پیر مشتاق رضویکالمز

این اے 193جام پور کے ضمنی الیکشن ،سیاسی جماعتوں کے لئے چیلنج !!…..پیر مشتاق رضوی

اس سیٹ پر ضمنی الیکشن کا پولنگ 26 فروری کو ہورہا ہے ۔ جس کیلئے 237 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ھیں ۔ اس حلقہ میں ووٹرز کی کل تعداد 3,76907 ھے جس میں 205445 مردانہ جبکہ 171463 زنانہ ووٹرز شامل ھیں

این اے 193 جام پور کے ضمنی انتخابات آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں اور 26 نومبر کی شام کو امیدواروں کی ہار جیت کا فیصلہ سامنے آ جائے گا یہ قومی نشست بزرگ پارلیمنٹرین سردار جعفر خان لغاری کی وفات پر خالی ہوئی تھی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 193 جام پور (راجن پور ون) پر ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کے سلسلے میں ابتداء میں دودرجن کے قریب امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کروائے تھے۔ اس سیٹ پر ضمنی الیکشن کا پولنگ 26 فروری کو ہورہا ہے ۔ جس کیلئے 237 پولنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ھیں ۔ اس حلقہ میں ووٹرز کی کل تعداد 3,76907 ھے جس میں 205445 مردانہ جبکہ 171463 زنانہ ووٹرز شامل ھیں ۔ کاغذات نامزدگی داخل کرانے والے امیدواروں میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور مسلم لیگ ن کے سردار عمار اویس خان لغاری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار اختر خان گورچانی
سرفہرست تھے قومی اسمبلی کے اس حلقہ میں مظفر گڑھ سے سردار چنوں خان لغاری نے بھی اپنے کاغذات جمع کروائے تھے بعد ازاں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے تھے اور سابق صوبائی وزیر خزانہ سردار محسن لغاری کو اپنی جگہ پر تحریک انصاف کا امیدوار نامزد کر دیا گیا تھا
ضمنی الیکشن کے سلسلے میں میں امیدواران کی انتخابی مہم عروج پر ہے لیکن اصل مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سردار اختر خان گورچانی، مسلم لیگ ن کے سردار عمار خان لغاری اور تحریک انصاف کے امیدوار سردار محسن لغاری کے درمیان ہوگا عمران خان کے دستبردار ہونے سے تحریک انصاف کو مقامی سطح پر قدرے نقصان ہوا اور پی ٹی آئی کے کارکنان میں مایوسی بھی پیدا ہوئی جس کا فائدہ مسلم لیگ ن کے سردار عمار خان لغاری کو ہوا اور ان کی سیاسی پوزیشن مضبوط ہوتی نظر آئی
این اے 193جام پور کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار عمار لغاری الیکشن میں بڑا اپ سیٹ کر سکتے ہیں سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پرویزالٰہی کی صوبائی حکومت کے خاتمے کے بعد تحریک انصاف کے ایم این اے سردار نصراللہ خان دریشک اور ایم این اے محترمہ مینا جعفر لغاری کےڈی نوٹیفائیڈ ہونے سے دریشک لغاری اتحاد کے سیاسی اورسرکاری اثر و رسوخ میں خاصی کمی آئی جبکہ کہ مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار عمار لغاری کو وفاقی حکومت اور پی ڈی ایم اے کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے علاوہ ازیں سردار جعفر خان لغاری کی وفات کے بعد محترمہ مینا جعفر لغاری نے سردار یوسف کو ان کا جانشین قرار دیا تھا جس پر سابق صوبائی وزیر سردار محسن لغاری نے شدید اختلاف اظہار کیا تھا اور وہ خود کو سردار جعفر لغاری مرحوم کا سیاسی جانشین قرار دیا اس سیاسی جانشینی کے اختلاف کی وجہ سے سیاسی ماحول میں تبدیلی آ چکی ہے اور لغاری قبائل سردار اویس لغاری کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں کیونکہ یہ نشست سابق صدر فاروق احمد لغاری مرحوم کا آبائی حلقہ انتخاب تھا ان کے بعد یہ نشست ان کے کزن سردار جعفر لغاری مرحوم کے حوالے کر دی گئی تھی اس لئے سابق صدر فاروق احمد خان لغاری مرحوم کے پوتے سردار عمار خان لغاری اس نشست کو اپنا مورثی حق قرار دیتے ہیں چونکہ سابق صدر فاروق لغاری مرحوم نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت کو برطرف کیا تھا اس سیاسی رنج کی بناء پر پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے سابق صدر فاروق لغاری مرحوم کے پوتے کو بھی اپنا سیاسی مخالف گردانتے ہیں اسی لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سردار عمار لغاری کے خلاف جیالا امیدوار لانے کا فیصلہ کیا علاوہ ازیں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے اس ضمنی الیکشن میں حصہ نہ لینے کے فیصلے سے بھی انتخابی صورتحال کافی متاثر ہوئی ہے اب عمران خان اس حلقے میں سردار محسن لغاری انتخابی مہم کے دوران چیرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ جعفر لغاری میرا پرانا دوست تھا وہ ہر وقت میرے ساتھ کھڑے رہے ۔اورمجھے چھوڑنے کے لیے جعفرلغاری پر دباو ڈالا گیا ۔ لیکن وہ آخری وقت تک میرے ساتھ کھڑے رہے عمران خان نے کہاکہ سردار محسن لغاری کو ووٹ ڈالیں وہ میری نمائندگی کررہے ہیں یہ الیکشن جیتنا بہت ضروری ہے ۔