پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو پولیس اور رینجرز چوبیس گھنٹے کی لگاتار کوششوں کے باوجود گرفتار نہیں کرسکی اور انہیں بالاخر پیچھے ہٹنا پڑا۔ عمران خان اس وقت بھی لاہور میں اپنے گھر زمان پارک میں موجود ہیں اور ان کے گھر کے باہر پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنان اب بھی ’پہرے‘ پر موجود ہیں۔
گزشتہ روز جب پولیس عدالتی وارنٹ پر عمل درآمد کے لیے زمان پارک پہنچی تو پی ٹی آئی کے کارکن پولیس کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے۔
کارکنوں نے پولیس کے سامنے زبردست مزاحمت کی۔ نہ صرف وہاں پر موجود کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا بلکہ پیٹرول بموں سے پولیس کی کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی، جبکہ ڈنڈوں اور غلیلوں سے پولیس کا راستہ روکے رکھا۔
پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا بے دریغ استعمال کیا اور لاٹھی چارج بھی کیا۔ اس کے باوجود پولیس عمران خان کو گرفتار کرنے میں تاحال ناکام ہے۔ بدھ کی دوپہر تمام پولیس فورس اور رینجرز کو زمان پارک سے ہٹا لیا گیا۔
پاکستان کے سیاسی تھیٹر اور سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے ان کے مخالفین ’برگر بچوں‘ کی اصطلاح استعمال کرتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ملک کے وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خود کئی بار اپنے بیانات میں یہ اصطلاح استعمال کر چکے ہیں۔ کئی مرتبہ انہوں نے کہا کہ ’جس دن ریاست عمران خان کو گرفتار کرنا چاہے گی تو ان کے برگر بچے ایک منٹ میں تتر بتر ہو جائیں گے۔‘
لیکن گزشتہ دو دن سے لاہور میں جو مناظر دیکھنے کو ملے وہ ان دعوؤں کے برعکس ثابت ہوئے۔ تو کیا تحریک انصاف کے کارکنوں نے برگر ہونے کے اس تاثر کو زائل کر دیا ہے؟ کیا پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کی طرح پی ٹی آئی کارکنوں کی بھی درجہ بندی سکہ بند سیاسی ورکرز کے طور پر ہو گئی ہے؟
ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کی سیاسی تاریخ اور صحافت پر دسترس رکھنے والے سینیئر صحافی مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں جو کچھ لاہور میں ہوا وہ اس سے پہلے پاکستان اور ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں دیکھا گیا۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ہاں کی تاریخ اور روایت رہی ہے کہ سیاسی لیڈر خود گرفتاری دیتے ہیں یا گرفتاری سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ عدالتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسی ایک بھی مثال نہیں جس میں کسی سیاسی رہنما نے ایک عدالتی حکم کے مقابلے میں اپنے کارکنوں کا سہارا لیا ہو۔‘
مجیب الرحمن شامی کہتے ہیں کہ ’جہاں تک بات ہے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کی تو انہوں نے ہمیشہ احتجاج کے دوران ڈنڈے کھائے اور تحریک کے دوران گرفتار ہوئے ہیں۔ کبھی ریاست پر حملہ آور نہیں ہوئے۔ اس لیے یہ موازنہ درست نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے کارکنوں میں دم ہے تو وہ تو ہے۔ لیکن ان واقعات کے بعد ان کا شمار سیاست کے علاوہ کسی اور طرف ہو گا۔‘
تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا پر بہرحال یہ بات بار بار لکھ رہ ہیں کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس کا سامنا کر کے ایسے تمام تاثرات غلط ثابت کر دیے ہیں کہ وہ کمزور ہیں۔
پاکستان میں جمہوری عمل پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف کے پرجوش کارکنوں نے ریاست کی مشینری کو پچھلے چوبیس گھنٹوں سے بے بس کر رکھا ہے۔ اب انہیں کمزور یا برگر نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ یہ دوسرے پہلو ہیں کہ ان کا یہ عمل قانون کی نظر میں کیا ہے۔ وہ تو یقینناً اب عدالتیں ہی دیکھیں گی۔ لیکن عمران خان نے بتا دیا ہے کہ وہ ابلاغ کے ماہر اور ان کے کارکن انتہائی پرجوش ہیں۔‘
پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان اس تصادم میں اب تک پولیس کے مطابق ان کے 68 اہلکار زخمی ہو چکے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ان کے درجنوں کارکنان زخمی اور کئی پولیس کی حراست میں ہیں۔