کورونا وائرس: لاک ڈاؤن نے تارا کو متشدد پارٹنر سے الگ ہونے میں کیسے مدد کی؟ گھریلو تشدد کی شکایات میں اضافہ
[ad_1]
برطانیہ کی شہری تارا(فرضی نام) کو لاک ڈاؤن کے دوران اپنے متشدد پارٹنر کے ساتھ چوبیس گھنٹے رہنا تو پڑا، لیکن وہ خوش ہیں کہ اس لاک ڈاؤن نےانھیں یہ سمجھنےمیں مدد دی کہ اس متشدد شخص سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔
برطانیہ کی گھریلو تشدد کی قومی ہیلپ لائن کی منتظم تنظیم ’ریفیوج‘ نے کہا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں اسے سینکڑوں شکایات موصول ہوئی ہیں جو اس سے پہلے ہفتے سے پچیس فیصد زیادہ ہیں۔
خیراتی ادارے ریفیوج نےکہا ہے کہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران گھریلو تشدد کےواقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگوں کے پاس اس سے فرار کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔
تارا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اپنے پارٹنر کی جانب سے پچھلےچھ ماہ سے ذہنی اور جسمانی تشدد کا سامنا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان کے پارٹنر نے ان پرتشدد کا نیا طریقہ نکالا اور یہ کہہ کر اسے اپنے خاندان اور دوستوں سے ملنے پر پابندی عائد کر دی کہ وہ انھیں دھوکہ دے رہی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے پارٹنر نے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیئے اور انھیں خاندان کے کسی فرد اور دوستوں سے ملنے سےروک دیا۔
تارہ کا کہنا ہے کہ ان کا پارٹنر انھیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا اور لاک ڈاؤن کےبعد اس میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے حالات اتنے خراب ہوگئے کہ انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ اگلے روز سو کر اٹھیں گی بھی یا نہیں کیونکہ انھیں اچھی طرح سےمعلوم تھا کہ اگلا روز کیسا ہوگا۔ وہ چاہتی تھیں کہ یہ دن تیزی سے گزر جائیں۔
‘جب وہ جاگتا تو بلاوجہ مجھ سےالجھنا شروع کر دیتا اور جب میں پلٹ کی جواب دیتی تو وہ جسمانی تشدد پر اتر آتا۔’
تارہ اب پناہ حاصل کر چکی ہیں۔
کیا کورونا وائرس کی وبا کے دوران سیکس کرنا محفوظ ہے؟
جنوبی کوریا کے پادری کی کورونا وائرس پھیلانے پر معافی
کورونا وائرس کے ’ہومیوپیتھک علاج‘ پر انڈیا کی وضاحت
کیا موسمِ گرما میں کورونا وائرس ختم ہو جائے گا؟
آخر کورونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟
برطانیہ میں گھویلو تشدد کی ویب سائٹ ‘نیشنل ڈومیسٹک ایبیوز ہیلپ’ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ ایک ہفتے میں گھریلو تشدد کے واقعات میں مدد کی درخواستوں میں 150 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
گھریلو تشدد کے خلاف کام کرنےوالی ایک کارکن ریچل ولیمز کے خیال میں اگر لاک ڈاؤن کی موجودہ صورتحال برقرار رہی تو گھریلو تشدد اور ممکنہ طور اس سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو گا۔
ریفیوج کی چیف ایگزیکٹو ساندرا ہورلی نے کہا ہے کہ تشدد کا ارتکاب کرنے والے افراد پہلے ہی ‘سماجی تنہائی’ کو ایک ہتھیار کے طور پراستعمال کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہ گذشتہ برس انگلینڈ اور ویلز میں سولہ لاکھ عورتوں کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور اس لاک ڈاؤن میں عورتوں اور بچوں کو متشدد افراد کے ساتھ رہنے پر مجبور ہونا پڑے گا جس سے ان گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو جائے گا۔
ساندرا ہولی نے کہا کہ گھریلو تشدد صرف جسمانی تشدد نہیں ہوتا بلکہ اس کی کئی شکلیں ہیں جن میں جذباتی، معاشی، نفسیاتی اور جنسی تشدد بھی شامل ہے۔
ریچل ولیمز نے اٹھارہ برس تک اپنے شوہر کے تشدد کا سامنا کیا اور جب ان کے شوہر کو معلوم ہوا کہ وہ اسے چھوڑ کر جا رہی ہیں تو اس نے بندوق کی نالی سے ان پر تشدد کیا۔
ریچل ولیمز کا کہنا ہےکہ انھیں لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد کےواقعات میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ تشدد کا ارتکاب کرنے والے کواس وقت تک روکا نہیں جا سکتا ہے جب تک وہ سامنے نہ آئے۔ ‘ہم سےگھریلو تشدد کا خاتمہ ممکن نہیں ہو پا رہا اور ب یہ عالمی وبا ہمارے سروں کے اوپر ہے۔‘
پولیس نے مردوں اور خواتین پر زور دیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران اگر کوئی تشدد کانشانہ بن رہا ہے تو انھیں کا متعلقہ اداروں کو اس کی اطلاع دینی چاہیے۔
ویسٹ مڈلینڈ پولیس کی ڈپٹی چیف نے کہا کہ وہ تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کو گھر سے نکالنے کی کوشش کریں گے۔
لاک ڈاؤن کے دوران تشدد کا شکار افراد نہ صرف متشدد افراد کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں بلکہ وہ اس کی رپورٹ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اس پر بھی انھیں تشدد کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔
نیشنل ڈومیسٹک ہیلپ لائن نے ایسے لوگوں کی مدد کے لیےویب سائٹ پر رپورٹ کی سہولت مہیا کر رکھی ہے ۔
ویب سائٹ پر تشدد کے واقعے کی رپورٹ کرنے کے بعد وہ جلدی سے ویب سائٹ کو چھوڑ سکتے ہیں اور اگر متشدد شخص یہ جاننے کی کوشش کرے کہ واقعے کی رپورٹ ہوئی ہے تو اسے معلوم نہیں ہو سکے گا۔
Source link
International Updates by Focus News