پیر مشتاق رضویکالمز

پاکستان ایک عظیم سپوت !..میجر شبیر شریف شہید …..پیر مشتاق رضوی

میجر شبیر شریف 28 اپریل 1943ء کو گجرات میں پیدا ہوئے، انہوں نے 21 سال کی عمر میں 1964 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی، میجر شبیر شریف شہید پاکستان کے سابق سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے بھائی تھے

1971ء کی پاک ھارت جنگ میں دشمن بھارت کے دانت کھٹے کرنے والے میجر شبیر شریف شہید کا آج 81 واں یوم ولادت منایا جارہا ہے۔ میجر شریف شہید وہ واحد شخصیت ہیں جنھیں نشان حیدر اور ستارہ جرات سے نواز گیا ۔ پاک وطن کے چپے چپے کی حفاظت اور دشمن کے عزائم خاک میں ملانا پاک فوج کے ہر سپاہی کا نصب العین ہے،
میجر شبیر شریف 28 اپریل 1943ء کو گجرات میں پیدا ہوئے، انہوں نے 21 سال کی عمر میں 1964 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی، میجر شبیر شریف شہید پاکستان کے سابق سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے بھائی تھے آپ پاکستان کا وہ واحد عظیم سپوت ہیں جنہیں "نشان حیدر” کیساتھ ساتھ بیک وقت ایک اور عظیم ترین اعزاز”ستارہ جرآت سے بھی نوازا گیا ۔۔
میجر شبیر شریف شہید
28 اپریل 1943ء کو ضلع گجرات کے قصبہ کنجاہ میں پیدا ہوئے، انہوں نے لاہور کے سینٹ انتھونی اسکول سے او لیول کا امتحان پاس کیا۔گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم انہیں پاکستان کی سب سے بڑی فوجی درسگاہ کاکول سے آرمی میں شمولیت کا اجازت نامہ ملا۔کیڈٹ کے طور پر فوج میں بھرتی ہو جانے کے بعد ان کو ملٹری اکیڈمی کاکول بھیج دیا گیا۔ یہاں سے 1965ء میں انہوں نے کمیشن حاصل کیا۔ 1970ء میں ان کی شادی ایور شائن پینٹس کے ڈائریکٹر میاں محمد افضل کی صاحب زادی کے ساتھ ہو گئی جن کا نام روبینہ بیگم تھا۔ان کی بیگم محترمہ روبینہ شریف ہوم اکنامکس میں بی اے پاس تھیں۔ ان سے میجر شبیر شریف کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام میجر صاحب نے تیمور شریف رکھا۔
فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد میجر شبیر شریف شہید نمبر 6 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات ہوئے۔ آپ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کے بھتیجے تھے میجر راجہ عزیز بھٹی شہید (نشانِ حیدر) کے بعد یہ دوسرے فوجی تھے جنہوں نے پاسنگ آٹ پریڈ کے موقع پر شمشیر اعزاز یعنی سوارڈ آف آنر حاصل کی۔پاک فوج میں رہتے ہوئے انہوں نے بہت کم عرصے کے دوران مختلف فوجی کورسز پاس کئے جن میں ویپنز کورس، انٹیلیجنس کورس اور پیراشوٹ کورس شامل تھے۔اگلے کئی برس تک میجر شبیر شریف فوج کے مختلف شعبہ جات میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1965ء میں جب بھارت نے پاکستان پر جارحانہ حملہ کیا تو پاک فوج کے جانبازوں میں میجر شبیر شریف بھی شامل تھے۔
اس وقت آپ سیکنڈ لیفٹنینٹ کے عہدے پر تھے اور ان کو ایک کمپنی کی کمان دے کر کشمیر کے محاذ پر بھیجا گیا تھا۔ ستمبر 1965 کو پاکستانی فوج کے کچھ دستوں کو شدید گھمسان کی جنگ لڑنا پڑی۔ یہ جنگ جوڑیاں کے محاذ پر ہوئی اس جنگ میں میجر شبیر شریف شہید نے بے مثال بہادری اور کارناموں کی تاریخ رقم کی
میجر شبیر شریف شہید 3دسمبر1971ء کو ہیڈسلیمانکی سکیٹر میں فرنٹئیر رجمنٹ کی ایک کمپنی کی کمانڈ کر رہے تھے اور انہیں ایک اونچے بند پر قبضہ کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا تھا۔
شبیر شریف 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں حویلی لکھا کے سرحدی علاقہ سلیمانکی ہیڈ ورکس کے قریب 6 ایف ایف کی ایک کمپنی کی کمانڈ کر رہے تھے، انہیں 3 دسمبر 1971ء کو انڈیا کے علاقے میں سبونہ بند پر قبضہ کرنے کی مہم سونپی گئی۔دشمن نے دفاع کیلئے آسام رجمنٹ کی ایک کمپنی سے زیادہ نفری تعینات کر رکھی تھی جسے ٹینکوں کی ایک سکواڈرن کی امداد حاصل تھی، اس پوزیشن تک پہنچنے کیلئے دشمن کی بارودی سرنگیں اور پھر نہر سبونہ کے پل کو پار کرنا تھا جس پر دشمن کی مشین گنیں نصب تھیں۔گھمسان کے اس معرکے میں میجر شبیر شریف نے مرادنہ وار مقابلہ کیا اور دشمن کے 43 سپاہی مار دیئے اور 38 قیدی بنا لئے گئے۔ چار ٹینک بھی تباہ کئے تھے
دسمبر 1971ء کی جنگ میں بھی بھارت نے مغربی محاذ پر بری طرح منہ کی کھائی۔
3 دسمبر کو جب بھارت نے مغربی پاکستان پر حملہ کیا تو میجر شبیر شریف شہید کو حکم ملا کہ وہ مسلسل پیش قدمی کریں اور متعلقہ محاذ پر دشمن کو واپس اس کی سرحدوں میں دھکیل دیں۔اس جنگ میں میجر شبیر شریف شہید نے بیری والا اور گورمکھڑا کے محاذ پر وطن کا دفاع کرتے ہوئے اپنے فوجی دستوں کی ایسے کمان سنبھالی کہ ان کی بہادری کی داستانیں آج بھی پاک فوج میں زبان زدِ عام ہیں۔میجر شبیر شریف کو اس پوزیشن تک پہنچنے کے لیے پہلے دشمن کی بارودی سرنگوں کے علاقے سے گزرنا اور پھر 100 فٹ چوڑی اور 18 فٹ گہری ایک دفاعی نہر کو تیر کر عبور کرنا تھا، دشمن کے توپ خانے کی شدید گولہ باری کے باوجود میجر شبیر شریف نے یہ مشکل مرحلہ طے کیا اور دشمن پر سامنے سے ٹوٹ پڑے۔3 دسمبر 1971ء کی شام تک دشمن کو اس کی قلعہ بندیوں سے باہر نکال دیا، 6 دسمبر کی دوپہر کو دشمن کے ایک اور حملے کا بہادری سے دفاع کرتے ہوئے میجر شبیر شریف اپنے توپچی کی اینٹی ائیر کرافٹ گن سے دشمن ٹینکوں پر گولہ باری کر رہے تھے ۔ اس دوران انہوں نے دشمن فوجیوں اور ٹینکوں کو بھاری نقصان پہنچایا اور
6 دسمبر 1971ء کو ملک اور قوم کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔شہادت سے پہلے شدید زخمی حالت میں انہوں نےساتھیوں کو پیغام دیا کہ
"دشمن کی شکست قریب ہے۔ ڈٹے رہو”
پاکستانی فوج کے لیے ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں انہیں پاکستان کے اعلی ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button