جبکہ نگران حکومت کی پوری کوشش ہے کہ دباو ڈال کر دھاندلی کروا کرمحسن لغاری کو ہروایا جاے انہوں نے کیا کہ عوام بھرپور طریقے سے اس الیکشن میں شرکت جبکہ مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر محترمہ مریم نواز نے بھی جام پور میں مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار عمار خان لغاری کے انتخابی جلسے سے خطاب کریں گی محترمہ مریم نواز خود بھی سردار عمار لغاری کی انتخابی مہم کی نگرانی کر رہی ہیں جبکہ جام پور کے عوام تحریک عمران خان کی قیادت سے بھی شاکی ہیں کہ سردار محسن لغاری خان کے الیکشن لڑنے سے یہاں کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ اس سے قبل عمران خان کی وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے جام پور کو ضلع بنانے، یونیورسٹی قائم کرنے اور انڈس ہائی وے کی تعمیر کے وعدے کیے جو آج تک پورے نہ ہوئے جبکہ سردار محسن لغاری نے صوبائی وزیر خزانہ رہتے ہوئے علاقے کی تعمیر و ترقی میں کوئی خاص کردار ادا نہ کیا اور خصوصا جام پور کو ضلع بنانے کا وعدہ بھی پورا نہ کر سکے جام پور کے عوام ان جھوٹے نعروں پر بھی بہت نالاں ہیں ضلع راجن پور کے سابق اراکین اسمبلی اپنی ٹکٹ پکی کرنے کے لئے مجبوراً سردار محسن لغاری کی مہم چلانے پر مجبور ہیں اس ضمنی انتخابات کے نتائج پر ضلع راجن پور کے وڈیروں خصوصا تحریک انصاف کے سرداروں کے سیاسی مستقبل کا انحصار جبکہ ڈیرہ غازی خان کے تحریک انصاف کے سابق اراکین اسمبلی اور وزراء اور مقامی قیادت کی NA 193 کے ضمنی الیکشن میں کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی تاہم راجن پور کے بزرگ سیاستدان سردار نصراللہ خان دریشک اپنے صاحبزادوں کے ہمراہ محترمہ مینا جعفر لغاری کے ساتھ مل کر کر تحریک انصاف کے امیدوار سردار محسن لغاری کی بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں مسلم لیگ ن کے لیے یہ نشست ایک چیلنج بن گئی ہے سردار عمار لغاری کے والد سردار اویس خان لغاری مسلم لیگ ن پنجاب کے سیکرٹری جنرل ہیں اور وہ جام پور کے عوام یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جن وعدوں کو تحریک انصاف پورا نہ کر سکی وہ وعدے ھم پورا کریں گے اور جام پور کو ضلع بنائیں گے اور سردار عمار خان لغاری کے ایم این اے منتخب ہونے کی صورت میں جام پور
تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہو گا جبکہ تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں جام پور کے عوام سے جھوٹے وعدے کئے اور بفرض محال سردار محسن لغاری کے منتخب ہونے کا جام پور کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پارلیمنٹ سے باہر رہ کر محاذ آرائی کی سیاست میں مصروف عمل ہیں جس سے ملک وقوم کو ناقابل تلافی نقصان ہورہا یے لیکن اس نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے ہیں تحریک انصاف کے دور میں میں تحصیل جام پور میں سیاسی بنیادوں پر اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی پرچے اور پولیس مقدمات قائم کیے گئے تھے یہی روش دوبارہ دھرائی جا رہی ہے حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران مسلم لیگ ن پر الزام ہے کہ وہ سرکاری مشینری کے ساتھ ملی بھگت کر کے اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے خلاف پولیس پرچے کاٹے جا رہے ہیں جن میں خصوصی طور پر سابق بار تحصیل جام پور اور رؤف لنڈ ایڈوکیٹ کے خلاف قائم کردہ مقدمہ قابل ذکر ہے جس کے منفی اثرات مسلم لیگ نون کے امیدوار سردار عمار لغاری کی انتخابی مہم پر اثر انداز ہوئے ہیں جس کا خمیازہ انہیں اس انتخابات میں بھگتنا پڑ سکتا ہے بظاہر مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار عمار لغاری کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے اور مسلم لیگی حلقے بھی سردار عمار لغاری کی جیت کے لیے خاصے پر امید نظر آتے ہیں علاؤہ ازیں مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار عمار خان لغاری کو مذہبی سیاسی جماعتوں جمیعت علمائے پاکستان نورانی گروپ اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ ، جمعیت اہل حدیث اور جماعت اہلسنت کی بھی بھر پور حمایت حاصل ہو چکی ہے سابق لیگی سینٹر اورجمعیت اہلحدیث کے مرکزی رہنما مولانا عبدالکریم سے سیاسی طور پر صلح ہو چکی ہے جس سے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو بھرپور سیاسی سپورٹ حاصل ہوگی جبکہ اس حلقے میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک بڑا ووٹ بنک ہے پیپلزپارٹی کے امیدوار سردار اختر حسن گورچانی کو ملنے والے ووٹ امیدواوارں کی ہار جیت میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں این اے 193 کے اس ضمنی انتخابات پی ڈی ایم اے کے سیاسی اتحادی اور شریک اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آمنے سامنے ہیں اس طرح ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی ہے لیکن 26 فروری کی تاریخ ہی اس ضمنی الیکشن کا فیصلہ کریے گی

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button