سردار میر بلخ شیر مزاری ایک عہد ساز شخصیت تھے وہ…..پیر مشتاق رضوی
سردار میر بلخ شیر مزاری والد میر مراد بخش مزاری سے قبل ان کے بڑے بھائی میر دوست محمد خان مزاری اور ان کے والد میر شیر محمد خان مزاری مزاریوں کے 19ویں سردار اور چوتھے میر رہ چکے تھے
پاکستان کے مشہور سیاست دان اور سابق نگراں وزیر اعظم رہے ہیں۔ قدیم اور معروف بلوچ مزاری قبیلے کے سردار (تمندار) یعنی مزاری قبائل کے سب سے بڑے سردار، میر بلخ شیر مزاری 8 جولائی 1928ء کو کوٹ کرم خان میں اکیسویں سردار اور مزاری قبیلے کے چھٹے سردار میر مراد بخش خان مزاری کے ہاں پیدا ہوئے۔انہیں 1933ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد مزاری قبیلہ کا چیف بنا دیا گیا جنہوں نے صرف 9 ماہ تک چیف کے طور پر حکومت کی تھی۔ سردار میر بلخ شیر مزاری والد میر مراد بخش مزاری سے قبل ان کے بڑے بھائی میر دوست محمد خان مزاری اور ان کے والد میر شیر محمد خان مزاری مزاریوں کے 19ویں سردار اور چوتھے میر رہ چکے تھے۔ یاد رہے کہ مزاری قبیلہ پاکستان کے بلوچستان، سندھ اور پنجاب صوبوں کے درمیان قبائلی ایریا پر واقع ہے۔ 1945ء میں ایچی سن کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد، سردار میر بلخ شیر خان مزاری روجھان مزاری میں رہنے لگے، جہاں سے 1951ء میں انہوں نے فعال سیاست میں شمولیت اختیار کی اور کئی مواقع پر رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اپنے قبیلے کے سردار کے طور پر، سردار میر بلخ شیر خان مزاری کو ’’میر‘‘ کا خطاب حاصل ہے لیکن وہ ’’تمندار‘‘ یا سردار کے انداز سے بھی چلتے اور رعایا تمن کے امور نمٹاتے تھے۔ سردار میربلخ شیر خان مزاری 22 ویں سردار اور مزاریوں کے ساتویں میر تھے۔ سردار میربلخ شیر خان مزاری کے ساتھ ساتھ ان کے بھائی سردار شیرباز خان مزاری سربراہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی پاکستان کی سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے یہاں تک کہ ان کے پوتے سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار میر دوست محمد مزاری راجن پور سے سابق رکن قومی اسمبلی اور موجودہ ممبر صوبائی اسمبلی ہیں جنہوں نے وزارت پانی و بجلی کے پارلیمانی سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بیٹے بے باک سیاست دان سردار ریاض محمود خان مزاری اس وقت ممبر قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری برائے واپڈا ہیں سردار میر بلخ شیر خان مزاری بطور نگران وزیر اعظم 19 اپریل 1993ء کو صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی صدارتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اقتدار کی کشمکش کو حل کرنے کے لیے پاکستان کے آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو بیڈ گورننس کے الزامات کے تحت برطرف کر دیا اور اس کے بعد غلام اسحاق خان نے سردار میر بلخ شیر خان مزاری کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نگران وزیر اعظم مقرر کیا۔ نگران وزیر اعظم کے طور پر اپنے مختصر کیریئر میں، سردار میر بلخ شیر خان مزاری کی آزاد خارجہ پالیسی ان کی مضبوط قوت رہی۔ ان کی طرف سے ایک اہم اقدام اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے سربراہی اجلاس میں پاکستان کے نمائندہ سربراہ کی حیثیت سے شرکت کرنا تھا۔ سربراہی اجلاس میں انہوں نے او آئی سی پر زور دیا کہ وہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کے لیے پرعزم اقدامات کرے۔ کشمیری عوام کی جدوجہد سے متعلق انہوں نے کہا کہ انہیں ان کے حق خودارادیت سے محروم رکھا گیا ہے اور کشمیری سرزمین پر بھارت کے مسلسل قبضے کی مذمت کی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ نہ ختم ہونے والا جبر کشمیری عوام کی بھارت کے ناجائز قبضے سے آزادی کی خواہش کو توڑنے میں ناکام رہا ہے۔ فلسطین کے سوال پر وزیراعظم سردار میر بلخ شیر مزاری نے کہا کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں 242 اور 338 پر مکمل عملدرآمد کرنا چاہیے اور تمام فلسطینی عوام کو اپنے وطن واپس جانے کی اجازت دی جائے۔ بوسنیا ہرزیگوینا میں نسل کشی پر انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سربیا پر اضافی پابندیاں عائد کرنے کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو اسپانسر کیا ہے۔ انہوں نے مخلصانہ طور پر امید ظاہر کی کہ کانفرنس بوسنیا ہرزیگوینا کی ضروریات کو فراخدلی سے جواب دے گی۔ نگران وزیر اعظم سردار میر بلخ شیر خان مزاری نے او آئی سی سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ آذربائیجان پر آرمینیا کے حملے کی شدید مذمت کرے اور آذربائیجان اور نگورنو کاراباخ کے علاقے سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کرے۔ قبرص کے معاملے پر وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے ترکی اور یونانی برادریوں کی برابری پر مبنی دو زونل اور دو فرقہ وارانہ وفاقی ڈھانچے کی حمایت کی۔ انہوں نے عالم اسلام سے بھی مطالبہ کیا کہ سیاسی تبدیلی کے اس دور میں افغانستان کے عوام کا ساتھ دیں۔ علاقے کی ترقی اور عوام کی بھلائی ان کی زندگی کا اولین مشن رہا بہت سارے بیواؤں اور یتیموں کی باقاعدگی سے مدد کرتے تھے غریب بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرتے تھے اور کافی غریب لوگ ان کی مالی معاونت سے پڑھ کر اعلیٰ عہدوں پر پہنچے ہیں فلاحی کاموں میں فلاحی اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے تھے
پاکستانی سیاست میں وہ کلین پرسنالٹی کی حیثیت سے جانے جاتے تھے طمع و لالچ سے ان کی شخصیت کوسوں دور تھی
وہ طبعاً سخی مزاج نیک دل اور ھمدرد انسان تھے مصنف کتاب (ڈیرہ غازی خان کے سردار) نے اپنی تصنیف میں بجا طور پر انہیں لاکھ بخش سردار لکھا ہے
اپنوں پر مہربان اور مخالفین کو معاف کرنے والے انسان تھے
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے نیکیوں کو قبول فرمائے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین