’آئندہ ایسا ہوا تو۔۔‘ ڈرون واقعے کے بعد امریکی اور روسی آرمی چیفس میں رابطہ
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بحیرہ اسود کے اوپر روس کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے کے ایک روز بعد دونوں ممالک کے وزرائے دفاع اور فوجی سربراہوں کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا ہے۔
امریکہ کے اعلٰی فوجی عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکی ڈرون گرانے سے روس کے بڑھتے جارحانہ عزائم کا اظہار ہوتا ہے جبکہ روس نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ کریمیا کے قریب ڈرونز کی اڑان سے تناؤ مزید بڑھے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بحیرہ اسود کے اوپر روس کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے کے ایک روز بعد دونوں ممالک کے وزرائے دفاع اور فوجی سربراہوں کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا ہے۔
یہ رابطہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ممالک کے تعلقات روس کے یوکرین پر حملے کے باعث بہت خراب ہیں۔
روسی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ روس کے وزیر دفاع سرگئی شائیگو نے فون کال میں اپنے امریکی ہم منصب لائیڈ آسٹن کو بتایا کہ امریکی ڈرون کی کریمیا کے ساحل کے قریب پروازیں اشتعال انگیز ہیں اور ان کی وجہ سے تناؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کریمیا ایک جزیرہ ہے جو یوکرین کا حصہ تھا اور روس نے اس کو 2014 میں اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔
بیان میں حالیہ واقعے کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’روس کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی تاہم اگر مستقبل میں ایسا ہوا تو مناسب ردعمل کا دکھایا جائے گا۔ دونوں ممالکک کو زیادہ سے زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘
دوسری جانب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے روسی ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطے کی تردید کی ہے تاہم ڈرون کے حوالے سے روسی اقدام کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ ان تمام علاقوں میں اپنے ڈرونز بھیجنا جاری رکھے گا جہاں تک بین الاقوامی قوانین اجازت دیتے ہیں۔
انہوں نے روس سے مطالبہ بھی کہا کہ اس کے جہازوں کو محفوظ اور پیشہ ورانہ طور پر کام کرنا چاہیے۔
وزارت دفاع میں ہونے والی پریس کانفرنس میں چیئرمین جوائنٹ آف چیفس سٹاف جنرل مارک ملی بھی موجود تھے۔
انہوں نے بھی روسی فوج کے سربراہ جنرل ویلری جراسیموف سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی۔
خیال رہے منگل کو بحیرہ اسود کے اوپر ایک روسی جنگی طیارے کے امریکی ڈرون سے ٹکرانے کی خبر سامنے آئی تھی جس کے بعد ڈرون تباہ ہو گیا تھا اور امریکہ نے اسے روس کی ’لاپرواہی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ روسی جہاز کی جانب سے ڈرون پر ایندھن پھینکا گیا تھا۔
واقعے کے اگلے روز روس نے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس کی سرحد کے قریب ’دشمن پروازیں‘ بھیجنے کا سلسلہ بند کرے۔
امریکہ میں روس کے سفیر اناتولی انٹونوف نے بدھ کو کہا تھا کہ روسی طیاروں نے سرحد کے قریب بحیرہ اسود کے اوپر امریکی ڈرون کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا خیال ہے کہ اب امریکہ ایسی پروازوں کا سلسلہ روکے گا اور میڈیا میں افواہیں پھیلانے سے بھی باز رہے گا۔‘
امریکہ اور یورپی ممالک کا کمانڈ کا کہنا ہے کہ دو روسی طیاروں نے بغیر پائلٹ ایم کیو نائن ریپر کو بین الاقوامی پانیوں کے اوپر روکا اور ان میں سے ایک اس کے پنکھے سے ٹکرا گیا۔
واقعے کے بعد روس کی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ امریکی ڈرون نظر آنے کے بعد روسی طیارے نے اس کا پیچھا کیا تھا تاہم وہ اس کی وجہ سے تباہ نہیں ہوا۔
وزارت دفاع کے مطابق ’ایک امریکی ایم کیو نائن ڈرون بحیرہ اسود کے کریمین علاقے میں روس کے بارڈر کی طرف پرواز کر رہا تھا۔‘
واقعے کے بعد امریکہ اور اس یورپی اتحادی ممالک کی قیادت نے کہا تھا کہ ’ٹکرانے سے قبل روسی جہاز نے کئی بار ڈرون پر ایندھن پھینکا اور عین اس کے سامنے پرواز کی جو کہ لاپرواہی تھی اور یہ عمل پیشہ ورانہ طور پر اور ماحولیاتی لحاظ سے درست نہیں تھا۔‘
ماسکو کی جانب سے ڈرون کو تباہ کیے جانے کے انکار کے بعد امریکی محکمہ دفاع نے ڈرون کو ایک عام معمول کا نگرانی کا مشن قرار دیا تھا۔
دوسری جانب روسی وزارت نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تیز رفتاری کے باعث ڈرون توازن کھو بیٹھا اور وہ پانی کی سطح سے جا ٹکرایا۔ اس میں روسی جہازوں کا کوئی کردار نہیں تھا اور نہ ہی ان کی جانب سے ہتھیار استعمال کیے گئے۔‘
امریکہ نے واقعے کے بعد اعلان کیا تھا کہ روسی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس کی نیشنل سکیورٹی کے ترجمان جان کربی نے بعدازاں کہا تھا کہ ’ظاہر ہے کہ ہم روسیوں کی تردید کو نہں مانتے اور گرے ہوئے ڈرون کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔‘