بین الاقوامیاہم خبریں

طوفان راگاسا کی تباہ کاریاں: مشرقی ایشیا میں شدید طوفانی بارشیں، لاکھوں افراد بے گھر، درجنوں علاقے زیرِ آب

زمینی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث سمندری طوفانوں کو زیادہ توانائی میسر آتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی رفتار بڑھتی ہے بلکہ بارش اور سیلاب کی شدت بھی دوگنی ہو جاتی ہے۔

بیجنگ/تائی پے/ہانگ کانگ (نمائندہ خصوصی) – مشرقی ایشیا میں طوفان راگاسا کی تباہ کاریوں نے ایک بار پھر موسمیاتی تبدیلیوں کی خطرناک شدت کو دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ تائیوان، جنوبی چین اور فلپائن میں طوفان کے اثرات سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں، جبکہ متعدد علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو ان کے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

چین کے جنوبی صوبے گوانگ ڈونگ میں حکام نے تصدیق کی ہے کہ طوفان کی آمد سے قبل ہی منگل کی رات تک کم از کم 1.89 ملین افراد کو متاثرہ علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ شدید بارشوں اور ہواؤں کے باعث پہاڑی مشرقی ہوالین کاؤنٹی کے ایک قصبے میں ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سڑکوں پر پانی کی اونچی لہریں گاڑیوں کو بہا کر لے جا رہی ہیں، اور مقامی رہائشی اونچی منزلوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔


قدرتی ڈیم کا ٹوٹنا، ممکنہ تباہی کی پیشگی وارننگ

جولائی کے مہینے میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں ملبہ جمع ہو کر ایک قدرتی ڈیم بن گیا تھا، جس نے ایک عارضی جھیل کی شکل اختیار کر لی۔ حکام کئی ہفتوں سے اس ممکنہ خطرے سے خبردار کر رہے تھے کہ اگر یہ ڈیم ٹوٹا تو اکتوبر تک آس پاس کے علاقے زیرِ آب آ سکتے ہیں۔

بدھ کو منعقدہ نیوز کانفرنس میں حکام نے اعتراف کیا کہ جائزوں سے یہ معلوم ہوا کہ اس قدرتی رکاوٹ کو سیفن کرنا یا ہٹانا ممکن نہیں، لہٰذا اس کے بجائے صورتحال کی مسلسل نگرانی کی جا رہی تھی۔ تاہم، جیسے ہی طوفان نے شدت اختیار کی، پانی نے زور مارا اور کئی دیہات اس کی لپیٹ میں آ گئے۔


چینی ساحلی شہروں میں بھاری تباہی

طوفان راگاسا نے زمرہ 3 کے سمندری طوفان کی شدت کے ساتھ بدھ کی سہ پہر چینی صوبے یانگ جیانگ سے لینڈ فال کیا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں اکھڑے ہوئے درخت، ٹوٹی کھڑکیاں اور تباہ حال سڑکیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ طوفانی ہواؤں نے کئی علاقوں میں عمارتوں کے شیفولڈنگ (Scaffolding) تک اکھاڑ دیے، جبکہ بجلی کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔

ہانگ کانگ کے ساحلی علاقے میں بھی طوفانی ہواؤں نے تباہی مچا دی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فلرٹن اوشین پارک ہوٹل – ایک لگژری سمندری ریزورٹ – کی شیشے کی دروازے طوفانی لہروں سے ٹوٹ گئے، اور بڑی لہریں لابی میں داخل ہو کر وہاں موجود افراد کو بہا کر لے جانے لگیں۔


رہائشی علاقوں میں انخلاء اور عارضی پناہ گاہیں

چین کی ریاستی میڈیا کے مطابق، سمندر کے کنارے واقع بلند و بالا رہائشی علاقوں کے مکینوں کو پہلے ہی خالی کرنے کا حکم دیا جا چکا تھا۔ ہزاروں لوگ قریبی جمنازیم، اسکولوں، سرکاری شیلٹرز، یا رشتہ داروں کے گھروں میں منتقل ہو چکے تھے۔

ایک مقامی شہری، جنہوں نے ہونگ زنگ نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ:

"میں گزشتہ 30 سال سے ژوہائی میں رہ رہا ہوں، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ مجھے انخلاء کا سامنا کرنا پڑا۔”

یہ بیان طوفان کی شدت اور حکومت کی طرف سے اختیار کی گئی ہنگامی تدابیر کی سنگینی کو واضح کرتا ہے۔


موسمیاتی تبدیلی: طوفانوں کی شدت میں اضافہ

فلپائن، تائیوان، اور جنوبی چین ہر سال کئی طاقتور طوفانوں کا سامنا کرتے ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق انسانی پیدا کردہ موسمیاتی تبدیلی نے ان طوفانوں کو مزید غیر متوقع اور شدید بنا دیا ہے۔

ماحولیاتی تجزیہ کاروں کے مطابق، زمینی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث سمندری طوفانوں کو زیادہ توانائی میسر آتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی رفتار بڑھتی ہے بلکہ بارش اور سیلاب کی شدت بھی دوگنی ہو جاتی ہے۔


متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور بحالی کا عمل جاری

طوفان کے گزرنے کے بعد اب ریسکیو ادارے متاثرہ علاقوں میں سرگرم ہیں۔ متاثرہ گھروں سے پانی نکالنے، بجلی کی بحالی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی پر کام جاری ہے۔ تاہم، بعض دور دراز پہاڑی علاقوں تک پہنچنا اب بھی مشکل ہو رہا ہے۔

ریاستی حکام کے مطابق، متاثرہ افراد کی خوراک، پانی، ادویات اور رہائش کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی فنڈز جاری کیے جا چکے ہیں، جبکہ متاثرہ علاقوں میں مزید ریلیف ٹیمیں روانہ کی جا رہی ہیں۔


اختتامیہ: خطرے کی گھنٹی

طوفان راگاسا کی تباہ کاری ایک واضح اشارہ ہے کہ ایشیا میں موسمیاتی خطرات شدت اختیار کر رہے ہیں، اور مستقبل میں مزید مہلک طوفانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر عالمی سطح پر ماحولیاتی بہتری کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو انسانی جانوں کا نقصان، معیشت پر بوجھ اور قدرتی وسائل کی تباہی ناقابل تلافی ہو سکتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button