ملک کے دو صوبوں میں الیکشن کی تاریخ کا تعین کرنے کے مقدمے میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ’اگر 90 روز کی آئینی مدت میں انتخابات ممکن نہیں تو حکومت بتائے کہ کب تک انعقاد ممکن ہے۔‘
جمعے کو جسٹس جمال خان مندوخیل کی جانب سے مقدمے کی سماعت سے معذرت کرنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
پاکستان بار کونسل کے نمائندے نے دو بجے سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس سے استدعا کی کہ اگر فُل کورٹ تشکیل دے دیا جائے تو بہتر ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔ مگر معاملہ بہت زیادہ سیاسی ہو گیا اس لیے اگر فُل کورٹ کی تشکیل ممکن نہیں تو تمام ججز اجلاس (فُل کورٹ میٹنگ) ہی کر لیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ججز کے آپس میں جو اختلاف ہوئے اور دو ججز نے مقدمہ سننے سے معذرت کی مگر تعلقات پہلے جیسے ہی خوشگوار ہیں۔ باہمی احترام کا تعلق ہے۔ ججز کے معذرت کرنے سے قبل اور بعد میں بھی اُن سے اچھی گفتگو ہوئی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ بدقسمتی سے سیاسی معاملہ بنا دیا گیا۔ اس پر مزید تیل ڈالنے کا کام میڈیا اور پریس کانفرنسز کے دوران کیا گیا مگر ہم مکمل طور پر پُرسکون ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر بیرونی تاثر نہ ہوتا تو ہم امن سے ہوتے مگر جدید دنیا میں اب ایسا ہی ہے۔‘
اٹارنی جنرل منصورعثمان نے استدعا کی کہ ’آپ نے کہا تھا تمام فریقوں کو موقع دیں گے۔ وقت ملتا ہے تو لوگ سوچتے ہیں۔ استدعا ہے کہ مقدمے کی سماعت ملتوی کر دی جائے اس طرح اگلے 48 گھنٹے کا وقت مل جائے گا۔ درجہ حرارت کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے اس سے قبل بھی کہا تھا کہ درجہ حرارت کم کرنے کی ضرورت ہے تو اس دوران کیا ہوا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’وقت اور مہلت ضروری ہے تاکہ تمام فریق پُرسکون ہوں اور سوچیں، اسی طرح چیزیں بہتر ہوں گی۔‘
اس کے بعد چیف جسٹس نے پانچ منٹ گفتگو کی اور ایک موقع پر جذباتی ہو گئے، اُن کی آواز بھر آئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایک وقت تھا جب ایمرجنسی لگا کر گھر بھیج دیا گیا، نظربند کیا گیا۔ اس کے بعد بحالی ہوئی جو ایک معجزہ ہے۔ زندگی کے اس تجربے نے دیکھنے اور سوچنے کا رُخ تبدیل کر دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ آئین سب سے اہم ہے۔ اس وقت وہ لوگ پارلیمان میں ہیں جن پر مقدمات بنائے گئے، جیلوں میں ڈالا گیا اور غدار تک کہا گیا مگر قانون کی حکمرانی ہو تو معاشرے رہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس مقدمے میں سیاسی معاملہ کچھ نہیں، 90 روز میں الیکشن کرانا آئین کا تقاضا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے ایک موقع پر کہا کہ اس بینچ کی تشکیل بھی ایک معاملہ ہے جب دیگر ججز نے معذرت کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایک طرف درجہ حرارت کم کرنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب ہمارے اندرونی معاملات پر بات کرتے ہیں۔ بینچ کی ازسرِ نو تشکیل چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ ‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے چار ججز بینچ سے الگ ہوئے تھے۔ چیف جسٹس نے جوابا کہا کہ یہ اندرونی معاملہ ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ عدالتی حکم نامہ ہے اور پبلک میں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ دوبارہ وہی بات کر رہے ہیں یہ افسوس ناک ہے۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فُل کورٹ کی تشکیل کی بات میرے ذہن میں تھی مگر کچھ معاملات تھے کہ دیگر مقدمات کی سماعت متاثر نہ ہو۔ بعض اوقات تمام ججز دستیاب نہیں ہوتے۔
