امجد عثمانیکالمز

روٹی روٹی کرے چنگیر۔۔۔۔۔۔۔!!!امجد عثمانی

بابا جی لاہور پریس کلب کے اعزازی لائف ممبر بھی ہیں۔۔میرے خیال میں یہ پریس کلب کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے۔۔۔۔۔ بابا جی اس روز موڈ میں تھے۔۔۔۔مدت بعد طویل نشست ہوئی اور انہوں نے خوب خوب دل کی باتیں کہیں

روٹی،کپڑا،مکان کیا ہی عوام دوست "انتخابی نعرہ "ٹھہرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش یہ کسی سیاسی جماعت کا منشور بھی بن جاتا تو عام آدمی کی قسمت بدل جاتی….۔۔۔۔
عید کے اگلے روز لاہور پریس کلب میں بیٹھے پنجابی کے بڑے شاعر بابا نجمی نے "آب زر” سے لکھنے قابل جملہ ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔بلاشبہ کوئی بڑا شاعر ہی ایسا جملہ کہہ سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔بابا نجمی،پاکستان کا وہ پنجابی بابا ہے،جسے سرحد اورسات سمندر پار بھی لوگ اپنا”بابا "سمجھتے۔۔۔۔۔ان کا "پانی” بھرتے،گھٹنے چھوتے اور ہاتھ چومتے ہیں۔۔۔۔۔ہندوستان میں تو سکھ چوکوں چوراہوں اور پارکوں میں ان کے مجسمے گاڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔بابا جی نے کہا کہ کچھ اقوال لازوال ہوتے ہیں کہ وہ اپنے اندر ہر عہد کی داستان سموئے ہوتے ہیں لیکن ہر زمانے کی بات بھی بڑے لوگ ہی کرتے ہیں۔۔۔۔۔جیسے علامہ اقبال۔۔۔۔میاں محمد بخش۔۔۔۔۔فیض احمد فیض اور حبیب جالب ایسے عہد ساز لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا جی لاہور پریس کلب کے اعزازی لائف ممبر بھی ہیں۔۔میرے خیال میں یہ پریس کلب کے لیے بھی اعزاز کی بات ہے۔۔۔۔۔ بابا جی اس روز موڈ میں تھے۔۔۔۔مدت بعد طویل نشست ہوئی اور انہوں نے خوب خوب دل کی باتیں کہیں۔۔۔میں نے انہیں چائے پیتے کم ہی دیکھا ہے لیکن اس دن انہوں نے ایک ہی نشست میں چائی کی دو پیالیاں بھی چسکیاں لے لے کر نوش فرمائیں۔۔۔۔۔مجلس سے پہلے میں نے ازراہ مذاق کہا کہ بابا جی آپ میرے بائیں جانب تشریف رکھیے کہ دنیا دیکھے کہ پاکستان کے” دائیں بائیں بازو”والے لوگ کس قدر باہم شیر و شکر اور ایک دوسرے کے قریب ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے قہقہہ لگایا اور میرے پہلو میں بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔۔
میرے دماغ میں کئی مہینے سے ایک سوال کلبلا رہا تھا کہ بابا جی ملیں تو پوچھوں کہ جناب عالی آپ تو آٹے کی قیمت ایک روپیہ بڑھنے پر آسمان سر پر اٹھا لیتے تھے ۔۔۔۔۔پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے ان پانچ سال میں مہنگائی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے،آپ خاموش کیوں ہیں؟؟؟اس سے پہلے کہ میں بابا جی سے سوال کرتا،وہ خود ہی بول اٹھے کہ الفاظ توقیر اور تاثیر کھو بیٹھے ہیں کہ کبھی ایک شعر سے کہرام مچ جاتا اج دیوان خجل ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔کہنے لگے یہ انیس چورانوے کی بات ہے۔۔۔۔۔یہ محترمہ بے نظیر کا دور اقتدار تھا۔۔۔۔۔۔آٹے کی قیمت میں صرف ایک روپیہ اضافہ ہوا تو میں نے "آٹا” کے عنوان سے ایک نظم لکھی۔۔۔۔۔کسی عقیدت مند نے اس نظم کی ایک کاپی ایک بڑے قومی اخبار کے ایڈیٹر کو بھجوا دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے اسے اپنے اخبار کے صفحہ اول پر چھاپ دیا۔۔۔۔۔۔۔بابا جی نے نظم کے اشعار دہرانا شروع کر دیے:
آٹا ست روپیے سیر
بی بی رانی بڑا ہنیر
آٹا ست روپیے سیر
آٹا لین بلاول جاوے
ننگے پیریں سڑدا آوے
خالی اگے دھریں چنگیر
آٹا ست روپیے سیر
بی بی رانی بڑا ہنیر
تیرے بچے بختاں والے
آگے پچھے نیں رکھوالے
بھورا منگن لگے ڈھیر
آٹا ست روپیے سیر
بی بی رانی بڑا ہنیر
میرے وانگوں جے زرداری
راجاں پچھے کرے دیہاڑی
سیباں بدلے لبھن بیر
آٹا ست روپیے سیر
بی بی رانی بڑا ہنیر
سارے لوگ لغاری نئیوں
میاں شریف مزاری نئیوں
آٹا ست روپے سیر
بی بی رانی بڑا ہنیر
توں وی آن ہنیرا کیتا
اچا ہور بنیرا کیتا
توں وی کیتا سانوں زیر
آٹا ست روہیے سیر
بی بی رانی بڑا ہنیر
جنے وی نیں سجن تیرے
تینوں رکھن وچ ہنیرے
متھے لگیں دساں فیر
آٹا ست روپیے سیر
بی بی رانی بڑا ہنیر

