کیا عام پاکستانی بھی توہین-عدلیہ کی کمپین لانچ کر سکتا ہے۔. .. حافظ شفیق الرحمن
غصہ انہیں اپنی جماعت کے ایم این ایز اور عہدیداروں پر تھا لیکن لائم لائن میں رہنے اور ہائرڈ ٹی وی چینلز کی سکرینوں کے خبرناموں کی ٹکروں میں جھلملانے کے شوق میں انہوں نے ڈریکولائی انداز میں اپنے دانت عدالت عظمی کی گردن پر نکوس دیے
سرگودھا میں پنجاب بھر کے برائے نام لیگی کارکنوں کی ناکام ترین جلسی بہ عنوان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ن لیگ کی چٹ زدہ چیف آر گنائزر اوسان اور حواس کھو بیٹھیں۔ غصہ انہیں اپنی جماعت کے ایم این ایز اور عہدیداروں پر تھا لیکن لائم لائن میں رہنے اور ہائرڈ ٹی وی چینلز کی سکرینوں کے خبرناموں کی ٹکروں میں جھلملانے کے شوق میں انہوں نے ڈریکولائی انداز میں اپنے دانت عدالت عظمی کی گردن پر نکوش دیے۔ وہ ہتھی سے ایسے اکھڑیں اور پٹری سے یوں اتریں کہ بس اللہ دے اور بندہ لے۔ پنجابی کہاوت میں ترمیم کرنے کی جسارت کروں گا کہ ” ڈگی کھوتی تو ، تے غصہ کمہار تے ۔۔۔
خیر یہ تو جملہ ء معترضہ تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ بنت_ نواز مریم صفدر اعون بھی اپنے مفرور عدالتی مجرم باپو کی طرح آزاد عدلیہ پر حملہ آور ہوئیںب اور عدالت عظمی کے جج صاحبان پر بے بنیاد ، لغو اور بیہودہ الزامات کی چاند ماری شروع کردی ۔ محض ایک فیک اور خانہ ساز آڈیو کی بنیاد پر ۔۔۔
قانون پسند اور آئین دوست عام آدمی ان کی خرافاتی اور آؤٹ پٹانگ تقریر نما حلق خراش بڑھکیں سنتا ہے تو عالم اشتعال میں پوچھتا بے : ” یہ کون ہوتی ہے عدالت عظمی کے جج صاحبان کو کریہہ اور حلق خراش تقریر کرتے ہوئے سادہ لوح شہریوں کو عدلیہ کے جج صاحبان کے خلاف اکسا اور بھڑکا رہی ہے”.
کیلیبری رانی کی جعل سازیاں اورافترا پردازیاں قطری منی ٹریل میں قوم پر طشت از بام ہو چکی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسز صفدر اعوان کس کی ہلا شیری اور انگیخت پر آزاد عدلیہ کے جج صاحبان پر غرا اور چنگھاڑ رہیں بلکہ خخیا رہی ہیں۔
عوام جاننا چاہتے ہیں کہ کس سیارے کی خلائی مخلوق کے دستانہ ہوش ہاتھ اس کی کمر تھپتھپا اور پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ سنجیدہ حلقوں کا استفسار ہے کہ ایک سزا یافتہ مجرمہ کو یہ کھلی چھٹی کس پس پردہ مقتدر قوتوں نے دے رکھی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ مریم صفدر اعوان کے پاپا کے دوسرے دور میں 1997 ء میں بھی سپریم کورٹ پر ان کے اشارے اور شہ پاکر ن لیگ کے مسلح جتھوں نے دھاوے بولے ، توڑ پھوڑ کی ، کمرہ ہائے عدالت سے جج صاحبان کی نیم پلیٹس کو ڈنڈے مار مار کر توڑا گیا ۔۔۔ نواز جماعت کے کارکن قاتلانہ اداروں سے جج صاحبان کے کورٹ رومز میں گالیاں دیتے ہوئے داخل ہوئے اور اس دور کے انتہائی محترم چیف جسٹس عزت مآب جسٹس سجاد شاہ کو ہراساں کیا گیا۔
یہ امر لائق توجہ ہے کہ اب نواز کی بیٹی اور صفدر اعوان کی زوجہ محترمہ جو خیر سے سزا یافتہ مجرمہ ہے اور ضمانت پر ہے، اس ہرزہ سرائی پر اسے کس نے مامور کیا؟ اسے یہ جرأت کیسے ہوئی کہ وہ ریاست کے مقتدر ترین ادارے عدلیہ کے خلاف غیر محتاط زبان استعمال کریں ۔۔۔ ایس میں جب کہ 22 کروڑ عوام عدلیہ کے جج صاحبان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
عدالتی سزا یافتہ مجرمہ یہ تأثر کیوں دے رہی ہے کہ اسے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل ہے۔
کیا ڈی جی آئی ایس پی آر اس منفی تأثر کو زائل کرنے کے لیے کوئی واضح جواب کب دیں گے۔ وہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر نہ بنیں ۔ پاک افواج سے محبت کرنے والے عوام کے نزدیک ان کی جانب سے جواب اور وضاحت از بس ضروری اور فرمان امروز ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ مریم نواز فوج ، عوام اور اداروں کے درمیان تصادم اور پولرائزیشن کی راہیں ہموار کر رہی ہیں اور عوام کو اداروں کے خلاف اکسا رہی ہیں۔
کیا مریم ن لیگ کے کارکنوں کو عدلیہ کے خلاف بغاوت پر اکسا کر 1997 ء کی مذموم اور لائق نفرین تاریخ دہرانا چاہتی ہیں۔