کورونا وائرس کی وبا سے جعلی ادویات کے کاروبار میں اضافہ
[ad_1]
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبرادر کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں کورونا وائرس سے منسلک جعلی ادویات کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ان ادویات کے ’سنگین مضر اثرات‘ ہو سکتے ہیں۔ ایک ماہر نے ’غیر معیاری اور جعلی مصنوعات کی متوازی وبا‘ کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
بی بی سی نیوز کی ایک تفتیش میں افریقہ میں فروخت ہونے والی جعلی ادویات کے بارے میں پتا چلا ہے، جہاں جعل ساز مارکیٹ میں پیدا ہونے والے خلا کا استحصال کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں لوگ بنیادی ادویات کا ذخیرہ کر رہے ہیں تاہم بڑی تعداد میں طبی سامان تیار کرنے والے دو ممالک چین اور بھارت میں لاک ڈاؤن اور ادویات کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے جعلی ادویات کی گردش بڑھ رہی ہے۔
کورونا کے بارے میں آپ کے سوال اور ان کے جواب
پاکستان میں کلوروکوین کا کورونا متاثرین پر استعمال کتنا موثر
کورونا وائرس کے ’ہومیوپیتھک علاج‘ پر انڈیا کی وضاحت
کورونا وائرس: ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو کتنا خطرہ ہے؟
جس ہفتے عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو وبائی بیماری قرار دیا تھا، انٹرپول کے عالمی فارماسیوٹیکل کرائم فائٹنگ یونٹ کی جانب سے صرف سات دن کے دوران 90 ممالک میں 121 گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، جس کے نتیجے میں ایک کروڑ 40 لاکھ ڈالر کے خطرناک طبی سامان اور ادویات کو قبضے میں لیا گیا۔
ملائیشیا سے لے کر افریقی ملک موزمبیق تک پولیس افسران نے ہزاروں جعلی ماسک اور ادویات ضبط کیں ہیں، جن میں سے بہت نے کورونا وائرس کے علاج کا دعوی کیا تھا۔
انٹرپول کے سیکرٹری جنرل جورجین سٹاک کا کہنا ہے:’صحت عامہ کے بحران کے دوران ایسی جعلی طبی اشیا کی غیر قانونی تجارت، لوگوں کی زندگیوں کو پوری طرح نظرانداز کرتی ہے۔‘
ڈبلیو ایچ او کے مطابق کم یا درمیانی آمدن والے ممالک میں جعلی ادویات کی اس تجارت، جس میں ایسی دوائیں شامل ہیں جن میں کوئی غلط یا غیر فعال اجزا شامل ہیں، کی مالیت 30 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
جعلی طبی مصنوعات سے نمٹنے والی ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کے پیرنیٹ بورڈیلین ایسٹیو کہتے ہیں: ’بہترین صورتحال میں جعلی ادویات ممکنہ طور پر اس مرض کا علاج نہیں کریں گی جس کے لیے انھیں استعمال کیا جا رہا ہو گا۔‘
’لیکن بدتر صورتحال میں وہ نقصان کا سبب بھی بنے گیں کیونکہ ان میں کوئی زہریلا مواد استعمال کیا گیا ہو گا۔‘
ادویات کی فراہمی کا نظام
دواسازی کی عالمی صنعت کی مالیت 1 ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے۔ ادویات کی سپلائی کا نظام بہت وسیع ہے جو چین اور انڈیا کی فیکٹریوں سے لے کر یورپ، جنوبی امریکہ اور یورپ کے کارخانوں سے ہوتا ہوا ڈسٹریبیوٹرز تک پھیلا ہوا ہے، جہاں سے یہ ادویات دنیا کے ہر ملک میں پہنچتی ہیں۔
ایسٹیو کہتے ہیں: ’شاید عالمی سطح پر دوا سے زیادہ کچھ نہیں۔‘ تاہم جیسے ہی دنیا لاک ڈاؤن میں چلی گئی ہے، ادویات کی فراہمی کا یہ نظام منقطع ہونا شروع ہو گیا ہے۔
انڈیا میں کئی دوا ساز کمپنیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اب اپنی معمول کی گنجائش کا صرف 50 سے 60 فیصد کام کر رہی ہیں۔ چونکہ انڈیا کی کمپنیاں افریقہ کو تمام بنیادی ادویات کا 20 فیصد حصہ فراہم کرتی ہیں تو افریقی ممالک اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
افریقی ملک زیمبیا کے دارالحکومت لوساکا کے ایک دوا ساز افرایم فیری نے کہا ہے کہ وہ پہلے ہی اس تناؤ کو محسوس کر رہے تھے۔