’اگر نو رکنی بینچ تشکیل دیتا ہوں اور اُس میں دیگر کے ساتھ جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرتا ہوں تو اُپ کا سوال ہوتا ہے کہ وہ کیوں ہیں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2019 تا 2021 ساتھ جج کو سزا دی گئی، ہمیں سزا دی گئی۔ اس کے زخموں کے نشان رہ گئے ہیں۔ افواہوں کی بنیاد پر میرے دیگر دو ساتھی ججز پر باتیں کی گئیں۔ دو سال تک ٹرائل کیا گیا۔ ہم نے اس فاصلے کو مٹانے کی کوشش کی۔ یہ عدالت متحد ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس طرح معاشرے میں اس ادارے کا تاثر خراب کیا گیا۔ کیا کسی کو سمجھ ہے کہ ادارہ کس طرح متاثر ہوا۔‘
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’مجھے جذباتی نہیں ہونا چاہیے۔‘
اٹارنی جنرل نے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے سختی سے روکتے ہوئے کہا کہ رہنے دیں، ’ہم متاثر ہوئے۔ ہم بدترین طریقے سے متاثر ہوئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ایک آڈیو آتی ہے اور ہر طرف شور مچا دیا جاتا ہے۔ ’میری بھی فیلنگز ہیں، جن ججز کو عدالت میں لایا گیا اُن کے فیصلے پڑھیں۔ جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید کے فیصلے دیکھیں۔ زبردست ہیں۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اب کوئی ایسی بات نہ کریں، قانون کی بات کریں۔ ’میرے ساتھی ججز، ان کی بیگمات اور بچوں کے بارے میں باتیں کی گئیں۔ یہ بھی انسان ہیں اور حساس انسان ہیں۔ دو سال سے یہ سب سُن رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے چند برس قبل مستعفی ہونے والے جسٹس اقبال حمید الرحمان کا ذکر کیا اور کہا کہ اُن کے خلاف وکلا نے درخواست لائی تھی۔ اُن کو استعفیٰ دینا پڑا۔ میں نے اُن کو روکا تھا مگر وہ کہہ رہے تھے کہ اپنے والد (جسٹس حمود الرحمان) کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ مجھے شوکاز نوٹس ہوا ہے۔‘
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی آواز بھر آئی۔
جسٹس منیب اختر نے مقدمے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تو الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اپنی نشست سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ’جسٹس اقبال حمید الرحمان کو کیوں نہ روکا، اس کا الزام سارے وکلا کو نہ دیں۔ ہم وکیل بھی جذباتی ہو سکتے ہیں مگر قانون کو دیکھنا ہے۔ جذباتی نہیں ہونا۔ اظہار رائے کی آزادی ہے اور چیف جسٹس کو یہ سمجھنا ہوگا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر فُل کورٹ مقدمے سُنے گا تو کسی کو بات کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ حکومت سے ہدایات لے کر آئیں کہ اگر 90 روز میں الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں تو مزید کتنے دن درکار ہوں گے؟ سپریم کورٹ کا یہ تین رکنی بینچ بھی عدالت ہے۔ کسی قانون میں فُل کورٹ بنانا ضروری قرار نہیں دیا گیا۔ کمٹمنٹ دیں کہ کب الیکشن کرائیں گے اور پھر اس پر کھڑے رہیں، اگر ہٹنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج ہوں گے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اگر وسائل نہیں ہیں تو منگوا لیں گے، آرمڈ فورسز نہیں ہیں تو اُن کو بھی بلا لیں گے۔
مقدمے کی مزید سماعت پیر کو ساڑھے گیارہ بجے ہوگی۔