اہم نکات
سپریم کورٹ کے آٹھ رُکنی بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے پر درخواستوں کی سماعت کی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدّت تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’عدلیہ کی آزادی اہم معاملہ ہے، پارلیمنٹ کا بہت احترام ہے۔ کیس کو جلد دوبارہ مقرر کیا جائے گا۔ جائزہ لینا ہے کہ اس معاملے میں آئینی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدّت تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’عدلیہ کی آزادی اہم معاملہ ہے، پارلیمنٹ کا بہت احترام ہے۔ کیس کو جلد دوبارہ مقرر کیا جائے گا۔ جائزہ لینا ہے کہ اس معاملے میں آئینی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ججز کی دستیابی کو مد نظر رکھ کر جلد سماعت کے لیے مقرر کریں گے۔ وفاقی حکومت ،اٹارنی جنرل ،سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کریں گے۔‘
درخواستگزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے موقف اپنایا کہ حسبہ بل کے کیس میں بھی سپریم کورٹ نے منظور شدہ بل کا جائزہ لیا۔ حسبہ بل کیس ناقابل سماعت ہونے کے اعتراضات سپریم کورٹ نے مسترد کیے۔ سپریم کورٹ نے حسبہ بل کو غیر آئینی قرارد دیا تھا۔ حسبہ بل صدارتی ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ آیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’موجودہ کیس آرٹیکل 3/184 کا ہے جس میں عدالت زیادہ بااختیار ہے۔ اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ شادی ہال تک گرانے کا حکم دے چکی ہے۔کیا عدلیہ کی آزادی عوام کا بنیادی حق نہیں ہے؟‘
وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ ’مجوزہ قانون کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ آرٹیکل 3/184میں اپیل نہیں نظرثانی کا حق دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کا ایک جج دوسرے جج کے خلاف اپیل نہیں سن سکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمینٹ عدلیہ کے اندرونی معاملے کو ریگولیٹ کرسکتی ہے؟‘
سماعت کے دوران درخواستگزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’عدالت آئین کی محافظ اور انصاف کرنے کے لیے بااختیار ہے۔ تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ سپریم کورٹ کے رولز موجود ہیں جن میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کر سکتی۔‘
چیف جسٹس عطر عطا بندیال نے کہا کہ ’آپ کے مطاںق عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے جس کو آئین کا مکمل تحفظ حاصل ہے۔ آپ کے مطابق پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی طرح عدلیہ کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔‘
درخواستگزار کے وکیل نے کہا کہ صدر ریاست پاکستان کی وحدانیت کی علامت ہے۔ صدر نے بل کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی،اسمبلی منظوری کے بعد بل میں ترمیم نہیں ہو سکتی۔‘
انہوں نے موقف اپنایا کہ ’بل کی منظوری کے بعد قانون سازی کا عمل مکمل تصور ہوتا ہے۔ عدالت کا موجودہ کیس میں حکم زیر التواء قانون سازی میں مداخلت نہیں ہو گا۔ پارلیمنٹ اپنا کام مکمل کرچکی اس لیے یہ مداخلت تصور نہیں ہو گی۔‘
درخواستگزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ ’چیف جسٹس اور ججز کے اختیارات کم نہیں کیے جا سکتے۔چیف جسٹس کا دفتر دو سینیئر ججز کے ساتھ کیسے شئیر کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کے ہر ادارے کے اقدامات کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ قاسم سوری کیس میں قرار دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ بِل کو پاس ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔ بل پاس ہوجائے تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی۔ عدالتی فیصلے کے مطابق صدر کی منظوری سے پہلے بھی مجوزہ ایکٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔‘
درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ ’مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایا گیا جنہوں نے اعتراضات عائد کر کے بل اسمبلی ؤ واپس بھیجا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سیاسی اختلاف پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد دس دن میں بل قانون بن جائے گا۔ آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔‘
درخواستگزار کے وکیل کے مطابق بل کے تحت از خود نوٹس اور بینچز کی تشکیل کا فیصلہ تین رکنی کمیٹی کرے گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ بل قانون بننے کے لائق ہے؟ کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیر قانونی ہے۔‘
