امیروں کو مہنگا،غریبوں کو سستا پیٹرول بیچنےکی پالیسی کتنی قابل عمل؟
وزیر مملکت مصدق ملک نے منگل کے روز اس منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا دو کروڑ لوگوں کے پاس موٹر سائیکلیں ہیں جبکہ 40 لاکھ لوگوں کے پاس گاڑیاں ہیں جن میں سے 13 لاکھ گاڑیاں 800 سی سی سے کم ہیں۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ کچھ ہفتوں میں ایک ایسی سکیم شروع کرنے والی ہے جس کے تحت وہ امیروں کو پیٹرول مہنگا بیچ کر اس سے ملنے والے پیسوں سے غریبوں کو کم قیمت میں فراہم کرے گی۔
وزیر مملکت مصدق ملک نے منگل کے روز اس منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا دو کروڑ لوگوں کے پاس موٹر سائیکلیں ہیں جبکہ 40 لاکھ لوگوں کے پاس گاڑیاں ہیں جن میں سے 13 لاکھ گاڑیاں 800 سی سی سے کم ہیں۔
نجی ٹیلی ویژن جیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان اعداد وشمار کے مطابق ملک بھر میں دو کروڑ 30 لاکھ کے قریب لوگ اس سکیم سے فائدہ اٹھائیں گے جبکہ30 لاکھ لوگ اس سکیم کے اخراجات پورا کرنے کے لیے پیٹرول کی زیادہ قیمت ادا کریں گے۔
مجوزہ سکیم کی مزید تفصیلات دیتے ہوئے مصدق ملک نے کہا کہ حکومت گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ان کے مالکان کے شناختی کارڈ نمبر سے ان کی مالی حیثیت کا اندازہ لگائے گی اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ڈیٹا سے مدد لیتے ہوئے مستحق افراد کے لیے ایک ون ٹائم پاس ورڈ (موبائل فون کوڈ) سسٹم تشکیل دے گی جس کے ذریعے ہر موٹر سائیکل مالک کو مہینے میں 21 لیٹر جبکہ 800 سی سی سے کم پاور والی گاڑی کے مالک کو 30 لیٹر پیٹرول رعایتی قیمت پر ملے گا۔
مصدق ملک کا کہنا تھا کہ اس سکیم کے لیے ایک خصوصی موبائل ایپ تیار کی جا رہی ہے جو چھ سے سات ہفتوں میں کام شروع کر دے گی اور اس کو تمام متعلقہ پیٹرول پمپوں پر فراہم کر دیا جائے گا۔
تاہم ماہرین حکومت کے اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے متعلق سوالات اٹھا رہے ہیں۔
ماہر معیشت و ترقی ڈاکٹر عبدالقیوم سلہری جو سابقہ حکومت کی مشاورتی کونسل برائے معیشت کے رکن رہے ہیں، نے اس منصوبے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ درحقیقت ان کی ایک تجویز کی تبدیل شدہ شکل ہے جو انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے بعد شہباز شریف حکومت کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو دی تھی۔
’یہ تجویز میں نے اس وقت دی تھی جب پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بہتر تھے اور اس تجویز کے مطابق دو اور تین ویلز والی گاڑیوں کے مالکان کو نقد امداد فراہم کی جانا تھی۔ تاہم موجود ہ حکومت نے اس میں تبدیلی کرتے ہوئے اس کو امیر اور غریب کے مختلف پیٹرول نرخوں میں تبدیل کر دیا ہے۔‘
عابد سلہری کا کہنا تھا کہ جس صورت میں یہ سکیم نافذ کی جا رہی ہے اس میں کرپشن کے بہت زیادہ امکانات ہیں اور اس کے غلط استعمال اور پیٹرول پمپس پر عملدرآمد جیسے چیلنجز درپیش ہیں۔
دوسری طرف آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے کہ وہ اس سکیم کے متعلق پاکستانی حکومت سے تفصیلات طلب کر رہے ہیں اور ان کے مذاکرات کے دوران اس کی منظوری نہیں دی گئی۔
پاکستان میں انرجی سیکٹر پر رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی خالد مصطفی نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت کو سبسڈی دینے سے سختی سے منع کیا ہوا ہے۔
خالد مصطفی نے کہا کہ غریب کو امیر کے پیسوں سے پیٹرول دینا ایک پیچیدہ منصوبہ ہے اور اس کے قابل عمل ہونے اور متوقع نتائج کے بارے میں کوئی مثبت پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
’دیکھنا یہ کہ یہ نظام کتنا فول پروف ہو گا۔ یہ لوگ اس پر پی ایس او کے ذریعے عملدرآمد کروائیں گے کیونکہ دوسرے پیٹرول پمپس مالکان اس سکیم کو تسلیم نہیں کریں گے۔ پی ایس او کے ذریعے اس میں کرپشن اور بد انتظامی کے امکانات ہیں۔‘
خالد مصطفی کا کہنا تھا کہ حکومت کو اتنا پیچیدہ منصوبہ بنانے کی بجائے کرنسی کی قیمت کو مینیج کر کے پیٹرول کی قیمتیں کم کرنی چاہیئں کیونکہ اس وقت پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات اپنی قیمت کی وجہ سے نہیں بلکہ زیادہ ڈالر ریٹ کی وجہ سے مہنگی ہیں۔
’دنیا بھر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت حد تک نیچے آ گئی ہیں اس لیے اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب یہاں پر ’امپورٹد انفلیشن‘ ہے۔ اب یہاں پر مہنگائی اس لیے ہے کہ ہم ڈالر ریٹ کو کنٹرول نہیں کر پا رہے اور حکومت کو اس کو سنبھالنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیئں۔‘
خالد مصطفی کا کہنا تھا کہ اگر حکومت پیٹرول پر ریلیف دینا ہی چاہتی ہے تو پبلک ٹرانسپورٹ، چنگ چی اور رکشا وغیرہ کو دے اور ان سے کرائے کم کروائے۔ دوسری طرف لوگوں کو سائیکل استعمال کرنے کی ترغیب بھی دی جانی چاہیئے اور چند کلومیٹر کے سفر کو گاڑی پر کرنے کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیئے۔
’امیروں سے غریبوں کے پیٹرول کی قیمت لینے کی پالیسی اس لیے بھی درست نہیں کہ یہ مڈل کلاس کو مزید کمزور کرے گی اور ان کی قوت خریداری کو کم کرے گی۔ اس طرح آپ ملک سے غربت کے خاتمے کی بجائے اس میں اضافہ کریں گے۔ ‘