
ذوالفقار چیمہ صاحب”بدنامی” سے بچ گئے….امجد عثمانی
بات سے بات نکلی تو انہوں نے بتایا کہ چیمہ صاحب وزیر داخلہ بنتے بنتے رہ گئے۔۔۔۔میں نے "لقمہ"دیا کہ وہ نیک نام آدمی ہیں۔۔۔۔۔اچھا ہوا "بدنامی"سے بچ گئے۔۔۔
گوجرانوالہ کے معتبر اخبار نویس برادرم جناب ڈاکٹر عمر نصیر کے ساتھ "تعزیتی نشست” میں اصول پسند پولیس افسر جناب ذوالفقار چیمہ کا تذکرہ بھی ہوا کہ وہ چپکے سے زرنم نور کو ایصال ثواب کے لیے تشریف لائے اور رات گئے تک بیٹھے رہے۔۔۔۔۔دوست غم بٹاتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب بھی چیمہ صاحب کے خاص دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔۔۔۔بات سے بات نکلی تو انہوں نے بتایا کہ چیمہ صاحب وزیر داخلہ بنتے بنتے رہ گئے۔۔۔۔میں نے "لقمہ”دیا کہ وہ نیک نام آدمی ہیں۔۔۔۔۔اچھا ہوا "بدنامی”سے بچ گئے۔۔۔۔۔میں نے کہا پانچ سال کے دوران دو "خاردار حکومتوں” نے آبلہ پا عوام کے راستے میں اتنے "کانٹے” بکھیر دیے ہیں کہ انہیں چننا کسی نگران حکومت کے بس کی بات نہیں۔۔۔۔۔۔بحران بڑا اور وقت تھوڑا ہے۔۔۔۔۔چار چھ مہینے بعد چیمہ صاحب بھی دامن تار تار لیے واپس ہو لیتے۔۔۔ہاں وہ کسی "طویل مدتی نظام” میں بہترین نتائج دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔جناب ذوالفقار چیمہ نے وزارت داخلہ کا حلف کیوں نہ اٹھایا؟؟؟ڈاکٹر عمر نصیر نے اپنے اخبار روزنامہ انقلابی دنیا میں شائع ایک”ان سائیڈر "میں اس راز سے پردہ اٹھایا ہے۔۔۔۔۔اس اندرونی کہانی کا خلاصہ یہ کہ جونہی نگران کابینہ کیلئے ذوالفقار چیمہ کا نام ٹی وی سکرینوں کی زینت بنا تو دو قسم کا ردعمل سامنے آیا۔۔۔۔۔ایک طرف امید کی کرن ابھری تو دوسری طرف مایوسی کے گہرے بادل چھا گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محب وطن حلقوں کے چہرے کھل اٹھے کہ چلیں اس بہانے گلے سڑے نظام کی تطہیر ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔بگڑے ادارے راہ راست پر آجائیں گے اور کرپشن کے مکروہ باب بند ہو جائینگے۔۔۔۔۔دوسری طرف ذوالفقار چیمہ کا نام سن کر وفاقی دارالحکومت میں پنجے گاڑے مافیاز میں کہرام مچ گیا۔۔۔۔سی ڈی اے سے بچائو بچائو کی صدائیں شروع ہوگئیں۔۔۔۔اسلام آباد کی انتظامیہ اور پولیس کے بدنام افسروں میں کھلبلی مچ گئی۔۔۔۔۔۔۔ امیگریشن کے دیہاڑی داروں میں صف ماتم بچھ گئی۔۔۔۔۔۔۔مافیاز کے کرتا دھرتا ننگے پائوں اپنے کرم فرمائوں کی جانب دوڑے اور دہائی دی کہ چیمہ صاحب سے بچائیں۔۔۔۔۔فیصلہ سازوں نے کہا کہ کابینہ میں نیک نام لوگ چاہئیں۔۔۔۔۔۔۔۔انکے آنے سے تو نگران حکومت کی ساکھ بہتر ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مافیاز نے دلائل دیے کہ نیک نامی اپنی جگہ مگر وہ اپنے مزاج کے آدمی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی ہدایات اور خواہشات پر فیصلے نہیں کرینگے جس سے آپ کے لئے بھی مسائل پیدا ہونگے۔۔۔۔۔۔۔نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ صاحب کے کان میں بھی یہی بات ڈالی گئی۔۔۔۔۔۔۔یہ وار چل گیا اور مافیاز کو ذوالفقار چیمہ سے خلاصی مل گئی۔۔۔۔۔زندگی”ایک موقف” کا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ "سند” ہے جس سے آدمی قد آور ہوتا اور قدر بڑھتی ہے۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں ہندوستان کے عہد ساز خطیب مولانا ابو الکلام آزاد نے ایک سفر کے دوران اپنی30 سیکنڈ کی تاریخ ساز تقریر میں قرآن مجید کی آیت” ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا "کے بعد فرمایا لوگو!خوب سوچ سمجھ کر، چھان پھٹک کر، غور وفکر کرکے ایک موقف اختیار کرو پھر اس پر ڈٹ جاؤ، یہی میری تقریر ہے…..!!!
چیمہ صاحب بھی واضح موقف رکھنے والے نپے تلے آدمی ہیں۔۔۔۔۔یہ آر پی او گوجرانوالہ تھے تو مجھے بھی ایک مرتبہ ان سے واسطہ پڑا۔۔۔۔۔ایک وفاقی وزیر کے "گوبر چودھری” نے میرے”شلجم پسند”کلاس فیلو کی زرعی اراضی پر قبضہ کر لیا۔۔۔۔۔میں ڈاکٹر عمر کے توسط سے ان کے دفتر گیا…..وہ بڑے تپاک سے ملے۔۔۔۔۔۔انہوں نے روداد سنی۔۔۔ اسی وقت متعلقہ ڈی پی او کو فون کرکے زیادتی کا ازالہ کرنے کا حکم دیا۔۔۔۔۔مافیا نے ادھر بھی بھر پور چالیں چلیں اور پھر یہ مسئلہ اوورسیز کمیشن جا کر حل ہوا۔۔۔۔وہ آر پی او گوجرانوالہ تھے تو نوشہرہ ورکاں الیکشن کا تنازع کھڑا ہو گیا۔۔۔۔وہ اصولوں پر ڈٹ گئے۔۔۔۔۔واقفان حال کہتے ہیں کہ وہ تب آئی جی پنجاب کے لیے نواز شریف کی "گڈ بک” میں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے اپنے کیرئیر کا نقصان کر لیا مگر فرائض پر سمجھوتہ نہ کیا۔۔۔۔۔انہوں نے بطور آر پی او شیخوپورہ دہشت اور وحشت کی کمر توڑ دی۔۔۔۔وہ بدترین بحران کے ہنگام ڈی جی پاسپورٹ بنے اور دنوں میں ادارے کو دلدل سے نکال باہر کیا۔۔۔۔۔انہوں نے بطور آئی جی موٹرویز بھی نام کمایا۔۔۔۔۔۔ذوالفقار چیمہ ہی نہیں ان کے بھائی ڈاکٹر نثار چیمہ بھی ایسے ہی اصول پسند ہیں۔۔۔۔۔۔۔دو ہزار بارہ کی بات ہے۔۔۔۔۔۔تب شکرگڑھ میں ق لیگ سے منحرف ایک صوبائی وزیر اور ان کے ضلع ناظم ڈیڈی کا طوطی بولتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔فارورڈ بلاک کے وزیر صاحب پر وزیر اعلی شہباز شریف کی نوازشیں تھیں……وزیر صاحب زعم اقتدار میں اتنا مخبوط الحواس ہوگئے کہ اپنے مخالف سیاستدان کے درجہ چہارم کی نوکری والے بھائی کے درپے ہو گئے اور اس بے چارے کا نارووال تبادلہ کرادیا۔۔۔۔۔۔میں نے یہ کہانی ڈاکٹر عمر کے گوش گذار کی تو انہوں نے اس وقت کے ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر نثار چیمہ سے سفارش کر دی…..ڈاکٹر نثار چیمہ نے اگلے دن ہی تبادلہ کینسل کر دیا…….وزیر صاحب اور ان کے ضلع ناظم ڈیڈی چیخے چلائے ،دوڑے بھاگے مگر نثار چیمہ صاحب ڈٹ گئے کہ میرے ہوتے ہوئے کسی غریب سے زیادتی نہیں ہوگی۔۔۔۔۔گردش ایام دیکھیے کہ پھر وزیر صاحب کا تکبر خاک ہوا اور ان کے مخالف سیاستدان دس سال تک مقتدر ٹھہرے۔۔۔شومئ قسمت کہ خاک نشین بھی اسی زوال پذیر راستے پر چل دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جناب ذوالفقار چیمہ صاحب بلاشبہ بہترین منتظم ہیں۔۔۔۔۔وہ بیوروکریسی کے لنڈے میں "برانڈ” ہیں۔۔۔۔وہ جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔۔۔۔۔سلیکٹڈ اور امپورٹڈ کہلانے والی داغ داغ حکومتوں کے بعد نگران سیٹ اپ پر بھی انگلیاں آٹھ رہی ہیں۔۔۔آج نہیں تو کل یہ "عبوری نظم” بھی متنازع ٹھہرے گا۔۔۔۔۔۔۔وہ بھلے آدمی ہیں۔۔۔۔۔اچھا ہوا بدنامی سے بچ گئے۔۔۔۔۔!!!!