
ناصر خان خٹک.پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ان کی رائے میں مجوزہ کمانڈر آف ڈیفنس فورسز (CDF) کا عہدہ مستقبل میں بھی آرمی کے پاس ہی رہے گا کیونکہ آرمی چیف روایتی طور پر ملک کے دفاعی ڈھانچے میں سب سے سینئر پوزیشن سنبھالتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیمی عمل ابھی جاری ہے اور ممکن ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران مزید ترامیم بھی شامل کی جائیں۔
”ترمیمی عمل ابھی جاری ہے — مزید ترامیم ممکن“
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ پارلیمانی سطح پر آئینی اصلاحات کا عمل ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
"ترمیم ابھی منظور ہونی ہے، اور پارلیمنٹ میں بحث کے دوران مزید ترامیم بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس میں تمام جماعتوں کی رائے شامل کی جائے گی۔”
انہوں نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد ریاستی اداروں میں اختیارات کی وضاحت، گورننس کی بہتری، اور آئینی توازن کو یقینی بنانا ہے۔
”CDF کا عہدہ آرمی کے پاس ہی رہے گا“
وزیر دفاع نے واضح کیا کہ کمانڈر آف ڈیفنس فورسز (CDF) کا عہدہ دراصل عسکری قیادت کے تسلسل اور آپریشنل کمانڈ کے نظم و ضبط کا حصہ ہے۔
"میری ذاتی رائے میں CDF کا عہدہ آرمی کے پاس ہی رہے گا کیونکہ ہمیشہ سے آرمی چیف ہی سینیئر ترین عہدے پر فائز رہے ہیں۔ نیوی اور ایئرفورس کی آپریشنل صلاحیتیں اپنے دائرہ اختیار میں رہیں گی، اور ان کے سربراہان اپنے اپنے شعبے میں مکمل خودمختار ہوں گے۔”
انہوں نے کہا کہ جنگی یا اسٹریٹجک نوعیت کے فیصلوں میں تمام فورسز کا کردار مشترکہ ہوتا ہے۔
"جب کبھی جنگ، امن یا اسٹریٹجک فیصلہ سازی کی صورتحال ہو، تو تمام افواج مل کر فیصلہ کرتی ہیں — یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں، بلکہ ایک معمول کا عمل ہے۔”
”ججز کے ٹرانسفر میں حکومت کا کوئی کردار نہیں“
خواجہ آصف نے عدلیہ سے متعلق امور پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ججز کے تبادلوں یا تعیناتیوں میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔
"ججز کے ٹرانسفر سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، یہ جوڈیشری کا اپنا معاملہ ہوگا۔ وزیراعظم، کوئی وزیر یا بیوروکریٹ اس عمل میں شامل نہیں ہوں گے۔”
انہوں نے بتایا کہ ججز کے تبادلے اور تقرریوں کے حوالے سے قائم فورم میں اپوزیشن کے نمائندے بھی شامل ہیں، تاکہ شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنایا جا سکے۔
سپریم کورٹ میں 55 ہزار زیرالتوا کیسز — آئینی عدالت کی ضرورت پر زور
وزیر دفاع نے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کے حجم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتِ عظمیٰ میں تقریباً 55 ہزار کیسز زیر سماعت ہیں، جن میں صرف 15 فیصد کیسز آئینی نوعیت کے ہیں۔
انہوں نے کہا:
"آئینی عدالت کا قیام وقت کی ضرورت ہے تاکہ سپریم کورٹ عام سول اور کریمنل مقدمات کی بجائے آئینی امور پر توجہ دے سکے۔ دنیا کے بے شمار ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں، اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) بھی ماضی میں اس ماڈل کی حمایت کرتی رہی ہے۔”
افغان مہاجرین اور سیکیورٹی امور — “مہمان نوازی کے باوجود مخالف سرگرمیاں ناقابل قبول”
افغانستان سے متعلق سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان نے نصف صدی تک افغان مہاجرین کی میزبانی کی، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کئی حلقے پاکستان میں مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل جاری رہے گا، کیونکہ قومی سلامتی سب سے مقدم ہے۔
"ہم نے افغان بھائیوں کی دہائیوں تک مہمان نوازی کی، مگر اس کے بدلے میں اکثر دشمنی ملی۔ اب ریاستِ پاکستان اپنی سرزمین کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔”
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ مذاکرات ختم ہو چکے ہیں، تاہم سیز فائر برقرار رہے گا۔
"افغان طالبان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مذاکرات کے دوران بھی جارحیت کا مظاہرہ کیا، اس لیے اب ہمارا رویہ حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ اگر افغانستان سیز فائر کی خلاف ورزی کرے گا تو پاکستان بھی ردعمل دینے کا حق رکھتا ہے۔”
”حکومت نے سیاسی استحکام اور قومی سلامتی کو اولین ترجیح دی“
وزیر دفاع نے کہا کہ موجودہ حکومت نے مشکل حالات میں بھی سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے ٹھوس فیصلے کیے۔
انہوں نے کہا کہ فوج، نیوی، ایئر فورس اور سویلین قیادت کے درمیان مکمل ہم آہنگی موجود ہے، اور یہی اتحاد ملک کی سلامتی کی ضمانت ہے۔
"ہم نے اپنی قومی ترجیحات واضح کر دی ہیں — ملک کی سلامتی، معیشت کی بحالی اور ادارہ جاتی اصلاحات — یہ تینوں ہماری پالیسی کے ستون ہیں۔”
سیاسی تجزیہ کاروں کا ردعمل
سیاسی مبصرین کے مطابق، وزیر دفاع کا یہ بیان 27ویں آئینی ترمیم کے پس منظر میں حکومتی موقف کی وضاحت کے طور پر سامنے آیا ہے۔
ان کے مطابق، CDF کے عہدے پر وضاحت اور ججز کے ٹرانسفر کے بارے میں حکومتی لاتعلقی کے اعلان نے آئینی ترمیم کے حوالے سے پھیلنے والی افواہوں اور قیاس آرائیوں کو کسی حد تک کم کیا ہے۔
اختتامیہ
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے حالیہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت آئینی اصلاحات، عدالتی خودمختاری، اور دفاعی ڈھانچے میں تسلسل و توازن برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ:
"پاکستان کا مفاد سب سے مقدم ہے۔ چاہے بات عدلیہ کی ہو، فوج کی یا پارلیمنٹ کی — ہم سب کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے مل کر ملک کے استحکام کے لیے کام کرنا ہوگا۔”



