کورونا وائرس: لاک ڈاؤن کے باوجود اپنے چند قریبی دوستوں سے ملنے کی اجازت ہونی چاہیے؟
[ad_1]
کئی ملکوں میں لوگوں کے سماجی رابطے سختی سے محدود کرنے سے بظاہر کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں مدد ملی ہے۔ لیکن معاشی مشکلات اور لوگوں کی اکتاہٹ کے پیش نظر اب حکومتیں یہ سوچ رہی ہیں کہ کس طرح لاک ڈاؤن میں نرمی کی جائے تاکہ کورونا وائرس کی وبا دوبارہ نہ پھیل سکے۔
ایک تجویز جس پر سوچ بچار جاری ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنا تھوڑا سا ’سوشل ببل‘ یا سماجی دائرہ وسیع کرنے کی اجازت دی جائے یعنی وہ اپنے چند منتخب رشتہ داروں اور دوستوں سے مل سکیں۔
بیلجیئم میں مقامی میڈیا پر دستیاب ہونے والی ایک سرکاری دستاویز کے مطابق حکام اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ وہ شہریوں کو ہفتے وار تعطیل کے دوران اپنے 10 مخصوص دوستوں یا رشتہ داروں کو اکھٹا کرنے کی اجازت دے دیں۔
ان 10 افراد کے گروہ میں وبا کی روک تھام یقینی بنانے کے لیے اس کے ہر فرد کو ان نو لوگوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ایک مرتبہ گروہ بن جانے کے بعد اس کا ہر فرد اس بات کا پابند ہو گا کہ وہ اس گروہ کے علاوہ کسی دوسرے شخص سے نہ ملے۔
یہ بات ابھی واضح نہیں کہ اس گروہ کی نگرانی کیسے کی جائے گی یا یہ اصول کیسے نافذ کیا جائے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے سماجی الجھنیں پیدا ہو سکتی ہے ہیں کہ کون کس کا انتخاب کرے گا۔
اور اس صورت میں کیا ہو گا کہ اگر آپ کسی کو اپنے گروہ میں شامل کرتے ہیں لیکن وہ اپنے منتخب کردہ نو افراد کی فہرست میں آپ کو شامل ہی نہیں کرتا۔
یہ تجویز ان اقدامات میں شامل نہیں تھی جن کا اعلان بیلجیئم نے گذشتہ سنیچر لاک ڈاؤن میں نرمی کے اعلان کے وقت کیا تھا۔ لیکن دوسرے ممالک اس طرح کے اقدامات اٹھانے پر غور کر رہے ہیں۔
سکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن نے بی بی سی ریڈیو سکاٹ لینڈ کو گذشتہ ہفتے بتایا تھا کہ وہ گھرانوں کی تشریح وسیع کرنے پر غور کر رہی ہیں یعنی آپ کے گھر میں جن لوگوں کو شمار کیا جاتا ہے اسے وسیع کیا جا رہا ہے۔ تاکہ چھوٹی نجی محفلوں کی گنجائش پیدا ہو سکے اور ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو تنہا رہتے ہیں کہ وہ کسی دوسرے کو ڈھونڈ لیں جو ان ہی کی طرح تنہا ہو یا کچھ اور لوگوں کو تاکہ ایک سماجی دائرہ بن سکے۔
نیوزی لینڈ لاک ڈاؤن اختیار کرنے والے پہلے ملکوں میں شامل تھا جہاں اب حلقہ بڑھانے کی پالیسی اپنائی جا چکی ہے۔ اگلے ہفتے سے نیوزی لینڈ کے شہریوں کو یہ اجازت ہو گی کہ وہ اپنا حلقہ یا ‘ببل’ وسیع کر لیں اور ان میں قریبی رشتہ داروں، خیال رکھنے والوں اور جو لوگوں تنہائی کا شکار ہوں انھیں شامل کر لیں۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ لوگ ایک ہی شہر میں آباد ہوں۔
حالیہ دنوں میں نیوزی لینڈ میں کورونا وائرس کے نئے مریضوں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ اب تک ملک میں کورونا وائرس 1470 افراد کو متاثر کر چکا ہے اور 18 افراد کی اموات ہو چکی ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کی جانب سے لوگوں سے ہمدردی پر ان کی تعریف کی جا رہی ہے۔ ان کے پیغامات لوگوں کی سماجی زندگی اور ان کی ذہنی حالت کے متعلق تھے۔
اب جب کہ اس کی ویکسین کی تیاری کی کوششیں جاری ہیں، بہت سے ملک سماجی رابطوں کی اجازت دینے سے ہچکچا رہے ہیں کہ کہیں دوبارہ یہ وائرس نہ پھیل سکے۔
تو برطانیہ میں سماجی دائرہ وسیع ہوسکتا ہے؟
انگلینڈ کے چیف میڈیکل آفیسر کرس واہٹلی کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کو محدود رکھنے کی پابندیاں اس سال کے آخر تک نافذ العمل رہیں گی۔ لیکن ان کی نوعیت کیا ہو گی اور کب تک یہ نافذ رہے گا، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اس طرح کے اہم فیصلے لیتے وقت سائنسدان اور پالیسی ساز ایک ایسے کلیے کو دیکھتے ہیں جسے انگریزی زبان میں ’ریپروڈکشن ریٹ‘ (آر ٹی) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ریٹ یا رفتار ہے جس سے وائرس لوگوں میں پھیل رہا ہے۔
