پیر مشتاق رضویکالمز

پنجاب میں 90 روز میں الیکشن کیوں ؟…. پیر مشتاق رضوی

متعدد درخواستوں کی سماعت کے دوران سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ایک ہی دن انتخابات کرانے کی استدعا کی اور سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کی تجویز کو بھی سراہا جبکہ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملک کو آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے اور 90 روز میں پنجاب میں انتخابات کے عدالت عالیہ کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد ہونا چاہیے

پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے ملک میں سیاسی ڈیڈلاک جاری ہے حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں ملک بھر میں ایک ہی دن میں الیکشن کرانے پر مصر ہیں اتحادی حکومت عدالت عالیہ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو ماننے پر تیار نظر نہیں آتی اور اسے اقلیتی فیصلہ قرار دے کر پارلیمنٹ میں منظور کردہ قراردادوں کی آڑ میں چیف جسٹس کے فیصلے کو چیلنج کیا جارہا ھے پارلیمنٹ کے ذریعے عدالت عالیہ کے فیصلہ کو بلڈوز کرنے اور اس پر عملدرآمد کو بلاک کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے علاوہ ازیں پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے چیف جسٹس سے اعلی سیکورٹی اداروں کے سربراہان نے ملاقات کی اس دوران ملک میں موجود سیکورٹی صورتحال دہشتگردی کے خلاف جنگ اور انتخابات میں فورسز کی دستیابی کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی
متعدد درخواستوں کی سماعت کے دوران سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ایک ہی دن انتخابات کرانے کی استدعا کی اور سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کی تجویز کو بھی سراہا جبکہ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملک کو آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے اور 90 روز میں پنجاب میں انتخابات کے عدالت عالیہ کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد ہونا چاہیے اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمرعطا بندیال نے ایک بار پھر دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ "پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا فیصلہ واپس نہیں ہوگا سیاسی جماعتیں مذاکرات کریں چیف جسٹس نے سیاسی رہنماؤں کو فوری مذاکرات کرنے کی ہدایت کی انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ سیاسی معاملات کا حل عدالتی احکامات کے ذریعہ نکالنے سے پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں لیکن جب سیاسی جماعتیں کوئی کام کرتی ہیں تو راستے نکل آتے ہیں” چیف جسٹس کی ہدایت پر سیاسی مذاکرات کرنے کے حوالے سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ اپنی پوزیشن واضح کرے کہ وہ پنچائیت ھے یا عدالت ھے؟ انہوں نے کہا کہ ہم عدالتی جبر کو کبھی قبول نہیں کریں گے اس سے قبل مولانا فضل الرحمان نے عمران خان سے مذاکرات کو بھی مسترد کر دیا اور موقف اختیار کیا تھا کہ عمران خان کوئی سیاسی قوت نہیں ہے وہ جھوٹے اور ناقابل اعتبار ہیں مولانا فضل الرحمان نے الزام لگایا کہ اگر ھم عمران خان کو راضی کرلیں تو جب چاہیں انتخابات کرالیں ورنہ پنجاب میں انتخابات 14 مئی کو ہوں گے اس طرح اے این پی سربراہ نے عدالت عالیہ کی طرف سے مذاکرات کی ہدایت کو ماننے سے یکسر انکار کر دیا پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے پارلیمنٹ میں مذاکرات کو ترجیح دی ہے کہ پارلیمانی پارٹیاں مذاکرات کرکے اپنے سیاسی معاملات طے کریں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو نے یہ بھی کہا کہ” چیف جسٹس حکومتی اتحاد کو عمران خان سے مذاکرات کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جبکہ بندوق کے زور پر مذاکرات نہیں کرائے جاسکتے حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں پارلیمان کے ساتھ کھڑی ہیں پنجاب میں پہلے الیکشن کرانا سازش ہے پنجاب میں پہلے ہونے والے الیکشن تمام صوبوں پر اثر انداز ہوں گے صرف تین لوگوں کو پنجاب میں الیکشن ہوتے نظر آرہے ہیں انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ میں آج کل جو ہو رہا ہے افسوسناک ہے تین چار کا فیصلہ زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے” بلوچستان کے سیاست دانوں کا بھی یہی موقف ہے کہ پنجاب میں پہلے الیکشن سے سب سے زیادہ بلوچستان متاثر ہوگا یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ
