں۔

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button