ماہرین کے خیال میں اس ایرانی رویے سے نہ صرف پاکستان کی معاشی مشکلات بڑھ سکتی ہیں بلکہ تہران اسلام آباد تعلقات میں بہت تلخی بھی آسکتی ہے۔ واضح رہے کہ کل بروز بدھ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوران سکریٹری پٹرولیم نے کمیٹی کو مطلع کیا تھا کہ اگر پاکستان آئی پی معاہدے کے حوالے سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتا، تو ایران ممکنہ طور پر پاکستان پر اٹھارہ بلین ڈالر کا جرمانہ لگا سکتا ہے اور اس کے لیے متعلقہ بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کر سکتا ہے۔
حالیہ برسوں میں ایک ترکش اور ایک کینیڈین کمپنی نے بھی پاکستان کے خلاف بین الاقوامی ادارے سے رابطہ کیا تھا، جس کی وجہ سے اسلام آباد پر تقریباً گیارہ بلین ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ تاہم پاکستان نے اس جرمانے کو دینے کی بجائے، بات چیت کے ذریعے مسائل حل کیے۔
بین الاقوامی امور کے ماہرین اور معیشت دانوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ بھی یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف معیشت دان ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ ایران نے 90 کی دہائی میں پاکستان کو مقامی کرنسی میں تجارت کی پیشکش کی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہم بھی اس گیس پائپ لائنکے حوالے سے ایران سے بات چیت کرسکتے ہیں اور ایران کو مقامی کرنسی میں ادائیگی کرسکتے ہیں یا پھربارٹر ٹرید کے ذریعے بھی اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
شاہدہ وزارت کے مطابق نوے کی دہائی میں تہران نے اسلام آباد سے کہا تھا کہ اسے سیمنٹ اور شوگر کے کارخانے لگانے میں مدد دی جائے، جو ہیوی میکینیکل کمپلیکس کی مدد سے پاکستان کر سکتا ہے۔ ”لیکن پاکستانی حکمران امریکی اشاروں پر چلتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے یہ نادر موقع گنوا دیا۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان معاشی طور پر بہت سارے مسائل کا شکار ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرضہ اورامداد نہیں دے رہے جبکہ دوست ممالک سے بھی کوئی خاص مالی تعاون نہیں ملا۔ چین نے 70 کروڑ ڈالر پاکستان کو دیے ہیں لیکن پاکستان اب بھی مشرق وسطیٰ اور دوسرے ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ملک میں مہنگائی نے ستر سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے جب کہ ڈالر کی پرواز بھی اپنے عروج پر ہے۔ ڈالر کی کمی کی وجہ سے کئی اشیا کی درآمداد میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی صورت میں اگر ایران نے واقعی پاکستان پر جرمانہ عائد کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کیا، تو پاکستان کی مشکلات میں کئی گناہ اضافہ ہو جائے گا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ناصر شیرازی کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلے ہی بدترین معاشی بدحالی سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” ہو سکتا ہے کہ ایران اس پر عمل نہ کرے اور یہ صرف سودے بازی کے لیے بات کی گئی ہو تاکہ پاکستان امریکی اثر ورسوخ سے نکل کر بھارت کی طرح اس معاہدے کے حوالے سے استثنٰ ی مانگے لیکن اگر پاکستان ایسا نہیں کرتا اور ایران اٹھارہ بلین ڈالرز کا یہ جرمانہ لگوا دیتا ہے، تو پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔‘‘