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’بل کابینہ میں پیش کرنا اور منظوری دونوں انتظامی امور ہیں۔ بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا بھی غیر آئینی ہے۔ بل زیر التواء نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے۔ صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا۔‘
وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں۔‘
سماعت کے دوران درخواست گزار راجہ عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے موقف اپنایا کہ قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کروانے پر آمادہ نہیں۔ عدالت کو انتخابات نہ کروانے ہر از خود نوٹس لینا پڑا۔
درخواست گزار کے وکیل کے مطابق عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ آئین پر عمل کرنے کے عدالتی حکم کے بعد مسائل زیادہ پیدا کیے گئے،عدالت اور ججز ہر ذاتی تنقید کی گئی۔ حکومتی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ اس کے ذمہ دار ہیں۔
پاکستان کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے چیف جسٹس کے اختیارات کے حوالے سے بِل پر بینچ تشکیل دینے کا اقدام مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی قانون بنا ہی نہیں بینچ بنا کر اسے فکس کر دیا گیا۔‘
جمعرات کو حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’بل کو پری میچور لیول پر مقرر کیا گیا۔ عجلت میں مقدمہ رکھا گیا اور بینچ تشکیل دیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صدرِ مملکت نے ابھی تک بِل پر دستخط نہیں کیے، صدر کے دستخط کے بغیر بِل ایک آف پارلیمنٹ نہیں بنا۔‘
پاکستان بار کا جمعرات کو عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان
پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین ہارون الرشید اور چئیرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضاپاشا نے باہمی مشاورت کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل 2023 سے متعلق قانون نافذالعمل ہونے سے قبل یک طرفہ اور متنازعہ بینچ کی تشکیل اور مقدمے کو عجلت میں سماعت کے لیے مقرر کرنے کے اقدام کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
سیکریٹری پاکستان بار کونسل کے بیان کے مطابق وکلا رہنماﺅں نے متفقہ طور پر اس اقدام کو ملک کی اعلی ترین عدالت کو تقسیم کرنے کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ’ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کبھی پارلیمان کی طرف سے بنائے گئے کسی قانون کو نافذ العمل ہونے سے نہیں روکا گیا‘۔
وکلارہنماﺅں نے خبردار کیا کہ’ بارکونسلز اور ایسوسی ایشنز کے مطالبے پر کی گئی اس قانون سازی کو نافذ العمل ہونے سے پہلے روکنے کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’اس غیرمنصفانہ اقدام کے خلاف ملک بھر کے وکلا بطور احتجاج جمعرات 13 اپریل کو عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گے‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ’ پارلیمان نے یہ قانون سازی آل پاکستان وکلا کنونشن میں منظورہونے والی قرارداد کے عین مطابق کی ہے‘۔
پارلیمان سے پاس کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف تین درخواستیں دائر کی گئیں۔ درخواستوں میں پارلیمنٹ سے منظورکردہ بل کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ ’پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں۔‘
’سپریم کورٹ کے رولز 1980 میں بنے تھے جبکہ آرٹیکل 184/3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی حق نہیں دیا جا سکتا۔‘
سپریم کورٹ سے اظہار یکجہتی کریں گے: اعتزاز احسن
ماہر قانون دان اور وکیل رہنما اعتزاز احسن نےجمعرات 13 اپریل کو صبح ساڑھے آٹھ بجے وکلا کو سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچنے کی کال دی تھی۔
بیان میں کہا گیا تھاکہ ’چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی عدالت آمد پر وکلا بھرپور یکجہتی کا اظہار کریں گے‘۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے پر سپریم کورٹ کا 8 رکنی بینچ درخواستوں کی سماعت کرے گا۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری کے بعد اسے دستخط کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیجا گیا تھا۔
تاہم صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور شدہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر دستخط نہیں کیے تھے اور اسے نظرِثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