آئین کے مطابق 90 روز میں الیکشن کرانے سے کسی کو انکار نہیں لیکن ماضی کی نظیروں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ معروضی حالات میں بھی ملک میں الیکشن ہوئے اور اور انتخابات کی تاریخ میں توسیع بھی کی گئی جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ سراج الحق کا بھی یہی کہنا ہے کہ” 90 سے ایک سو پانچ دن ہو سکتے ہیں تو 205 دن کیوں نہیں ہو سکتے” مبصرین کے مطابق پنجاب میں 90روز میں الیکشن کرانے پر بہت زور دیا جا رہا ہے لیکن کے پی کے میں انتخابات پنجاب کی طرح 90 روز میں کیوں نہیں کرائے جا رہے ؟
جماعت اسلامی کے مرکزی امیر حافظ سراج الحق کا بھی یہی کہنا ہے کہ پنجاب میں الیکشن کرانا صرف دو پارٹیوں کا معاملہ نہیں بلکہ یہ 23 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے پنجاب میں پہلے الیکشن کرانا فساد ہے اس کے علاوہ جماعت اسلامی کی طرف سے عام انتخابات کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرانے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے جبکہ جماعت اسلامی کی طرف سے سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے سیاسی مذاکرات کا آغاز کرنے پر جناب چیف جسٹس نے حافظ سراج الحق کی کاوشوں کو بھی سراہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں پہلے الیکشن کرانے سے وسیع پیمانے پر سیاسی فساد ہوگا اور خون خرابہ کا بھی اندیشہ ہے کیونکہ پنجاب میں پہلے منعقد کیے جانے والے الیکشن کے نتائج کو کوئی قبول نہیں کرے گا اور یہ خدشہ بھی بدستور موجود رہے گا کہ برسر اقتدار حکمران پنجاب کے انتخابات میں مداخلت کریں گے اور وسیع پیمانے پر دھاندلی کروا سکتے ہیں بصورت دیگر پنجاب کے انتخابات دیگر صوبوں کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوں گے اس دوران سب سے زیادہ استحیصال بلوچستان کا ہوگا اور قومی اسمبلی کے انتخابی نتائج سیاسی جماعتوں کو قابل قبول نہ ہوں گے اس طرح ملک میں بتدریج انتخابات صاف ،شفاف اور منصفانہ ممکن نہیں ہو سکتے پی ٹی آئی سے سیاسی مذاکرات پر پی ڈی ایم میں واضح تقسیم نظر آتی ہے گو کہ مسلم لیگ ن نے رابطے شروع کر دیے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن کے ساتھ شاہ زین بگٹی اور غلام محمد بلور نے بھی عمران خان سے مذاکرات کی شدید مخالفت کی ہے
ملک کے موجودہ معروضی حالات کے تناظر میں ایک سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ اب جبکہ عدالت عالیہ کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی ہدایات دی گئی ہے اگر عدالتوں کا تین رکنی بینچ اپنا فیصلہ صادر کرنے سے قبل سیاسی جماعتوں کو سن لیتا اور سیاسی جماعتوں میں مذاکرات کا عمل پہلے سے جاری ہوتا تو حالات اس نہج تک نہیں پہنچ پاتے اس کے علاوہ عدالت عالیہ کے معززججز صاحبان کے مابین تقسیم اور اختلاف رائے سے آئینی بحران میں اضافہ ہوا ہے اور تین رکنی بینچ کے عدالتی فیصلے کی قبولیت پر سوال اٹھے ہیں عدالت عالیہ کے اس فیصلے پر عملدرآمد کےلیے فریقین تیار نہیں ہیں عدالت عالیہ کا وقار اور احترام مجروح ہو رہا ہے جناب چیف جسٹس صاحب سے پہلے بھی استدعا کی گئی تھی کہ پنجاب کے الیکشن کے معاملے پر فیصلہ صادر کرنے سے پہلے پنجاب اور سرحد کی اسمبلیوں کی تحلیل کے جواز کے سیاق و سباق کا آئینی اور قانونی جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ دیگر ججز صاحبان کے اختلافی نوٹس میں یہ قانونی اور آئینی سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا مذکورہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کرنے کا جواز قانونی اور آئینی تھا ؟ اگر اس آئینی نکتہ کا بھی تفصیلی جائزہ لے لیا جاتا اور فل کوٹ بنا کر فیصلہ دیا جاتا تو پوری قوم کو قابل قبول ہوتا اس کے علاوہ پہلے 9 معزز ججز پر مشتمل ایک بینچ بنایا گیا وہ بینچ ٹوٹتے بنتے آخر تین معززججوں پر مشتمل رہ گیا جس میں ایک معزز جج پر سنگین نوعیت کے اعتراضات کئے گئے عدالتی روایات کے مطابق اخلاقی اور قانونی طور پر مذکورہ معزز جج کو بینچ سے علیحدہ ہو جانا چاہیے تھا ایسا نہ ہوا اور جناب چیف جسٹس نے مذکورہ معزز جج کو بنچ میں شامل کرکے ایک واضح پیغام دینے کے بارے میں فرمایا جو کہ انتہائی معنی خیز پیغام تھا؟ کیا اس بینچ نے انصاف تقاضے پورے کیے؟ اس کا جواب فل کورٹ کا بینچ ہی دے سکتا ہے تین ججز پر مشتمل بینچ نے جو فیصلہ سنایا اس سے ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی ہیجانی اور بے چینی کی کیفیت میں کمی نہ آسکی اور ملک میں آئینی بحران پیدا ہوگیا حکومتی اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کا فل کورٹ بینچ کی تشکیل کا مطالبہ شروع دن سے چلا آ رہا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نثار کھوڑو نے اس مطالبے کو دوبارہ دہرایا ہے کہ عدالت عالیہ فل کورٹ بنا کر فیصلے پر نظر ثانی کرے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button