آئینی اور سیاسی بحران کیا رنگ لائے گا ؟…. پیر مشتاق رضوی
دراصل سپریم کورٹ کے ججوں میں اختلافات کی وجہ سے چیف جسٹس کے فیصلے سے پہلے ہی سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے حکومت کا موقف ہے کہ پہلے نو معزز ججز پر مشتمل لارجر بینچ بنا پر پھر آخر میں تین معززججز کا فیصلہ ناانصافی پر مشتمل ہے
پارلیمنٹ میں عدالت عالیہ کے فیصلے کو مسترد کرنے کے بعد ملک میں آئینی اور سیاسی بحران بڑھتا جا رہا ہے پہلے کابینہ نے پارلیمنٹ نے فیصلے کو مسترد کر دیا کہ اقلیتی فیصلے سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے اقلیتی فیصلے کو اکثریتی فیصلے پر مسلط کیا گیا ہے اور ممبران پارلیمنٹ کو بھی نہیں سنا گیا ان حالات میں مقننہ اور عدلیہ آمنے سامنے آگئے ہیں دراصل سپریم کورٹ کے ججوں میں اختلافات کی وجہ سے چیف جسٹس کے فیصلے سے پہلے ہی سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے حکومت کا موقف ہے کہ پہلے نو معزز ججز پر مشتمل لارجر بینچ بنا پر پھر آخر میں تین معززججز کا فیصلہ ناانصافی پر مشتمل ہے چار معزز ججوں کے فیصلے پر تین اقلیتی ججوں کا فیصلہ مسلط کر دیا گیا وزیراعظم نواز شریف نے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ہم پر حکم نافذ کرنے والے پہلے اپنے اوپر حکم نافذ کریں اتحادی حکومت کی طرف سے شروع دن سے سے فل کوفل کورٹ بنانے کا مطالبہ چلا رہا ہے جبکہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں متفقہ قرارداد میں بھی یہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ فل کورٹ بنا کر فیصلہ کیا جائے فل کورٹ کے فیصلے کو تمام قوم تسلیم کرے گی وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جو سیاسی جماعت انتخابات سے بھاگے گی وہ سیاسی طور پر دفن ہو جائے گی دوسری طرف پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ چیف جسٹس کا فیصلہ آئین اور قانون کی فتح ہے اور آئین کے مطابق 90 دن کے اندر اندر انتخابات کرائے جائیں اور حکومت کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کریے پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری نے عدالتی فیصلے کو مسترد کرنے پر کابینہ کے اراکین کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا بھی اعلان کیاقبل ازیں مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف نے بھی چیف جسٹس اور ان کے دونوں ساتھیوں پر ریفرنس دائر کرنے کا کہا تھا اس سے قبل پارلیمنٹ میں سو موٹو ایکشن پر ہونے والی قانون سازی کے بل پر صدر مملکت کی طرف سے بس ختم نہ کرنے کی صورت میں قومی اداروں میں جاری محاذ آرائی میں اور اضافہ ہوگا سیاسی اور آئینی تنازعہ کے پس منظر میں پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہیں سیاسی حلقوں کے مطابق یہ امر باعث حیرت ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم تھی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پنجاب کی حکومت اور اسمبلی کو توڑنے میں جلدی کی اور پنجاب اسمبلی کی آئینی مدت کو پورا کرنے نہ دیا اب پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے میں بھی جلدی کر رہی ہے عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومتی اتحاد پی ٹی آئی کی مقبولیت سے خوفزدہ ہے کہ وہ انتخابات ہار جائیں گے لیکن لیکن اقتدار میں آنے کے لیے میرا راستہ روکا جا رہا ہے عمران خان بارہا اپنے مبینہ قتل کی سازش کا اظہار کر چکے ہیں کہ انہیں سیاسی منظر سے ہٹانے کے لیے یہ حربے اختیار کیے جا رہے ہیں دوطرفہ انتہائی سخت موقف کے علاوہ ملک کو در پیش شدید مالی بحران کی وجہ سے ملکی حالات بگڑتے جا رہے ہیں بظاہر دوطرفہ اقتدار کی ہوس نے ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے عمران خان کو اقتدار میں آنے کی جلدی ہے جبکہ حکومتی اتحاد کا دعوی ہے کہ وہ ملکی معشیت کو بچانے کے لئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں عمران خان کے دور میں بگڑ جانے والے سفارتی تعلقات کو بحال کیا جارہا ہے اور دوست ممالک سے دوبارہ اچھے تعلقات استوار کرنے کی جدوجہد جاری ہے وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملک کو بچانے کے لئے اپنی سیاست کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے تشویشناک سیاسی مالی مسائل کے پیش نظر حکومتی اتحاد چاہتا ہے کہ ملک میں اکتوبر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن میں کرائے جائیں یہ حقیقت ہے کہ گذشتہ سال سے تسلسل کے ساتھ تقریبا نو ضمنی انتخابات اور اب پنجاب اسمبلی کے انتخابات پھر کے پی کے کے انتخابات اور اس کے بعد قومی اسمبلی کے انتخابات پر بھاری مالی وسائل خرچ ہوں گے جس کا قومی خزانے پر ناقابل برداشت بہت زیادہ بوجھ ہوگا مالی وسائل نہ ہونے سے ترقیاتی کام رک چکے ہیں اور مہنگائی نے عوام کو زندہ درگور کر رکھا ہے جبکہ قومی ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی آ رہی ہے
بظاہر تو یہ ساری لڑائی تخت لاہور پر قبضہ کرنے کے لیے ہو رہی ہے حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے پیش بندیاں کی جا رہی ہیں حکومتی اتحاد نے الزام لگایا ہے کہ ابھی تک عمران خان کی سہولت کار آئندہ بھی عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے کھیل کھیل رہے ہیں لیکن اس خطرناک سیاسی کھیل سے ملک میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے عام شہری پریشان ہے اور شدید تحفظات کا شکار بھی ہے جبکہ یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے مسلسل اتحادی حکومت کو غیرمستحکم کرنے اور ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ملک کو دیوالیہ بنانے کے لیے محلاتی سازشیں کی جارہی ہیں جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اور ملک دشمن عناصر کو پاکستان میں مداخلت کا موقع مل رہا ہے زلمے خلیل زادے کا بیان اس کا واضح ثبوت ہے کہاگر عدلیہ کے فیصلے پر عمل نہ کیا گیا تو پاکستان (خدانخواستہ )فنا ہو جائے گا سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق برسر اقتدار فیصلہ ساز قوتوں نے مستقبل کی ممکنہ سیاسی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے ان ذرائع کا کہنا ہے کہ ملکی ذخائر میں گیارہ ارب ڈالر جمع ہو گئے ہیں، جون تک سولہ ارب جمع کر کے سرٹیفکیٹ آئی ایم ایف کو دینا ہے۔ سعودیہ اور عرب امارات سرٹیفکیٹ جاری کریں گے کیونکہ آئی ایم ایف کا مطالبہ یہی ہے کہ یہ دو ممالک گارنٹی دیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پاکستان امریکی بلاک سے نکل چکا ہے، لہذا اب دوسرا بلاک ہمارے معاملات کو درست کرنے کے لئے متحرک ہو چکا ہے۔ انڈیا کے ساتھ سیکورٹی مذاکرات ہونے جا رہے ہیں جو روس اور چائنہ کی معاونت میں ہوں گے۔ چائنہ کی طرف سے جو گارنٹی مانگی گئی تھی کہ اب چائنہ دشمن حکومت تو نہیں آئے گی، گارنٹی دے دی گئی ہے کہ ایسا کچھ اب ہونے کا ایک فیصد بھی چانس نہیں، لہذا خنجراب درہ بھی کھول دیا گیا ہے اور سی پیک سے متعلق فنڈز بھی نئے سرے سے شروع ہو گئے ہیں۔ امریکی ایماء پر سی پیک کو رول بیک کر کے بیس ارب ڈالرز تو عمران نیازی نے لے کر اللے تللے میں اڑا دیئے، تھے کبھی غور کیا ہے کہ ہمیں ایک ایک ارب کے لئے خوار کرنے اور سینکڑوں شرائط منوانے والوں نے نیازی کو بیس ارب کتنے آرام سے دے دیئے تھے ؟ ذرائع کے مطابق پاکستان کو سینٹرل ایشیا کے ساتھ جوڑنے، اور خلیجی ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات مضبوط کرنے، پڑوسیوں کے ساتھ اچھے اور پرامن تعلقات قائم کرنے جیسا ویژن رکھنے والی حکومت چلے گی۔
لہذا عدالت فیصلہ جو مرضی دے، الیکشن تب تک نہیں ہوں گے، جب تک یہ حکومت اپنا مالی اور معاشی ایجنڈا اور ٹارگٹ پورا نہیں کر لیتی۔ملک میں جاری اآئینی اور سیاسی بحران کے حل کے لیے قومی اتفاق رائے ضرور ی ہے اس سلسلے میں تحریک انصاف کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار سیاسی جمود کو توڑنے لیے پہلا قدم ہو سکتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ عام انتخابات اور تمام اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی جماعتوں اتفاق لازم ہے اس سلسلے میں اتحادی حکومت کے مطالبے کو بھی ضرور پیش نظر رکھا جائے عدالتی عالیہ کا فل کورٹ تو پھر اپنی ججوں کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیں اور ایک ایسا صائب فیصلہ صادر کرے جو پوری قوم کو قابل قبول ہو تاکہ ملک کو سیاسی استحکام کی طرف گامزن کیا جا سکے جب کہ اتحادی حکومت ویژن لچک دکھائے اور حقائق کو قبول کریں
کیونکہ پاکستان اب ایک دوسرے کو چور کہنے اور ایک دوسرے کو غدار کہنے کی سیاست کا متحمل نہیں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے تعلیمی نظام کو مضبوط کیا جائے جبکہ آزاد اور خودمختار عدلیہ بھی پاکستان کے استحکام کے لیے اور ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے ہماری درخواست میں کیس سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلا کر عدالت عالیہ کے اندرونی معاملات کو بھی سنوارا جائے اس لیے ہم سب پر عدالت کا احترام اور اس کی عزت مقدم ہونی چاہیے