رانا محمد شفیق خاں پسروریکالمز

جنت جس کے پاؤں کے نیچے رکھ دی گئی….رانا محمد شفیق خاں پسروری

مگر اسلام کے دشمنوں نے پھر اس کو شمع محفل اور تماشہ کی چیز بنانے کی کوشش کی اور اس طرح نہ صرف عورت کو دوبارہ ذلت کی راہ پر ڈالا بلکہ اسلام کے خلاف ناپاک سازش کی۔ وہ اس طرح کہ جب یہ عورت جو کہ افراد کی معمار ہے‘ گھر سے بے پروا ہو جائے گی‘

دین اسلام، دین فطرت اور عظمت دینے والا دین ہے۔ اس کا ہر حکم احکم الحاکمین کی حکمت سے لبریز ہے۔ اس کے اپنانے سے خالق کی رضا اور عزت واحترام حاصل ہوتا ہے اور چھوڑنے سے اس کی ناراضی‘ غضب اور ذلت نصیب بن جاتی ہے۔ اسلام نے عورت کو کھیل تماشہ بننے سے بچا کر عظمت ورفعت کے اعلیٰ مقام پر فائز کر دیا ہے۔ قبل اسلام عورت پاؤں کی جوتی‘ لہو ولعب کی چیز‘ ہوس پرستی کا لازمہ‘ تماش بینی کا ذریعہ اور غیر ضروری فرد سمجھی جاتی تھی۔ اسلام نے اس کو دل میں جگہ دینے کا حکم دیا یعنی احترام کی چادر اوڑھا دی‘ تکریم کا لبادہ پہنا دیا‘ جنت کو اس کے قدموں کے نیچے رکھ دیا اور آدمیت وانسانیت کی تعمیر کی ذمہ داری یعنی اولاد کی تربیت‘ خانہ وخاندان کی حفاظت کا ذمہ دار مقرر کر کے ادب وشرف کے اعلیٰ منصب پر بٹھا دیا۔
مگر اسلام کے دشمنوں نے پھر اس کو شمع محفل اور تماشہ کی چیز بنانے کی کوشش کی اور اس طرح نہ صرف عورت کو دوبارہ ذلت کی راہ پر ڈالا بلکہ اسلام کے خلاف ناپاک سازش کی۔ وہ اس طرح کہ جب یہ عورت جو کہ افراد کی معمار ہے‘ گھر سے بے پروا ہو جائے گی‘ تربیت اولاد سے بے نیاز ہو جائے گی تو لازماً کوئی موسیٰ بن نصیر‘ طارق بن زیاد‘ محمد بن قاسم اور بخاری ومسلم جیسا مسلمانوں میں پیدا نہ ہو گا اور اس طرح اسلام مٹتا چلا جائے گا۔
اسلام دشمنوں نے اسلام کے خاتمے کے لیے تعمیر انسانیت کی عمارت کی بنیادوں پر حملہ کیا۔ انہوں نے اسلامی تہذیب کے حسن کو بدتہذیبی کے ماسک میں چھپا دیا ہے۔ ماؤں کو کہ جن کے قدموں کے نیچے جنت تھی‘ دوسروں کی عیاشی کے لیے شمع محفل بنا کر‘ غیرت وحمیت کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ بہنوں کے سروں سے دوپٹے کھینچ لیے ہیں‘ انہیں سرعام وسر بازار ننگے سر کر دیا ہے اور ہم بے غیرت بنے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
ہمیں اپنی ماں کی عظمت‘ بہن کی عزت‘ بیٹی کی عفت اور اپنی غیرت کے خاتمے کی کچھ پروا نہیں یا للعجب! (انا للہ وانا الیہ راجعون) یہ قیامت کی نشانی! قیامت سے پہلے قیامت ہے۔ مجھے ایک نو مسلم‘ فرانس کے ماہر طبیعات ڈاکٹر ہنیفز کے اسلام میں دخول کے اسباب سے ایک بات بہت پسند آئی ہے‘ لکھتے ہیں:
”میں شروع سے معاشرہ کی رنگا رنگ اور ننگی سرگرمیوں سے نالاں تھا۔ میں جب دیکھتا کہ میری ماں اور بہنیں دوسروں کی ہوس بھری نگاہوں کی تسکین کا سامان ہیں تو اندر ہی اندر کڑھتا رہتا‘ اس معاشرے سے کہ جہاں لہو ولعب کا ذریعہ محض عورت کو بنایا گیا ہے۔ مجھے نفرت تھی سوسائٹی کی اوچھی حرکات سے‘ یہ نفرت بڑھتی چلی گئی۔ میں سوچتا تھا کہ جو عورت دوسروں کی تسکین کا سامان ہے‘ جو سر عام دعوت نظارہ دے رہی ہے اس میں اور سرعام اختلاط کرنے والے حیوانوں میں کیا فرق ہے؟ میری ماں اور بہنیں جب اس طرح سڑکوں پر نکلتی ہیں تو خود دوسروں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں پھر بھلا میں کس کس کی نظر کو روکوں؟ کس کے ہوس زدہ دل کو پھوڑوں؟ کس کے جنسی سوچ والے دماغ کو توڑوں ……؟!
میں مایوسیت میں گھرا ہوا تھا کہ اسلامی تعلیمات سے آگاہی ہوئی اور میرا دل باغ باغ ہو گیا کہ اس نے عورت کو گھر کی مالکہ‘ افراد کی معمار اور تہذیب کی نگران بنایا ہے۔ اس نے پردے کی سختی سے تعلیم دے کر عورت کو اسرار میں چھپا کر اس کو عظمت وعزت دی ہے۔ دنیاوی امور میں سرگرم اور نگراں مرد بھی جب گھر جاتا ہے تو عورت اس کے موجود ہونے کے باوجود گھر کی مالکہ ہوتی ہے۔“
بچے کی ابتدائی تعلیم اس کی زندگی بناتی ہے‘ اسلام نے عورت کو گھر میں بٹھا کر افراد کی تعمیر وتربیت کا ذمہ دار بنا دیا ہے اور کون نہیں جانتا کہ افراد کی تعمیر سے ہی اقوام ممالک کی تعمیر ہوتی ہے۔
عورت سرعام رسوا ہونے کے لیے نہیں بلکہ گھر میں بیٹھ کر ملک وملت کی تعمیر کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ وہ لہو ولعب وہوس پرستی کا سامان نہیں بلکہ جسم کے چھپانے اور ڈھانپنے کا لباس ہے۔ اس کی جگہ بازار نہیں (کہ لوگ آوازیں کسیں اور چھیڑ چھاڑ کے ذریعے بدمستی کریں) بلکہ گھر ہے۔ (کہ کوئی آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت بھی نہ کرے۔) یہ پاؤں کی جوتی نہیں‘ دل کی مالکہ ہے۔ اس کا ادب واحترام مرد کی نسبت تین چوتھائی زیادہ ہے۔ جنت اس کی تہذیب کے سبب اس کے قدموں کے نیچے ہے۔

