جنرل

کیا کورونا وائرس کی وبا کے دوران ولادیمیر پوتن کی روس پر گرفت کمزور ہو رہی ہے؟

[ad_1]

تصویر کے کاپی رائٹ
Getty Images

Image caption

ان کی مدت تمام ہونے میں اب چار سال رہ گئے ہیں، اس لیے وہ خود کو ایک نئے انداز میں برقرار رکھنے کی تگ و دو میں ہیں

وہ ابھی بھی ’فیکٹری آف ہیپینیس‘ میں بیکنگ کر رہے ہیں۔

چہرے پر ماسک لگائے اب بہت ہی کم عملہ بنوں پر خشک میوہ جات اور بیریاں چھڑکتا ہے، پیسٹریز پر چاکلیٹ ڈالتا ہے اور اب ان کی مصنوعات صرف ٹیک اوے یعنی پیک کر کے باہر لے جانے کے لیے ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن نے کمپنی کو فیملیوں کے لیے پسندیدہ اپنے کیفیز بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس سے کاروبار کو جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن اس کی مالکن کا کہنا ہے کہ حکومت کوئی تعاون نہیں کر رہی ہے۔

چنانچہ جب انستاسیہ تاتولووا روس کے صدر کے سامنے آئیں تو وہ خود کو روک نہیں سکیں۔

انھوں نے ولادیمیر پوتن کو گذشتہ ماہ کہا کہ ’میں روئے بغیر آپ سے مدد کے لیے بھیک مانگنے کی کوشش کروں گی، لیکن یہ ایک حقیقی المیہ ہے۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کے ’نصف اقدامات‘ سے کام نہیں چلے گا۔

یہ بھی پڑھیے

ولادیمیر پوتن: 20 سال 20 تصویریں

پوتن کا ’بیٹیوں‘ سے متعلق سوالات کے جواب سے گریز

سعودی عرب اور روس کی بڑھتی قربت، ہو کیا رہا ہے؟

پوتن کی جانب سے ’ہمشکل‘ استعمال کرنے کی تردید

Image caption

انستاسیہ تاتولوا نے روس کے صدر پوتن پر زور دیا کہ وہ متاثرہ کاروباروں کو سہارا دیں

جب کووڈ 19 کے لیے پابندیاں لگنے لگیں اور کمپنیوں نے اپنے عملے کو کم کرنا شروع کیا اس وقت تاتولووا کاروباری افراد اور صدر کے مابین ہونے والی ایک ملاقات میں سامنے کی صف میں موجود تھیں۔ ان کے 12 منٹ کے جذباتی بیان کو سرکاری ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھایا گیا۔

حال ہی میں انھوں نے وضاحت کی کہ ’اس وقت میں صرف یہ چاہتی تھی کہ وہ مجھے سنیں۔‘ انھوں نے کہا کہ اب انھیں بمشکل نیند آتی ہے اور وہ مستقل طور پر اپنے کاروبار کو زندہ رکھنے کے نئے راستے تلاش کرنے کے بارے میں سوچتی رہتی ہیں۔

’میں نے سوچا کہ وہ سمجھ گئے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے اور حکومت کے اقدامات کافی نہیں ہیں۔ اب ہمیں خود ہی انتظام کرنا ہوگا۔‘

Image caption

لاک ڈاؤن سے دیگر کاروباروں کی طرح اینڈیرسن کیفے بھی متاثر ہوا ہے اور خالی پڑا ہے

جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے سنہ 1930 کی دہائی کے عظیم ڈپریشن یا کساد بازاری کے بعد کی سب سے بڑی مندی کی پیش گوئی کی ہے تو ایسے میں روس کی معیشت بھی اس سے بچی نہیں رہ سکتی، اور نہ ہی اس کے سیاستدان، بشمول صدر پوتن۔

انھوں نے طویل حکمرانی کے دوران ایک ایسے رہنما کے طور پر اپنی تصویر تیار کی ہے جنھوں نے روس کو سوویت دور کے بعد آنے والے انتشار سے نکالا اور روس کو خوشحال بنایا۔

مسٹر پوتن نے ملک میں ’استحکام‘ قائم کرنے کے اپنے روایتی کھیل کے لیے رواں ہفتے ملک بھر میں ووٹ کروا کر آئین میں تبدیلی لا کر مزید دو مدتوں کے لیے منتخب ہونے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن انھیں بڑے شش و پنج کے بعد ووٹنگ کو اس لیے ملتوی کرنا پڑا کہ وبا کے اس عروج کے دور میں یہ بہت ہی خطرناک ہو سکتا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Reuters

Image caption

صدر پوتن اپنی تعطیلات کی رہائش گاہ میں، جہاں سے انھوں نے ایسٹر کے موقعے پر آرتھوڈوکس مسیحیوں سے خطاب کیا

اب صدر خود کے لیے پیدا ہونے والی کچھ پریشانیوں کو سونگھ سکتے ہیں۔ ماسکو کارنیگی سینٹر تھنک ٹینک کے آندریئی کولیسنیکوف نے استدلال کیا کہ ’مطلق العنان روسی حکومت اپنے وعدوں کو پورا نہیں کر سکتی۔ وہ لوگوں کو یا بزنس کو تعاون فراہم نہیں کر سکتی۔‘

زیادہ تر ریاستی مدد اور تعاون بڑے کاروبار میں جا رہا ہے: زیادہ ملازمین کا مطلب روس کی معیشت کے لیے زیادہ اہم، لیکن صدر پر تنقید کم۔