بابا جی بتانے لگے کہ یہ نظم کیا چھپی ایک "بھونچال” آگیا۔۔۔۔..۔۔۔۔۔۔۔۔کراچی پریس کلب میں اس وقت کے وزیر اعلی اور موجودہ چیف منسٹر سندھ مراد علی شاہ کے والد گرامی عبداللہ شاہ کی زیر صدارت مشاعرہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں اس نظم پر ہنگامہ ہوگیا اور میں پٹنے سے بال بال بچ گیا۔۔۔۔۔۔۔
بابا جی نے اسی نشست میں پرویز مشرف دور میں لکھی نظم کے کچھ اشعار بھی سنائے:
آٹا سیر روپیے باراں جرنل جی
وجن چھریاں تے تلواراں جرنل جی
ساڈی نگری آکے ویکھو
ٹکر ساڈا کھا کے ویکھو
میرے وانگوں اک دیہاڑی
کرکے ویکھو دنیا داری
گھر گھر آٹا آٹا ہوئی
ہانڈی ولے ویکھے ڈوئی

بابا جی نے دو ہزار تیرہ کے ہنگام ن لیگ کے دور حکومت میں لکھی نظم کے کچھ اشعار بھی گنگنائے:

بک روپیے، آٹاسیر
روٹی روٹی کرے چنگیر
فیر پرانا رنڈی رونا
ساڈے ہتھیں خالی پونا
سوچاں والا آگے ڈھیر
ایہدی وی کدے دیہاڑی ٹٹے
پھڑیا کم وی ہتھوں چھٹے
گھر نہ ہووے آٹا سیر
روٹی روٹی کرے چنگیر