اللہ تعالیٰ اصدق الصادقین واحسن القائلین اور تمام بھیدوں کے جاننے والے ہیں وہ جو فرماتے ہیں ہماری فلاح وبہبود کے لیے‘ ہماری ناقص سوچ وہ بات نہیں سمجھ سکتی جو وہ ہمارے فائدے کے لیے کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی پاک اور شک وشبہ سے مبرا کتاب حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں:

(یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قَلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْ یُّدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ذٰلِکَ اَدْنٰی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا) (الاحزاب: 59)

(وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِیْنَ الزَّک ٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَ ہٗ) (الاحزاب: 33)

یعنی مسلمان عورتیں چادریں اوڑھ کر اپنے بدن (چہرے اور ہاتھوں سمیت) ان کے اندر چھپا لیں‘ جاہلیت کے زمانے کی طرح بناؤ سنگھار کر کے بازاروں میں بے پردہ نہ گھومیں اور اپنے گھروں میں قرار پکڑ کر نماز قائم کریں‘ زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ ورسولؐ کی سچی اطاعت کریں‘ ان شاء اللہ دنیا وآخرت میں بھلا ہو گا۔

٭ تفسیر ابن کثیر (ج3‘ ص 18) تفسیر جامع البیان للطبری (ج22‘ ص 33) میں ہے:

ترجمہ: سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ اپنے گھروں سے کسی ضرورت کے لیے نکلیں تو چادروں سے اپنے سروں کے اوپر سے چہروں کو ڈھانپ لیں اور (صرف) ایک آنکھ کو ظاہر کریں۔“

٭ اسی صفحہ پر امام طبریؒ لکھتے ہیں کہ

ترجمہ: ابن سیرینؒ کہتے ہیں کہ جب میں نے حضرت عبیدہ (بن حارث حضرمی) سے فرمان الٰہی (قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے (مجھے سمجھانے کے لیے) اپنے کپڑے سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا اور ایک آنکھ سے کپڑا ہٹا دیا۔“

٭ علامہ بیضاویؒ اپنی تفسیر (ج2‘ ص 252) میں لکھتے ہیں:

”جب عورتیں کسی ضرورت کے لیے باہر نکلیں تو چہرے اور بدن کو کپڑے سے ڈھانپ لیں۔“

٭ امام ابوبکر الجصاصؒ ”احکام القرآن“ (ج 3‘ ص 372) میں لکھتے ہیں:

ترجمہ: اس آیت میں دلیل ہے کہ نوجوان عورت اپنے چہرے کو اجنبی مردوں سے چھپانے کی پابند ہے۔

٭ ایسے ہی تفسیر ابوسعود (ج4‘ ص 423) اضواء البیان (ج6‘ ص 597) میں ہے کہ ”عورت کے چہرے کا پردہ قرآن پر عمل کرنا ہے۔“اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَاسْءَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ) (الاحزاب: 53)

”کہ (اے مومنوا!) جب تم ازواج النبیؐ سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے۔“

یہاں یاد رہے کہ ازواج النبیؐ امہات المسلمین ہیں۔ جب ان کے لیے پردہ ہے تو عام عورتوں کے لیے تو بالاولیٰ ہو گا۔

یہ بھی یاد رہے کہ پہلی آیتوں میں زینت کے چھپانے کا صریحاً حکم ہے اور کون نہیں جانتا کہ عورت کا سب سے زینت والا حصہ اس کا چہرہ ہے۔ بالفاظ دیگر عورت کو اپنی زینت کے اظہار سے احتراز کرنا چاہیے نہ۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ رسول پاکؐ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو کپڑے پہنے ہوئے ہوں مگر ننگی ہوں‘ مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں یعنی ایسا لباس ہو جس سے جسم کے اسرار ورموز‘ اس کی موٹائی‘ چوڑائی ظاہر ہو یا ایسا تنگ ہو کہ اپنی طرف مائل کروائے وہ باعث لعنت ہے۔ ہمارے یہاں اکثر دینی ذہنیت والے گھرانوں میں برقع تو اوڑھا جاتا ہے مگر اتنا تنگ کہ مذکورہ حدیث اس پر دال ہوتی ہے۔
عورت مکمل قابل عزت واحترام ہے‘ اس کے متعلق غلط سوچنا بھی اس کی بے ادبی ہے‘ ایسا لباس‘ ایسی حرکات وسکنات‘ ایسی اشیاء جن سے عورت کے متعلق غلط سوچ پیدا ہو‘ مذکورہ حدیث کے ضمن میں آئیں گی‘ لہٰذا احتیاط کرنی چاہیے۔

پردہ اسلام میں تاکیدی امر ہے‘ اس کے لیے لازمی ہے کہ عورت اپنے چہرے اور جسم کو چھپائے۔ چنانچہ فتح الباری (ج3‘ ص 406) میں ہے:

ترجمہ: سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ”عورت اپنے چہرے کو چادر سے اس طرح چھپائے کہ چادر سر کے اوپر سے چہرے پر ڈال لے۔“ (ترمذی‘ الادب مسند احمد: ج6‘ ص 296۔ ابوداود مع عون المعبود: ج4‘ ص 109) میں تو پردے کی سخت وعید ہے۔

سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں اور میمونہؓ رسولؐ اللہ کے پاس تھیں کہ سیدنا عبداللہ بن مکتومؓ آئے اور یہ آیت حجاب کے نزول کے بعد کی بات ہے تو آپؐ نے فرمایا: ”ان سے پردہ کرو۔“ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! وہ تو نابینا ہیں‘ نہ ہمیں دیکھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ”تم تو اندھی نہیں‘ کیا تم اسے نہیں دیکھتی؟“
غور کیجیے! مرد کا عورت کو دیکھنے کی نسبت عورت کا مرد کو دیکھنا کتنے فتنے کا سبب ہے۔ نیز یہاں معاملہ ایک عظیم القدر صحابی اور امہات المؤمنین کا ہے۔ مگر آپؐ نے سختی سے حکم دیا کہ پردہ کیا جائے کہ پردہ عورت کی عظمت اور تقدس کی علامت ہے۔

سنن ابی داود کتاب الجہاد میں ہے: قیس بن شماس کہتے ہیں کہ سیدہ ام خلاد ؓ نقاب پہن کر نبی کریمؐ کے پاس اپنے مقتول بیٹے کے متعلق پوچھنے کے لیے آئیں‘ بعض صحابہؓ نے حیرت زدہ ہو کر (ان سے) کہا: ]جئت تسألین عن ابنک وانت متنقبۃ[ کہ ”آپ اپنے بیٹے کے متعلق پوچھنے آئی ہیں اور نقاب پہن کر۔“ (حالانکہ بیٹے کی ایسی خبر سن کر تو ایک ماں کو تن بدن کا ہوش نہیں رہتا اور آپ باپردہ ہو کر آئی ہیں) تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنا بیٹا قربان کیا ہے اپنی حیا نہیں۔
قربان جاؤں کتنا بہترین جواب ہے کہ پردہ عورت کی حیا کا محافظ ہے‘ عورت تبھی عورت ہوتی ہے جب پردہ کرے کہ عورت کا معنی ہی راز ہے۔ جب پردہ الگ ہو جائے وہ تماشہ بن جاتی ہے۔ قدر وقیمت اسی چیز کی ہوتی ہے جو پہنچ سے دور ہو اور جو آسان ہو جائے وہ منزلت کھو دیتی ہے۔

ام المؤمنین سیدہ سودہ ؓ کا بھی ایک واقعہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جو بخاری ومسلم میں ہے کہ آپ کے والد کی لونڈی سے کسی نے بد فعلی کی‘ جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا جسے آنحضرتؐ نے ]اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ[ کے تحت سیدہ سودہ کا بھائی قرار دیا‘ مگر ساتھ ہی سیدہ سودہ ؓ کو اس سے پردہ کا حکم بھی دے دیا۔ چنانچہ ام المؤمنین ؓ نے ساری عمر اس سے پردہ کیا کہ (وہ حقیقی بھائی نہ تھا) اللہ اللہ! کیا بات ہے اطاعت رسولؐ کی۔
احادیث میں مسلمان عورتوں کی ان چادروں کی لمبائی کہ جن سے وہ پردہ کرتی تھیں یہ بتائی گئی ہے کہ وہ زمین پر گھسٹتی ہوئی جاتی تھیں۔

سیدہ عائشہ ؓ کے واقعہ میں بھی یہی ہے کہ میں سوئی ہوئی تھی کہ صفوان بن معطل ؓنے مجھے دیکھ کر انا للہ وانا الیہ راجعون! پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی۔ ]فَخَمَرْتُ وَجْہِیْ بِجِلْبَابِیْ[ تو میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔

٭ روائع البیان (ج2‘ ص 384) میں ہے کہ عورت کے لیے اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ چھپانا اور اس کا نہ کھولنا واجب ہے‘ ہاں البتہ پیغام نکاح اور احرام حج میں کھلا رکھا جا سکتا ہے کیونکہ یہ عبادت کا وقت ہے جس میں فتنہ کا ڈر نہیں‘ دیگر اوقات میں کھلا رکھنا ناجائز ہے اور جو لوگ اس کو جائز کہتے ہیں وہ شریعت اسلام کو نہیں سمجھتے۔
٭مسند احمد‘ بیہقی‘ ابوداود‘ ابن ماجہ اور ابن خزیمہ وغیرہ کتب حدیث میں سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے (بحوالہ منتقیٰ ابن الجارود ص 169) کہ ہم نبی کریمؐ کے ہمراہ احرام میں تھیں‘ جب لوگوں کے قافلے ہمارے قریب سے گزرتے تو ہم اپنے چہروں کے آگے چادریں کر لیتی تھیں اور جب لوگ گزر جاتے تو چہرے کھول لیتی تھیں۔ غور کیجیے کہ رخصت ہونے کے باوجود اتنی احتیاط تھی۔