’ادویات پہلے ہی کم ہو رہی ہیں اور ہم یہ کمی پوری نہیں کر پا رہے۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ادویات کی فراہمی حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔۔۔ خاص طور پر ضروری ادویات جیسے کہ اینٹی بائیوٹکس اور اینٹی میلریل۔‘
ادویات تیار کرنے اور ان کو فراہم کرنے والی کمپنیاں بہت جدوجہد کر رہی ہیں کیونکہ گولیوں(ٹیبلٹس) کی تیاری میں استمعال ہونے والا خام مال اب بہت مہنگا ہو گیا ہے اور کچھ کمپنیاں اس قیمت کو آسانی سے برداست نہیں کر سکتیں۔
پاکستان میں ایک مینیوفیکچر نے بتایا کہ وہ ملیریا سے بچاؤ کی دوا کلوروکوین میں استعمال ہونے والے خام اجزا کے لیے فی کلو ایک سو ڈالر ادا کیا کرتے تھے لیکن اب اس کی قیمت بڑھ کر 1150 ڈالر فی کلو ہو گئی ہے۔
بہت سے ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہ صرف ادویات کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے بلکہ ان کی مانگ میں اضافہ بھی ہوا ہے کیونکہ پوری دنیا کے لوگ بے چینی اور خوف میں بنیادی ادویات کا ذخیرہ کر رہے ہیں۔
طلب اور رسد کے اس غیر مستحکم امتزاج کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت نے جعلی ادویات کی تیاری اور فروخت کے خطرناک اضافے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او سے تعلق رکھنے والے ایسٹیو کہتے ہیں: ’جب رسد طلب کو پورا نہیں کرتی تو ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جہاں ناقص معیار کی یا جعلی ادویات اس مانگ کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔‘
جعلی ادویات
ملیریا کے علاج کے لیے بنائی جانے والی ادویات کی عالمی فراہمی اب خطرے کی زد میں ہے۔
جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں کلوروکوین اور اس سے منسلک مرکب ہائیڈرو کلوروکوین کے مؤثر ہونے کا حوالہ دینا شروع کیا ہے، اس وقت سے عالمی سطح پر ملیریا کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈبلیو ایچ او بار بار یہ کہہ چکا ہے کہ اس بات کے کوئی حتمی ثبوت موجود نہیں کہ کلوروکوین یا ہائیڈرو کلوروکوین کو کورونا وائرس کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم ایک حالیہ نیوز کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے کہا: ’آپ کے پاس کھونے کے لیے کیا ہے؟ اسے لے لیں۔‘
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ مانگ میں اضافے کی وجہ سے جمہوریہ کانگو اور کیمرون میں بڑی مقدار میں جعلی کلوروکوین گردش کر رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کو بھی پتا چلا ہے کہ یہ جعلی دوا افریقی ملک نائجر میں فروخت ہو رہی ہے۔
ملیریا سے بچاؤ کی دوا کلوروکوین کی ہزار گولیوں پر مشتمل ایک بوتل عام طور پر 40 ڈالر میں فروخت کی جاتی ہے لیکن کانگو میں اب یہ تقریباً 250 ڈالر سے بھی زیادہ میں فروخت کی جا رہی ہے۔
فروخت کی جانے والی یہ دوا مبینہ طور پر بیلجیئم میں ’براؤن اینڈ برک فارماسیوٹیکل لمیٹڈ‘ نے تیار کی تھی۔ تاہم برطانیہ میں رجسٹرڈ دوا ساز کمپنی براؤن اینڈ برک نے کہا ہے کہ ان کا ’اس دوا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس دوا کو تیار نہیں کرتے، یہ جعلی ہے۔‘
یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں جعلی ادویات کے ماہر پروفیسر پال نیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ جب تک دنیا بھر کی حکومتیں مل کر مقابلہ نہیں کرتیں، جعلی اور خطرناک دوائیوں کی گردش بڑھتی رہے گی۔
’جب تک ہم سب اس بات کو یقینی نہیں بناتے کہ ادویات کی تیاری، جانچ پڑتال، مساوی تقسیم اور ٹیسٹس، دوائیوں اور ویکیسن کی نگرانی کا عالمی سطح پر منظم منصوبہ موجود ہے، تب تک ہمیں غیر معیاری اور جعلی مصنوعات کی ایک وبا کا بھی خطرہ ہے۔ ورنہ جدید ادویات کے فوائد۔۔۔ کھو جائیں گے۔‘
Source link
International Updates by Focus News