میں سوال کرنے ہی والا تھا کہ بابا جی بولے محترمہ بے نظیر ۔۔۔۔نواز شریف اور پرویز مشرف دور میں جتنا بھی سخت لکھا وہ چھپا اور انہوں نے خندہ پیشانی سے برداشت بھی کیا لیکن عمران حکومت میں ایک شعر بھی شائع نہیں ہوا۔۔۔۔۔بڑے قومی اخبار کے وہ دبنگ مدیر جنہوں نے بی بی شہید کے دور میں میری سخت ترین نظم اپنی مرضی سے صفحہ اول پر شائع کردی۔۔۔عمران حکومت میں بار بار بھجوانے کے باوجود میرا کلام نہیں چھاپا۔۔۔۔ خان صاحب کے نئے پاکستان میں جبر کی یہ ایک جھلک ہے۔۔۔۔لوگوں کو مارتے اور رونے بھی نہ دیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ وطن عزیز کے راستے میں اتنے کانٹے بکھیر گئے کہ ہر شعبہ زندگی زخم زخم ہے۔۔۔۔۔۔۔بابا جی بی بی کے مداح تو ہیں ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آصف علی زرداری کے "ظرف” کی بھی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ "آٹے والی نظم” کے بعد بھی انہوں نے مجھے کئی بار اپنے ہاں مشاعروں میں مدعو کیا اور صرف ایک مرتبہ اتنا کہا بابا جی ہتھ ہولا رکھیں ۔۔۔۔۔
بابا نجمی نے "کتاب زندگی” کے اوراق پلٹے اور کہا کہ کبھی خود کسی کے پیچھے بھاگ تصویر نہیں بنوائی۔۔۔۔۔انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پچیس تیس سال پہلے میں نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ساتھ تصویر بنانے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ کسی جگہ بیٹھے تھے کہ معراج محمد خان نے ان سے میرا تعارف کرایا کہ یہ بابا نجمی ہیں اور حبیب جالب کی طرح پنجابی شاعر ہیں۔۔۔۔۔میں نے انہیں اپنی نظم "سرکا راما "سنائی تو وہ جھوم اٹھے اور کہنے لگے آپ تو "ہماری فکر” کے آدمی ہیں ۔۔۔پھر خان صاحب نے فوٹو گرافر کو تصویر بنانے کو کہا لیکن میں نے منع کر دیا۔۔۔۔۔عمران خان نے میری طرف گھورا۔۔۔ گویا کہہ رہے ہوں کہ چار فٹ کے بندے کی یہ جرات کہ چھ فٹے ہیرو کے ساتھ تصویر سے گریزاں ہے ۔۔۔۔۔کہنے لگے کہ مجھ پر ان دنوں پیپلز پارٹی کا بھوت سوار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے ڈر تھا کہیں وہ یہ تصویر اخبار میں شائع نہ کرادیں کہ بابا بھی "انصافی”ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تصویر کا باب کھلا تو بابا جی نے اظہار تاسف کیا کہ مجھے دو مواقع پر تصویر نہ بنانے کا افسوس ہے ۔۔۔۔ایک دفعہ میں بھارت گیا تو امرتا پریتم کو فون کیا کہ ایک چھوٹا سا شاعر آپ سے ملنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ میں جانتی ہوں کہ تو کتنا چھوٹا سا شاعر ہے۔۔۔۔۔۔پھر کہا کچھ مہمان ہیں شام کو آ جائیں۔۔۔۔۔میں گیا تو وہ رضائی میں گھسی بیٹھی تھیں ۔۔۔۔۔ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ان کے شوہر امروز آگئے ۔۔۔۔تپاک سے ملے اور کہنے لگے کہ آپ گپ شپ کریں میں آپ لوگوں کے لیے چائے بنا کر لاتا ہوں۔۔۔۔۔پھر وہ مزیدار سی چائے بنا لائے اور سب نے ایک ساتھ بیٹھ کر پی۔۔۔۔۔امرتا نے اپنی کتاب پر میرا درج ذیل شعر لکھ کر مجھے تحفے کے طور پر پیش کی:
شیشے اتے توڑاں جمیاں ۔۔کندھاں جھاڑی جاندے نیں
جلداں سانبھ رہے نیں جھلے۔۔ ورقے پاڑی جاندے نیں

بابا جی نے دکھ بھرے لہجے بتایا کہ اس وقت کراچی سے تعلق رکھنے والے میرے ہمسفر کے پاس کیمرا تھا لیکن اس "کم ظرف "نے مجھے تصویر نہیں بنانے دی۔۔۔۔۔۔یہ صدمہ کبھی نہیں بھولے گا۔۔۔۔۔۔۔کہنے لگے دوسری مرتبہ الحمرا میں حبیب جالب کی برسی کے حوالے سے تقریب تھی۔۔۔۔۔نصرت فتح علی خان بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔۔۔۔۔پروگرام ختم ہوا تو گروپ فوٹو بن رہے تھے۔۔۔۔۔دوستوں نے مجھے بھی کہا بابا آپ بھی تصویر بنوالیں۔۔۔۔میری ان سے اتنی علیک سلیک نہیں تھیں۔۔۔۔میں جھجک گیا کہ عجیب لگے گا۔۔۔۔اب یہ تصویر بھی نہ بنوانے کا افسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
پنجابی کے بڑے شاعر بابا نجمی اپنی دھن میں اپنے اشعار اور آپ بیتیاں سنائے جا رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ واقعی بڑے شاعر اور ادیب ہر عہد کا "درد” لکھ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔انیس چورانوے سے دو ہزار تئیس۔۔۔۔۔کم و بیش یہ تیس برس کا قصہ ہے۔۔۔۔لیکن ان تین دہائیوں میں پیپلزپارٹی،مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن کچھ بھی نہیں بدلا۔۔۔۔بلاول تب گود تھے اب وزیر خارجہ ہیں۔۔۔۔شہباز شریف وزیر اعلی ہوا کرتے تھے، وزیر اعظم ہوگئے ہیں۔۔۔۔عوام کے "مقدر” میں وہی بھوک ننگ ہے۔۔۔۔۔عوام آدمی آج بھی روٹی کے پیچھے” ہانپ”رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔بقول حبیب جالب دن بدلے ہیں فقط وزیروں کے۔۔۔…..۔۔۔۔۔وہی
” نوحہ” جو برسوں پہلے بابا جی نے کہا کہ "چنگیر روٹی روٹی کر رہی”اور "ڈوئی” حسرت سے "ہانڈی” کی طرف دیکھ رہی ہے”۔۔۔۔۔!!!

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button