کورونا وائرس: وہ شہر جہاں وائرس کے نتیجے میں کئی ممالک سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں
[ad_1]
ایکواڈور کے سب سے گنجان آباد شہر گوایاکویل میں صرف چوراہے خالی اور ہسپتال بھرے نہیں ہیں بلکہ یہاں لوگ سڑکوں پر مر رہے ہیں اور گھروں میں اس وبا سے مرنے والوں کی لاشیں وہاں سے لے جانے کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔
لاطینی امریکہ کے اس ملک کے سب سے بڑے شہر کو عوامی صحت کے بحران کا سامنا ہے۔
یکم اپریل تک ایکواڈور کے صوبے گوایا میں لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک میں کورونا سے ہونے والی مجموعی ہلاکتوں سے زیادہ یعنی 60 ہلاکتیں ہو چکی تھیں اور یہاں 1937 مصدقہ مریض تھے۔
ایکواڈور میں سامنے آنے والے کورونا وائرس کے 70 فیصد مریضوں کا تعلق اس خطے کے دارالحکومت گویاکویل سے ہے۔ یہ دنیا کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں کورونا وائرس کے آبادی کے تناسب سے مریض بہت زیادہ ہیں۔
کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟
کورونا کے مریض دنیا میں کہاں کہاں ہیں؟
کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟
آخر کورونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟
کورونا کے بارے میں آپ کے سوال اور ان کے جواب
اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
اس کے علاوہ ان اعدادوشمار میں ایسے افراد شامل نہیں جو اس وائرس کا ٹیسٹ کروائے بغیر ہی فوت ہو گئے۔
لاطینی امریکہ کے ممالک میں برازیل اور چلی کے بعد ایکواڈر کورونا کے متاثرین کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے تاہم یہاں ہونے والی اموات کی تعداد ان دونوں ممالک سے بھی زیادہ ہے۔
گوایاکویل میں تدفین کا انتظام کرنے والے ادارے اس صورتحال کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔
یہ بحران اس قدر بڑھ چکا ہے کہ صدر لینن مورینو نے لاشیں اٹھانے اور دفنانے کے لیے خصوصی فورس تشکیل دی ہے۔
ایکواڈر کے دارالحکومت کویٹو سے 600 کلومیٹر جنوب میں واقع اس شہر کی آبادی 25 لاکھ ہے۔ یہاں کی ایک رہائشی جیسیکا کسٹینڈا نے بتایا: ‘میرے انکل سیگونڈو کی 28 مارچ کو موت ہوئی اور کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آیا۔’
‘ہسپتال میں کوئی خالی بیڈ نہیں ملا اور وہ گھر پر ہی مر گئے۔ ہم نے ایمرجنسی سروس والوں کو فون کیا اور انھوں نے ہمیں صبر کرنے کا کہا۔ ان کی لاش ابھی بھی وہاں پڑی ہے جہاں ان کی موت ہوئی، ہم نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا۔’
ایسا نہیں کہ صرف کورونا وائرس کے مریضوں کو ہی ایمرجنسی سروس والوں کی جانب سے جواب نہیں مل رہا۔
شہر کے شمال میں رہنے والی وینڈی نوبوا کہتی ہیں ‘میرا پڑوسی گر گیا اور ان کے سر پر چوٹ لگی، میں نے ایمرجنسی سروس 911 پر کال کی لیکن وہ کبھی نہیں آئے۔’
اس حادثے کے نتیجے میں 29 مارچ کو ان کے 96 سالہ پڑوسی گورکی پیزمینو کی موت ہو گئی۔
‘پورا دن ان کی لاش فرش پر پڑی رہی، پھر ان کے گھر والے آئے اور اسے اٹھا کر لے گئے لیکن وہ انھیں دفنا نہیں سکے کیونکہ ان کی موت کے سرٹیفیکیٹ پر دستخط کے لیے کوئی ڈاکٹر دستیاب نہیں تھا۔’
72 گھنٹے سے زیادہ کا انتظار
مقامی افراد سوشل میڈیا کے ذریعے اس وبا میں مبتلا ہونے والوں اور گلیوں میں مرنے والوں کی معلومات شیئر کر رہے ہیں۔
گذشتہ چند روز میں گردش کرنے والی ویڈیوز میں ایک ہسپتال کے باہر مرنے والے شخص اور گھر سے لاش اٹھانے کے لیے کیے گئے ایک احتجاج میں ٹائر جلانے کی ویڈیو سامنے آئی ہے۔(تاہم بی بی سی نے ان ویڈیوز کے ذرائع کی تصدیق نہیں کی ہے۔)
گوایاکویل کے ایک اخبار ایل ٹیلی گرافو کی صحافی جیسیکا زیمبرانو نے بتایا: ‘میں اور میرے شہر روزمرہ کی خریداری کے لیے گئے اور چوراہے پر ایک لاش کو دیکھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ صرف چند میٹر کے فاصلے پر سڑک پر ایک اور لاش بھی پڑی ہے۔’
‘یہاں ہم پہلے بےگھر افراد کو ادھر ادھر سوتے دیکھا کرتے تھے۔ اب ہم شہر کے مرکز میں انھیں مرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔’
گھر پر مرنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جو حکومتی سہولیات پر دباؤ ڈالتی ہے۔
رش سے بھرے ہسپتال زیادہ مریض رکھنے کی پوزیشن میں نہیں۔
ایکسپریسو اخبار کی ایک صحافی بلینکا مونکاڈا کہتی ہیں: ‘گوایاکویل میں لوگ بہت مایوس ہیں، کچھ لوگوں کو لاش لے جانے کے لیے آنے والے حکام کا 72 گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔’
مارچ کے آخری ہفتے میں گھروں میں 300 سے زیادہ لوگوں کی(مختلف وجوہات کی وجہ سے) اموات ہوئیں اور پولیس نے ان کی لاشیں وہاں سے نکالیں۔
ہسپانوی خبر رساں ادارے ای ایف ای کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت انتظار کی موجودہ فہرست میں 115 نام ہیں۔
ایکواڈر میں کورونا وائرس
حکومت نے دو اپریل تک ملک بھر میں 98 اموات اور 2758 مریضوں کی تصدیق کی ہے۔
لاطینی امریکہ میں برازیل اور چلی کے بعد یہ تیسرا ملک ہے جہاں کوونا وائرس کے متاثرین بہت زیادہ ہیں۔
یہاں شرح اموات پانامہ کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
گویاکویل کا صوبہ سب سے متاثرہ علاقہ ہے اور 70 فیصد مریض یہاں سے سامنے آئے ہیں۔
کفن اور تدفین کا عمل ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر جاری رہنے والے 15 گھنٹے کے کرفیو کی وجہ سے مزید مشکل ہو گیا ہے۔
آرمی کمانڈر ڈارون جارین کچھ روز پہلے ہی صوبے میں حکومت کے لیے فوج اور پولیس کے رابطہ کار بنے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ہفتے کے اختتام تک تمام لاشوں کی تدفین کر دی جائے گی۔
انھوں نے کہا ‘مسلح افواج تدفین کی ذمہ دار ہوں گی۔’
اس کے باوجود اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نمٹنا ایک چیلنج ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس مسئلے کی وجہ سے سیاسی تنازعات بڑھنے لگے ہیں۔
گوایاکویل کی میئر سنتیا وتیری (جو خود بھی کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد آئسولیشن میں ہیں) نے صحت عامہ کے نظام کی ناکامی کا الزام قومی حکومت پر عائد کیا ہے۔
انھوں نے کہا:’وہ لاشیں راستے پر چھوڑ دیتے ہیں، لوگ ہسپتالوں کے سامنے مر رہے ہیں۔ کوئی بھی لاشوں کو لے جانا نہیں چاہتا۔ ہمارے بیمار لوگوں کے ساتھ کیا ہو گا؟ خاندان ہسپتالوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں اور ہسپتال انھیں داخل نہیں کر پا رہے کیونکہ خالی بستر نہیں ہیں۔’
اجتماعی قبروں کا تنازعہ
ملک کے وزیر صحت جوان کارلوس نے بی بی سی کو بتایا: ‘جو ہو رہا ہے ہم اس کی تردید نہیں کر سکتے اور یہ سنجیدہ ہے۔’
‘لیکن ہمیں اس بات پر زور دینا ہو گا کہ اس براعظم میں سخت ترین پابندیوں کا اطلاق کرنے میں ہم سب سے پہلے تھے۔’
انھوں نے کہا کہ وہ حکومت پر ہونے والی کچھ تنقید سے اتفاق نہیں کرتے۔
گوایا میں میونسپل انتظامیہ نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کرنے کی تجویز دی لیکن جلد ہی وہ اس سے پیچھے ہٹ گئی۔
گویاکویل کے ایک ماہر عمرانیات ہیکٹر چریبوگا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا:’یہ ایک بہت برا خیال ہے۔’
‘یہ وہ شہر ہے جہاں خاندان یورپ سے کسی رشتہ دار کی واپسی تک تدفین کو روک دیتے ہیں، یہاں کے لوگوں نے گذشتہ دو دہائیوں میں بڑی تعداد میں یورپ کی جانب نقل مکانی کی ہے۔ یہاں لوگ لاشوں کو کپڑے پہنا کر تیار کرتے ہیں اور زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب کیتھولک چرچ نے مردوں کی باقیات کو جلانے کی منظوری نہیں دی تھی۔’
انھوں نے مزید کہا:’قدامت پسند گوایاکویل میں اجتماعی قبر کا خیال بہت سے لوگوں کو پریشان کر دے گا۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘مذہبی خاندانوں کو اس سے زیادہ تکلیف ہو گی، زیادہ تر کیتھولک بہت برا محسوس کریں گے اگر انھیں آخری رسومات ادا کرنے سے روکا گیا۔’
جورج ویٹڈ اس فورس کے سربراہ ہیں جو صدر موروینو نے گھر اور ہسپتال سے لاشیں جمع کرنے کے لیے بنائی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر اجتماعی قبروں کے منصوبے پر عمل درآمد کیا جاتا تو وہ کبھی اس ذمہ داری کے لیے ہاں نہ کرتے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا ’خاندان پھر بھی آخری رسومات میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔’
خوف میں زندگی
مسئلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تدفین کا انتظام کرنے والے بعض ادارے کورونا وائرس کے خوف سے اپنی خدمات فراہم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
ایکواڈر میں پبلک ہیلتھ سوسائٹی کے ڈاکٹر گریس نیوریٹ کا کہنا ہے: ‘یہاں بڑے پیمانے پر خوف پایا جاتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ جس کی بھی موت ہو رہی ہے وہ کووڈ-19 سے ہو رہی ہے۔’
انھوں نے کہا کہ مرنے والوں کے رشتہ دار بھی خوفزدہ ہیں۔
‘گھروں میں بھی ایسا ہی ہے، کوئی مر جاتا ہے تو باقی اسے ہاتھ نہیں لگاتے اور گوایاکویل گرم علاقہ ہے تو لاشیں جلد ہی گلنا سڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔’
کچھ لوگ تجویز کرتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے ایک وسیع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔
صحت عامہ کے ماہر ایرنیسٹو ٹورس کا ماننا ہے کہ اس وبائی بیماری سے معاشرتی سطح پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘اگر ہم کمیونٹی سے لوگوں کو شامل کریں تو ہم ہسپتالوں میں ہجوم کم کر سکتے ہیں۔’
انھوں نے تجویز دی کہ مقامی رضاکاروں کے ذریعے سینٹری بریگیڈ بنا کر اس بحران سے نمٹا جا سکتا ہے۔
ایکواڈر کی ہیومن رائٹس کمیٹی کے ایک رکن پال مرلیو کا کہنا ہے کہ خطے میں چھوٹی اور دوردراز رہنے والی برادریوں کو ‘حقیقی اور شدید انسانی بحران’ کا سامنا ہے۔
وہ کہتے ہیں ‘اس بیماری کو روکنے کے لیے گھر میں رہنا ایک ضروری اقدام ہے لیکن ہم نے شہر کے ارد گرد کے علاقوں میں رہنے والے کمزور افراد کے لیے بنیادی معاملات جیسے کھانے اور تحفظ کے ہنگامی منصوبے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔’
گوایاکویل کی 17 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کا شکار ہے۔ اس خطے میں معاشرتی عدم مساوات بہت زیادہ ہے۔
لیکن کچھ حکام کا ماننا ہے کہ صرف معاشرتی اختلافات کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور یہ کہ اس وبا کے پھیلاؤ سے ایسی نازک صورتحال کہیں اور بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
جورج ویٹڈ کہتے ہیں: میں لاطینی امریکہ کے باقی ممالک کی طرف دیکھوں تو نظر آتا ہے کہ باقی تمام ممالک بھی وہی کر رہے ہیں جو ہم نے تین ہفتے پہلے کیا۔ مثال کے طور پر ارجنٹائن جہاں چیزیں بدتر ہو جائیں گی۔’
‘اس دوران ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہم اس صورتحال سے نکلیں اور جتنا کام ہو سکے وہ کریں۔’
Source link
International Updates by Focus News