اس نے دوسروں میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ انھیں چھوڑ دیا گیا ہے۔

کولیسنیکوف نے کہا کہ ’میں اس حکومت کے لیے کسی تباہی کی پیش گوئی نہیں کر سکتا لیکن یہ پوتن کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ کریملن کے پاس لوگوں کو ان کی مشکلات سے نکالنے کے لیے کوئی نیا نعرہ بھی نہیں ہے۔

اس مایوسی کی بعض علامات وائرس کی طرح ہی پہلے سے ہی روسی خطوں میں پھیل رہی ہیں۔

پیر کے روز جنوبی شہر ولادیکاوکاز میں سیکڑوں افراد لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے باہر نکل آئے۔ علاقائی حکومت ملازمت سے محروم ہونے والوں کو صرف تین ہزار روبل (یعنی تقریباً 40 ڈالر) اضافی ادائیگی کی پیش کش کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ آن لائن میپ ایپلی کیشنز کا استعمال کرتے ہوئے اکا دکا مجازی مظاہرے بھی ہوئے ہیں جہاں لوگ سرکاری عمارتوں کے باہر بھیڑ لگا کر مزید مدد کا ’مطالبہ‘ کرتے ہوئے پیغامات پوسٹ کر رہے ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Reuters

Image caption

صدر پوتن اپنے وزرا کے ساتھ 20 اپریل 2020 کو ویڈیو کانفرنس کر رہے ہیں

نستیا میخائیلووا نے بی بی سی کو سائبیریا کے نووسیبیرسک سے بتایا کہ ’ابھی ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ حکومت کی ایک بڑی ناکامی ہے۔‘

29 سالہ نوجوان خاتون نے ایونٹ مینیجمنٹ میں ابھی ابھی اپنی ملازمت کھوئی ہے اور ان کے پاس صرف دو ہفتوں تک کی کفالت کی بچت ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس اپنے خاتمے سے قبل روس میں تقریباً 80 لاکھ ملازمتوں کا صفایا کر دے گا۔

نستیا نے کہا ’مجھے نہیں لگتا کہ وہ واقعتاً لوگوں کو خوش کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ہم صرف پریشان ہیں۔‘

صدر پوتن نے بے روزگاری کے لیے دیے جانے والے معاوضے میں اضافے کا حکم دیا ہے۔ لیکن یہ صرف گزر بسر کی ہی سطح تک ہے۔

جہاں تک کمپنیوں کے لیے اجرت میں تعاون کی بات ہے تو روس ایک ماہ میں 12،000 روبل کی امداد کی پیشکش کر رہا ہے جو کہ بہت سی یورپی حکومتوں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ اور یہ اس صورت میں ہی نافذ ہوتا ہے جب کمپنی اپنے 90 فیصد عملے کو کام پر رہنے دے جو کہ چھوٹی کمپنیوں کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔

یکاترن برگ میں فٹنس کلبز کی ایک چین کے مالک جنھیں اپنی ہی ٹیم کو تنخواہ دینے میں دقت کا سامنا ہے، انھوں نے اپنے سٹاف کے نام ایک خط میں اپنا غصہ نکالا ہے۔

الیکسی رومانوو نے ولادیمیر پوتن پر الزام عائد کیا کہ وہ کورونا وائرس بحران کے بجائے اپنے آئینی اصلاحاتی منصوبے پر ہی ’ہمیشہ سوچتے‘ رہتے ہیں۔ انھوں نے روس کے سیاستدانوں کو ’مکمل طور پر گمراہ‘ قرار دیا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹ
Reuters

Image caption

روس میں کورونا وائرس کی وبا ابھی تک عروج پر نہیں پہنچی ہے

الیکسی نے بی بی سی کو بتایا ’حکومتی اقدامات کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے، وہ ہمیں نہیں بچائیں گے۔ میرے خیال سے وہ نااہلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔۔۔ ہم صرف اپنے آپ پر انحصار کرسکتے ہیں۔‘

کریملن کے ترجمان نے کسی بے چینی کے ممکنہ سیاسی اثرات کے بارے میں ایک سوال کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ سرے سے اس تصور سے ہی متفق نہیں ہیں۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ ولادیمیر پوتن ’وبا کے منفی اثرات کو کم سے کم کرنے کے اقدامات پر روزانہ کام کر رہے ہیں۔’

یہ کتنا عرصہ چلے گا، ابھی یہ واضح نہیں ہے۔ ایناستاسیا تاتولووا کے ایک کیفے میں ابھی بھی میزوں پر نمک اور کالی مرچ سجے ہوئے ہیں اور بعض نشستوں کے ساتھ مصنوعی بھالو رکھے ہوئے ہیں۔

لیکن دروازے مضبوطی سے بند ہیں اور وبا کا عروج اب تک نظر میں نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہو تاتولووا کے پاس کاروبار کے بارے میں کہنے کے لیے مزید کوئی بات نہیں ہے۔ صدر کے ساتھ اس فی البدیہہ بات چیت کے بعد انھیں ایک سرکاری مشاورتی گروپ سے ہٹا دیا گیا ہے۔

انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’شاید وہ پریشان ہوں کہ پتا نہیں میں آئندہ کیا کہہ دوں۔ میرے خیال سے میں نے کوئی بھی جارحانہ بات نہیں کی۔ میں نے تو بس وہی کہا جو وہاں ہر کوئی کہنا چاہتا تھا۔‘

[ad_2]
Source link

International Updates by Focus News

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button