٭ روائع البیان (ج2‘ ص 104) میں ہے: صحیح یہی ہے کہ عورت کا سارا بدن ہی عورت (پردہ) ہے۔

٭ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ ناخن بھی پردے میں شامل ہیں۔

٭ المغنی لابن قدامہ (ج6‘ ص 9) میں ہے:

ترجمہ: امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ آدمی اپنی مطلقہ کے ساتھ کھانا بھی نہ کھائے کہ وہ اس کے لیے اجنبی بن چکا ہے۔ اس لیے جائز نہیں کہ وہ اس کو دیکھے۔ کھانا کھانے سے اس کے ہاتھوں پر نظر جائے گی جو اس کے لیے حلال نہیں (کہ غلط سوچ سکتا ہے۔)
وہ بہترین معاشرہ جس کی صحت کی قسم کھائی جا سکتی ہے‘ آپؐ کے دور کا معاشرہ ہے جس میں شدید ضرورتوں کا لحاظ رکھا گیا‘ لیکن عورت کو بے پردہ نہ کیا گیا۔ عورت کی نسوانیت اور عزت کے بدترین دشمن وہ جدید دانشور ہیں جو ہمدردی‘ آزادی اور روشن خیالی کے پردے میں اس کی شرافت اور حیاء کو اپنی گندی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دینا چاہتے ہیں۔ مسلم معاشرے کے لیے مار آستین‘ زہریلے سانپ مغرب زدہ وہ لوگ ہیں جو عورت کے دین وایمان کو ڈس لینے کے لیے بے قرار ہیں۔ قابل لعنت ہیں وہ مرد جو عورت کو گھر سے نکال کر بازاروں میں ذلیل ورسوا کروا رہے ہیں‘ اس سے اس کا لباس چھین رہے ہیں‘ پہلے عورت گھر میں تھی پھر برقع میں نکلی‘ پھر چادر میں آئی‘ پھر دوپٹہ اوڑھا‘ آج ننگے سر صرف شلوار قمیص میں ہے‘ آئندہ معلوم نہیں کیا ہو گا؟ مستقبل سے خوف آتا ہے‘ مغربیت کے مبلغ قابل احترام ماں بہن اور بیٹی سے لباس چھین رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف آیت 27 میں فرمایا ہے کہ
”اے بنی آدم! (خبردار) شیطان تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکالا تھا‘ ان کا لباس ان سے چھینا تھا تا کہ وہ ننگے ہو جائیں۔“
آج پھر شیطان کے پیروکار خواتین سے لباس چھین کر انہیں میدان میں بھیج رہے ہیں کہ ان کو کھیل تماشہ بنائیں۔
عورت کو محرم رشتہ داروں مثلاً باپ‘ بھائی‘ بیٹا‘ ماموں‘ چچا وغیرہ سے ”ستر“ کا حکم ہے یعنی صرف چہرہ ہاتھ پاؤں کھولنے کی اجازت ہے مگر غیر محرموں سے ”حجاب“ کا حکم ہے یعنی مکمل پردہ میں رہنے کا۔ ہمارے ہاں معیشت کے نام پر معلوم نہیں عورت کو کس منزل پر پہنچانا مقصود ہے؟ کیا ہم نے عورت کے لیے بے وقعتی‘ اخلاقی پستی اور گراوٹ کی وہی منزل طے کر لی ہے جو مغربی عورتوں کا مقدر بن چکی ہے کہ جس پر پہنچنے کے بعد عورت اپنی نسوانیت کا حقیقی جوہر کھو چکی ہے۔ فطرت سے اس بغاوت کی وجہ سے وہاں خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے اور حالت یہ ہے کہ سڑکیں صاف کرنے‘ ہوٹلوں میں گاہکوں کے لیے بستر بچھانے اور اپنے جسم کی نمائش تک کوئی گھٹیا سے گھٹیا کام ایسا نہیں جو عورت کے سپرد نہ ہو۔ ایک طرف بچے ماں کی آغوش تربیت کو بری طرح ترس رہے ہیں اور گھر اپنی منتظمہ کے وجود کی رونق سے محروم اور ویران پڑے ہیں اور دوسری طرف سڑکیں‘ بازار اور دکانیں عورت کے حسن وجمال سے سجے ہیں۔
