اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

انتخابات کا انعقاد، ’سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ناگزیر ہیں‘

لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو صوبے میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دینے کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنے اجلاس میں ایک بار پھر گیند گورنر پنجاب کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔

پاکستان میں دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ ایک طرف الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا تعین کرنے کے لیے گورنرز کی طرف دیکھ رہا ہے تو دوسری جانب وزارت دفاع نے انتخابات میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دینے کے لیے فورس، لاہور ہائی کورٹ نے جوڈیشل افسران اور وزارت خزانہ نے اضافی گرانٹ دینے سے معذرت کر لی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کو صوبے میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دینے کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنے اجلاس میں ایک بار پھر گیند گورنر پنجاب کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔
ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے الیکشن کمیشن نے عدالت کے حکم کے مطابق گورنر پنجاب سے درخواست کی ہے کہ صوبے میں انتخابات صوبائی اسمبلی پنجاب کی تاریخ سے متعلق مشاورت کے لیے منگل کو ملاقات کے لیے مناسب وقت دیں۔ اس سلسلے میں ضروری مراسلہ جاری کر دیا گیا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کی سربراہی میں سپیشل سیکرٹری اور ڈائریکٹر جنرل لاء کو مقرر کیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی طرف سے گورنر سے مشاورت کریں اور الیکشن کمیشن کو بریف کریں تاکہ الیکشن کمیشن آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کرے۔
یوں لاہور ہائی کورٹ کے واضح حکم کے باوجود صوبے میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تاریخ کا تعین فوری طور پر نہیں کیا جا سکا۔
اس تمام صورت حال پر پاکستان میں انتخابات اور جمہوری عمل کی نگرانی کرنے والے ادارے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک فافن کے سربراہ مدثر رضوی کا کہنا ہے کہ کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت منفرد صورتحال کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام ادارے آئینی طور پر پر الیکشن کمیشن کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ لیکن مخصوص سکیورٹی اور معاشی صورتحال کی وجہ سے کچھ اداروں کی جانب سے الیکشن کمیشن کو اگر انکار کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب ملک میں کچھ سیاسی جماعتیں بھی انتخابات سے گریز کر رہی ہے۔‘
’یقیناً اس میں ان کی سیاسی مصلحتیں بھی شامل ہوں گی۔ الیکشن کمیشن تو ایک آئینی ادارہ ہے جسے آئین کے اندر رہتے ہوئے انتخابات کا انعقاد کرنا ہے، لیکن اس وقت جو ضرورت محسوس ہو رہی ہے وہ سیاسی سطح پر مذاکرات کی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انتخابات کے انعقاد کے لیے اس وقت اصلاحات پر مبنی ایک بل مشترکہ اجلاس میں زیر التوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر وہ بل پاس کرتے ہوئے پولنگ کی تاریخ کا تعین کرکے انتخابات کی طرف جانا چاہیے۔ چونکہ صورتحال بھی مخصوص ہے تو اس لیے اس کا حل بھی مخصوص طریقے سے ہی نکالنا ہوگا۔ کوئی بھی انتظامی حل تلاش کرنے سے انتخابات کا پورا عمل متنازعہ ہو جائے گا۔‘
مدثر رضوی نے کہا کہ ’پورے ملک میں انتخابات ایک ساتھ کرانے ہیں یا صوبوں میں پہلے اور قومی اسمبلی کے انتخابات بعد میں ہونے ہیں۔ اسی طرح اگر آئینی تقاضے کے برعکس انتخابات 90 روز سے آگے جاتے ہیں۔ اس تمام صورت حال کو آئینی اور قانونی کور دینا ہوگا۔ جس کے لیے ناگزیر ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں گے اور الیکشن کمیشن کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔‘
دوسری جانب کچھ ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورت حال اس وجہ سے پیدا کی گئی ہے کہ ملک میں انتخابات کا انعقاد تاخیر کا شکار ہو جائیں۔
سینیٹ آف پاکستان کے سابق سیکرٹری اور آئینی ماہر افتخار اللہ بابر نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’ماضی میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کے لیے صرف فوج اور عدالتی عملے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ تعلیمی اداروں اور دیگر شعبہ جات سے بھی انتخابی عملہ لیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسے میں اگر وزارت دفاع کی جانب سے سکیورٹی فراہم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ بھی عدالتی عملہ فراہم کرنے سے گریزاں ہے تو واضح طور پر یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ملک میں انتخابات نہیں ہوں گے۔‘
’الیکشن کمیشن اگر مخلص ہے اور اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہتا ہے کہ وہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو استعمال میں لا کر سکیورٹی اور تعلیمی اداروں سے عملہ لے کر انتخابات کا انعقاد ممکن بنا سکتا ہے۔‘
تاہم مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ’گذشتہ انتخابات میں کم و بیش 12 لاکھ نفوس پر مشتمل انتخابی عملہ تعینات کیا گیا تھا۔ یہ ایک قومی سطح کی ایکسرسائز ہے جس سے یکطرفہ طور پر کوئی ادارہ ممکن نہیں بنا سکتا۔ آئین کے مطابق تمام ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کے پابند ہیں، لیکن موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ اداروں سے پہلے تمام سیاسی جماعتیں آن بورڈ آئیں۔‘
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ صرف الیکشن کمیشن ہی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کا پابند نہیں ہے بلکہ کچھ ذمہ داریاں سیاسی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے اپنی انا کی تسکین کے لیے لیے اپنی ہی اکثریت والی اسمبلیاں توڑ کر پہلے سے معاشی مشکلات کا شکار ملک کو مزید عدم استحکام کا شکار کیا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں ایڈوکیٹ حسن رشید کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن واضح طور پر پر یہ کہہ سکتا ہے کہ جب حکومت کی جانب سے اسے انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز فراہم کر دیے جائیں گے تو وہ ملک میں انتخابات کرا دے گا۔ الیکشن کمیشن چاہے تو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے اس میں یہ موقف اختیار کر سکتا ہے۔‘
ایڈووکیٹ حسن رشید نے سوال اٹھایا کہ کیا چلتی ہوئی اسمبلیاں توڑ کر انتخابات کا مطالبہ کرنے والی جماعت انتخابی اخراجات برداشت کرنے یا اس میں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہو گی؟
انہوں نے کہا کہ ’آئین پر عمل در آمد کے لیے وسائل کی ضرورت ہے جو اس وقت ملک کے پاس موجود نہیں ہیں۔ لہذا پہلے معاشی صورتحال کو بہتر کرتے ہوئے اخراجات میں کمی لائی جائے اور معاشی استحکام کے ساتھ ہی انتخابات کروا لیے جائیں تو اس میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہو گا۔‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button