اس وقت برطانیہ کا آر ٹی ایک ہے اور اس کا حساب ان اعداد و شمار پر لگایا گیا ہے جو لندن سکول آف ہائجین اور ٹراپکل میڈیسن کے ادارے سے حاصل کیے گئے ہیں۔ اس کا مطالب آسان زبان میں یہ ہے کہ اس وقت اگر کسی شخص کو کورونا وائرس ہوتا ہے تو وہ صرف کسی ایک اور شخص کو یہ منتقل کر رہا ہے۔
دنیا میں کورونا کہاں کہاں: جانیے نقشوں اور چارٹس کی مدد سے
کورونا وائرس کی ویکسین کب تک بن جائے گی؟
کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟
آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟
کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟
کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں
کورونا وائرس: چہرے کو نہ چھونا اتنا مشکل کیوں؟
بہت سے ملک لاک ڈاؤن کو اس وقت تک ختم کرنے سے گریز کر رہے ہیں جب تک ان کے ہاں آر ٹی ایک کے ہندسے سے بھی کافی نیچے نہیں آ جاتا۔ اس وجہ سے برطانیہ نے بھی لاک ڈاؤن کو اگلے چند ہفتوں تک بڑھا دیا ہے۔
لندن سکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے پروفیسر سٹیفن فلاشی اس بات سے متفق ہیں کہ برطانیہ میں لاک ڈاؤن میں نرمی کرنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر اس میں کوئی خطرہ نہ ہو تو سوشل ببل یا سماجی حلقے کو وسیع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تاکہ لوگوں کی برداشت جواب نہ دے اور اس دوران ویکسن تلاش کرنے کی تحقیق چلتی رہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ یہ وبا کا کوئی حل نہیں ہے لیکن اس سے سماجی طور پر مدد ملے گی۔ کووڈ 19 کا خطرہ کافی عرصے تک رہے گا لہذا ایسا کوئی بھی فیصلہ جو معاشرے کو بچائے رکھنے کے لیے ضروری ہو اس کا فائدہ ہی ہے۔
’لوگ صرف ایک مرتبہ گلے ملنا چاہتے ہیں‘
لاک ڈاؤن کا لوگوں کی ذہنی صحت پر اثر دنیا بھر میں شدت سے محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے۔
امریکہ میں قومی سطح پر قائم ذہنی صحت کے لیے مشورے کی سہولت یا ‘ہیلپ لائن’ پر بے شمار لوگ رابطہ کر رہے ہیں اور اس ہیلپ لائن پر موصول ہونے والی فون کالز میں 900 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
بحر اوقیانوس کی دوسری جانب برطانیہ کے قومی ادارۂ صحت نے بھی اپنے طبی عملے، جو کام کے شدید دباؤ کا شکار ہیں، کے لیے اسی طرز کی ایک سہولت شروع کر دی ہے۔
برطانیہ میں ذہنی صحت کے مرکز کے نائب سربراہ اینڈی بیل اس بات سے مکمل طور پر متفق نہیں ہیں کہ سوشل ببل بڑھانے سے لوگوں کی ذہنی صحت ٹھیک رکھنے میں مدد ملے گی۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہر کسی پر ایک جیسا اثر نہیں پڑ رہا۔
انھوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کا اثر اس وقت شدید ہوتا ہے جب آپ غیر محفوظ ہوں۔ ’اگر آپ کی آمدن کم ہو یا آپ کسی ایسے گھر میں رہتے ہوں جہاں لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ذہنی صحت کے لیے مشکلات بڑھ جاتی ہیں جب یہ سب عوامل بھی اثر انداز ہو رہے ہوں۔ ’اب ہمیں یہ عملی تجربے سے سیکھنا ہو گا۔‘
لیکن ذہنی صحت کے ایک اور ادارے کے نائب سربراہ برین ڈو کا خیال ہے کہ اس طرح کی پالیسی سود مند ثابت ہو سکتی ہے اگر اس کو منظم طریقے سے اختیار کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اس سے ایک جگہ بند رہنے سے جو کوفت ہوتی ہے اس کو دور کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ لوگ بہت سمجھ دار ہیں اور انھوں نے سماجی رابطوں کا ایک ذریعے سوشل میڈیا سے نکال لیا ہے لیکن اس وقت انھیں صرف ایک مرتبہ گلے ملنا درکار ہے۔
Source link
International Updates by Focus News