حرم یعنی مسلمان کا گھر ہی وہ آخری جائے پناہ ہے جہاں اسلام اپنے تمدن اور اپنی تہذیب کی حفاظت کرتا ہے۔ عورت کو جن مصلحتوں کی بنا پر اسلام نے حجاب شرعی میں رکھا ہے ان میں سے ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ وہ سینہ تو نور ایمان سے منور ہے جس سے ایک مسلمان بچہ دودھ پیتا ہے‘ کم از کم وہ گود تو کفر وضلالت اور فساد اخلاق واعمال سے محفوظ رہے جس میں ایک بچہ پرورش پاتا ہے۔ کم از کم اس گہوارے کے ارد گرد تو خالص اسلامی فضا چھائی رہے جس میں مسلمان کی نسل اپنی زندگی کی ابتدائی منزلوں سے گزرتی ہے۔ کم از کم وہ چار دیواری تو بیرونی اثرات سے محفوظ رہے جس میں مسلمان بچے کے سادہ دل ودماغ پر تعلیم وتربیت اور مشاہدات کے اولین اثرات ثبت ہوتے ہیں۔ پس حرم دراصل اسلامی تہذیب کا سب سے مستحکم قلعہ ہے (جس کی محافظ عورت ہے) اس قلعہ کو اس لیے تعمیر کیا گیا ہے کہ یہ تہذیب اگر کبھی شکست کھا کر پسپا ہو بھی جائے تو یہاں پناہ لے سکے۔ (مگر افسوس کہ اب یہ قلعہ بھی ٹوٹ رہا ہے)
یہ ہر خاندان کے سربراہ کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی خواتین کو بد تہذیبی کے اس دام ہمرنگ زمین میں پھنسنے سے بچائے اور ان کی ایسی تربیت کرے کہ جس سے انہیں اپنے صحیح مقام اور معاشرے کی تعمیر میں اپنے صحیح کردار کا احساس ہو سکے اور وہ خود عورت کی اس مغربی طرز زندگی سے نفرت کرنے لگے جو عورتوں کا سب کچھ داؤ پر لگا دیتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں‘ کیا تم لوگوں کو پسند ہے کہ تمہاری ماؤں‘ بہنوں اور بیٹیوں پر ہوس زدہ نظریں پڑیں؟ ان پر آوازے کسے جائیں؟ ان سے بیہودہ مذاق کیا جائے؟ ان کے اعضاء پر عجیب عجیب تشبیہیں‘ استعارے اور گھٹیا الفاظ چسپاں کیے جائیں؟
تمہارے گھروں میں محبت کا دور چلے؟بات بات پر طلاقیں ہوں؟ اور طلاقوں کی شرح بڑھتی چلی جائے؟ خاندان سے آزاد لڑکیاں‘ جنس مقابل میں ”دوست“ تلاش کریں؟ اور ان کے ساتھ تجرباتی طور پر برس‘ مہینے‘ دن یا گھنٹے علیحدگی میں گزاریں؟ پارکوں میں اوپن ایئر قسم کے جنسی عمل کے مظاہرے ہوں؟خوبصورت لڑکیوں کو سرمایہ دار‘ دولت کی طاقت سے خرید کر شو بزنس‘ نائٹ کلبوں اور شراب خانوں میں استعمال کریں؟ عورت کا استحصال کرنے والے جرائم‘ جاسوسی اور کاروباری تشہیر میں اس سے ظالمانہ فائدہ اٹھائیں؟ حکومت کے بڑے بڑے محکمے اور کاروباری فرمیں اپنے مہمانوں کی تواضع کا سامان بنانے کے لیے ان کو خریدیں؟ قانونی جواز سے ہم جنسی کی شادیاں ہوں؟ ماں‘ بہن اور بیٹی کے احترام کا معروف طور پر خاتمہ ہو جائے؟ جنسی فراوانی کے باوجود جبری بدکاری کے واقعات بڑھ جائیں؟ عورت کا سڑکوں پر چلنا (بعد مغرب) ناممکن ہو جائے؟ عورت پھر زمانہ جاہلیت والی زن بن جائے؟

اگر جواب نہیں میں ہے تو آئیے مغربی تہذیب اور بے پردگی کا خاتمہ کر کے عورت کو شمع محفل بننے سے بچائیں اور اس کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button