ایم آر ملککالمز

ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا خوف ….ایم آر ملک

سٹیٹس کو کے ساتھ کھڑی اُن قوتوں کیلئے خطرے کا نشان ہے جو دانشوری کے نام پر 23کروڑ عوام کے پر نوچتے رہے ایک مخصوص ذہنیت مستقبل میں خود کو موت سے دوچار ہوتا دیکھ رہی ہے

ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عمران کی للکار ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا خوف ہے ,ایک سیاسی رہنما پر 145 ایف آئی آرز جن میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں ان کے خوف کو بڑھاوا دے رہی ہیں ,ایک سیاسی جماعت جس کے شانہ بشانہ عوام کی طاقت ہے کو کالعدم قرار دینے کی ناکام خواہش اس خوف کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے
سٹیٹس کو کے ساتھ کھڑی اُن قوتوں کیلئے خطرے کا نشان ہے جو دانشوری کے نام پر 23کروڑ عوام کے پر نوچتے رہے ایک مخصوص ذہنیت مستقبل میں خود کو موت سے دوچار ہوتا دیکھ رہی ہے کئی روز سے ایک سوال کا سامنا ہے کہ کیا سول آمریت اور خاندانی بادشاہت کا جھوٹا جاہ و جلال اور اندھی طاقت موت سے دوچار ہونے والی ہے؟
پنجاب میں سی سی پی او لاہور غلام محمد ڈوگر نے قانون کا ہاتھ تھام کر 13پارٹیوں کے غیر قانونی اور ناجائز امپورٹڈ حکمرانی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا،عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود اسے اس کی نشست پر پنجاب کی نگران حکومت تعینات کرنے سے گریزاں ہے،18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ملنے والے اختیارات کو سلب کرنے والے جانے کونسے خوابوں کی دنیا میں مگن ہیں مگر وہ دن گئے جب خلیل خان فاختیں اُڑایا کرتے تھے، عمران خان کی حب الوطنی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہے کہ اس نے عوام کی طاقت کوروک رکھا ہے مگر کب تک آئے روز مہنگائی کا پھیلتا ہوا عفریت اور ماؤں کی گود میں بلکتے دم توڑتے بچے،درختوں کی شاخوں اور پنکھوں سے جھولتی لاشیں،امپورٹڈ حکمرانی کے خلاف ایک ایسی ایف آئی آر ہے جس میں مجرموں کی سزا ہی ان کا خواب ہے،اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی اور سماجی خاموشی میں گہرا شور بہت کم کانوں کو سنائی دیتا ہے کسی بڑے طوفان کے پھوٹنے کے آثار اور علامات کو بہت کم لوگ پرکھتے ہیں عمران خان نے موجودہ نظام کے خلاف جس طرح انقلابی بغاوت اور عوامی سر کشی کی بنیاد رکھی اِ س کی اُمید بہت کم تھی مگر یہ بغاوت،یہ عوامی سرکشی اس نہج پر آگئی کہ یہ دو نظریوں کی جنگ بن گئی وہ ساری قوتیں جو ”خاندانی سیاست بچاؤ“کی حامی تھیں عوام کے بنیادی حقوق کے استحصال پر جن کی سیاست کی سانسیں چل رہی تھیں اُن کو اپنی ”سیاست“کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا تو ایک جعلی فورم پر اکٹھی ہو گئیں اور ”بادشاہ سلامت“کو بچانے کیلئے اُن کا منافقانہ کردار اُبھر کر سامنے آیا
حیف کہ 23کروڑ عوام کے اذہان میں ایک مخصوص ذہنیت کی غلامی کا زہر بھرنے والے بکے ہوئے دانشور،تجزیہ نگار عوامی انقلاب کے امکانات کو اپنی تحریروں،تجزیوں میں مسترد کرتے نظر آتے ہیں یہ وہ عوام دشمن،وطن فروش افراد ہیں جو اپنی سوچ کے اندھے آئینے میں جابر حکمرانو ں کو مسیحا دکھانے میں پیش پیش ہیں ان منطقی فلسفہ اور سطحی سوچ کے حامل ”وظیفہ خور“مفکرین کو اپنی بساط لپٹنے کی فکر ہے یہ خوف لاحق ہے کہ اگر خاندانی جمہوریت کا خاتمہ ہوا تو ہم ”زیرو پوائنٹ“پر کھڑے ہوں گے امریکہ کی ننگی تہذیب میں ”پاکستان کے ماجھے لوہار“کے مسائل سے نابلداپنے آقاؤں کی نمک حلالی میں مگن ہیں , خاندانی حکمرانی کے مفادات کے تابع یہ حادثاتی فنکار،جھوٹے اختلافات اور نان ایشوز عوام کے اذہان پر مسلط کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ضمیر بیچ کر حقائق مسخ کرنے والے ان اداکاروں کے چہرے سے شہر ,شہرمیں لگی عوامی عدالت نے نقاب کھینچ لیا ہے نام نہاد ”مفادات بچاؤ“جمہوریت کی آڑ میں ان کا حقیقی عوام دشمن چہرہ ننگا ہو چکا ہے اور آج جب وطن عزیز کا شعور جاگا ہے تو مفادات کی صحافت کا لباس زیب تن کئے بعض کالی بھیڑوں نے ”شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار“بننے کیلئے عوام پر حملے شروع کر رکھے ہیں
ان مفادات کی منڈی میں ان کے کردار کو دیکھ کر اکثر دوست بھولپن میں مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر میڈیا کے یہ افراد اسی طرح جھوٹ بولتے رہے تو عوام کو سچائی کا ادراک کیسے ہوگا؟عوامی انقلاب کی راہ کیسے متعین ہوگی؟میں اُنہیں یہ کہہ کر مطمئن کرتا ہوں کہ 23کروڑ باسیوں کے درِ احساس پہ عمران کی دستک ایک کوڑا بن کر لپکی ہے،سوشل میڈیا نے بہت کچھ ننگا کردیا ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button