نیویارک سے شروع ہونے والی خواتین کی تحریک جو عالمی دن میں بدلی
امریکہ کے شہر نیویارک سے سنہ 1909 میں شروع ہونے والا ’خواتین کا قومی دن‘ آج دنیا بھر میں عالمی دن کے طور پر منایا جا رہا ہے۔
تاریخی حقائق پر مبنی ویب سائٹ ہسٹری ڈاٹ کام کے مطابق 28 فروری کو جب نیویارک میں خواتین کا قومی دن پہلی مرتبہ سرکاری طور پر منایا گیا تو ہزاروں افراد اور سماجی کارکن اپنے ذاتی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس میں شریک ہوئے۔
اس موقع پر معروف مصنفہ شارلٹ پرکنز گلمن نے بروکلین میں مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’یہ حقیقت ہے کہ خواتین کا کام ان کے گھر اور ماں کا کردار ادا کرنے کے گرد گھومتا ہے لیکن گھر کا مطلب پورا ملک ہے، اور یہ تین چار کمروں یا کسی ایک شہر یا ایک ریاست تک محدود نہیں رہ سکتا۔‘
امریکہ کے بعد یورپ میں بھی ’خواتین کے دن‘ کے حق میں آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں اور 19 مارچ 1911 کو پہلا انٹرنیشل ویمنز ڈے منایا گیا۔ اس برس دنیا بھر میں ہونے والی ریلیوں میں 10 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔
تین برس کے بعد 1914 میں جب عالمی جنگ چھڑ گئی تو سماجی اصلاحات کے لیے ہونے والی تمام تر کوششیں رک گئیں لیکن خواتین نے اپنے حقوق کے لیے مارچ جاری رکھا۔
لیکن سب سے بڑا مظاہرہ 23 فروری 1917 کو روس میں حقوق نسواں کی حامی کارکن الیکزینڈرا کولوٹانی کی قیادت میں منعقد ہوا۔
روسی بادشاہ نکلولس دوم کے تخت سے دستبرداری کے بعد بننے والی عبوری حکومت نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا جو دراصل بڑی عالمی طاقتوں میں سے یہ حق دینے والی پہلی حکومت تھی۔
خواتین کے حقوق کی اہمیت کو سراہتے ہوئے روسی کمیونسٹ پارٹی کے بانی ولادیمیر لینن نے 1917 میں ویمن ڈے پر عام تعطیل کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سپین اور چین نے بھی اس دن کے موقع پر تعطیل دینا شروع کر دی۔
آخر کار 1975 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منانا شروع کر دیا۔
1970 کے نصف تک خواتین کا عالمی دن زیادہ تر سوشلسٹ ممالک میں منایا جاتا تھا۔ سنہ 2014 تک یہ دن ایک سو سے زائد ممالک میں منایا جانے لگا اور 25 ممالک سے زیادہ میں اس دن کی مناسبت سے عام تعطیل دی جاتی ہے۔
رواں برس خواتین کے عالمی دن کا تھیم ٹیکنالوجی کی اہمیت اور عام زندگی میں اس کے بڑھتے ہوئے عمل دخل سے جڑا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق 37 فیصد خواتین انٹرنیٹ استعمال نہیں کرتیں جبکہ آج کل کی زندگی کا زیادہ سے زیادہ انحصار ٹیکنالوجی پر رہتا ہے جس میں اپنے پیاروں سے رابطے میں رہنے کے علاوہ، آن لائن شاپنگ، بینک ٹرانزیکشن اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔
دنیا کی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہونے کے باوجود آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے شعبے سے صرف 22 فیصد خواتین وابستہ ہیں۔
ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے کام کرنے والی خواتین کو سراہنے اور مزید خواتین کو اس شعبے سے جوڑنے کے لیے اقوام متحدہ خواتین کا عالمی دن ’ڈیجیٹ آل: صنفی برابری کے لیے انوویشن اور ٹیکنالوجی‘ کے موضوع پر منا رہا ہے۔