حافظ شفیق الرحمنکالمز

مشنری تعلیمی ادارے:برطانوی استعمارکی باقیات …. حافظ شفیق الرحمن

صدرِ مملکت اسے بیک جنبشِ لب جائز قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کے بے دھڑک حامی ہیں۔۔۔اور غالباً سب سے بڑے حامی۔۔۔ان کے نزدیک ان مشنری اداروں نے معاشرے اور مملکت کی”کافی خدمت“کی ہے

آج کل ملک کے طول و عرض میں نیشنلائزڈ مشنری تعلیمی ادروں کی ڈی نیشنلائزیشن کا چرچا ہے۔ صدرِ مملکت اسے بیک جنبشِ لب جائز قرار دیتے ہیں۔ وہ اس کے بے دھڑک حامی ہیں۔۔۔اور غالباً سب سے بڑے حامی۔۔۔ان کے نزدیک ان مشنری اداروں نے معاشرے اور مملکت کی”کافی خدمت“کی ہے۔ البتہ اس ”کافی خدمت“کی انہوں نے کبھی تشریح و توضیح نہےں کی۔ جرنیل شاہی کے اقتدارِ پائیدار کی طرح وہ وطن عزیز کی بقا، استحکام اور سلامتی کیلئے مشنری اداروں کے وجود ِمسعود کی استواری و برقراری کو بھی ناگزیر جانتے ہےں۔ مشنری اداروں کے بارے صدرمملکت کے فرمانِ عالی شان کو باخبر حلقے سوفیصد درست تسلیم نہیں کرتے۔ ویسے بھی ان حلقوں کے نردیک صدر مملکت کے اکثر فرمان ایل ایف اوکی طرح حقائق اور عوام کی تائید و توثیق سے محروم ہےں۔۔۔ہوتے رہےں۔۔۔ان کی بلا سے۔۔۔ایک باوردی صدر کا عوام اور حقائق سے کیا ناطہ؟۔۔۔عوام، حقائق اور سیاستدان باوردی صدور کے نزدیک کبھی لائقِ اعتناءنہیں ہواکرتے۔ وہ ان کی تائید، تردید اورتوثیق کو آئین کی طرح بے وقعت، بے مایہ اور بے توقیر جانتے ہیں۔
ایف سی کالج سمیت کئی دیگر اداروں کے ہزاروںطلبا و طالبات اور سینکڑوں اساتذہ غیر منتخب فوجی حکومت کے ڈی نیشنلائزیشن کے ناپسندیدہ اقدام کیخلا ف کئی ماہ تک مختلف انداز میںسراپا احتجاج رہے۔ حکومت نے اس جائز احتجاج کی رتی بھر پروا نہ کی اور امریکی دباﺅ کے تحت اسے ریاستی مشینری کا بے تحاشا استعمال کرکے دبا دیا۔ اس دوران ایف سی کالج کو امریکنائز اور کرسچنائز کرنے کے اقدامات کیخلاف احتجاج کرنے والوں کیخلاف پولیس نے اسی طرح کارروائی کی جس طرح مہمند، وزیرستان اور وانا آپریشن کے دوران پولیٹیکل انتظامیہ نے ایف بی آئی کی زیر قیادت قبائلی عوام کو تختہ مشق ستم بنایا تھا۔آخر ایف سی کالج بھی ایک دن اسی طرح طشتری میں رکھ کرایک امریکی مشنری ادارے کو تحفتاً پیش کردیا گیا جس طرح ”دہشت گردی“کے خلاف ”بین الاقوامی جنگ“کے دوران کئی پاکستانی ائر بیس امریکی فوجیوں کی تحویل میں”ازرہِ مروت“ دے دیئے گئے تھے۔
حکومتی اقدام کے منفی و مثبت اثرات ونتائج سے قطع نظر، آیئے! برصغیر میںبرطانوی استعماری مشنری اداروں کی تاریخ اور کردارکا ایک اجمالی سا جائزہ لیتے ہیں:
”شروع شروع میں ایسٹ انڈیاکمپنی کی حکومت مشنریوں کو ایک ”نیو سنس“ سمجھتی تھی۔ سیرام پورہ میں بپٹسٹ مشن کی طرف سے شائع ہونیوالا انتہائی دلآزار لٹریچر پہلے فورٹ ولیم میں سنسر کیا جاتا تھا کہ ابھی ہندوستان میں مسیحی مشن کو یونین جیک کی سرپرستی حاصل نہیں ہوثی تھی۔ لارڈ منٹو نے سیرام پورہ کے لٹریچر کے متعلق کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو مطلع کیا تھاکہ وہ ہندوﺅں کیلئے بے حد اشتعال انگیز ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے جواب میں مشہور مشنری ڈاکٹرمارش مین نے لکھا تھا:
”ہندوستانی انتہائی کمزور اور احمق کردارکا مالک ہے اوراس کمزوری کی وجہ سے ہمیشہ کسی نہ کسی قوم کا محکوم رہے گا اور اس کے اس بودے پن کو عیسا ئیت بھی دور نہیں کرسکتی۔۔۔لیکن برطانیہ کے زیر سایہ زندہ رہنا اس کیلئے برکتِ الٰہی کا موجب ہے۔ اس وجہ سے جو ہندو یا محمڈن عیسائی ہوجائے وہ اپنے تحفظ کی خاطر برطانیہ کا انتہائی وفادار ثابت ہوگا کیونکہ اس ایمپائر کی سلامتی اور توسیع پر اس کے وجود کا انحصار ہے۔
(ص 52”آخر شب کے ہمسفر“ قرة العین حیدر)
”ان مشنریوں نے کالے مبلغ اورپادری تیار کئے۔ 1857کے بعد عیسائیت کو حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہو چکا تھا۔ کالا پادری چوراہوں اورسڑکوں پر تبلیغ کرتا پھر رہا تھا اورمولویوں سے مناظرے کر رہا تھا۔
سری رام کرشن کے چیلے اور سوانح نگار مہندر ناتھ گپتا نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ایک مرتبہ انہوں نے مائیکل مدھو سودن سے دریافت کیا:
وہ عیسائی کیوں ہوئے؟
انہوں نے پیٹ پرہاتھ رکھ کرکہا
”اس کی خاطر“۔
(ص53ایضاً)
”رام موہن رائے نے 1818ءمیں ہندو کالج قائم کیا، اس کے طلباءاپنے مذہب سے برگشتہ ہوتے جا رہے تھے۔ متعدد انگریزی تعلیم یافتہ برہمن خاندان عیسائی ہو گئے۔ ان کے نزدیک عیسائیت ایک فاتح، عقلیت پرست، حیرت انگیز، شاندار قوم کا بڑا معقول مذہب تھا ۔نئے بنگالی مصلحین، ہندو، برہمو، عیسائی سبھی انگریز کے حامی تھے، جو اس اندھیرے ملک میں نئی روشنی پھیلا رہا تھا۔۔۔صرف بنگالی مسلمان، جنہیں انگریز نے کچل دیا تھا اور جو اس کے باوجود مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو کر اس سے لڑے جا رہے تھے، انگریزی دور اور انگریزی تعلیم کے دشمن تھے“
(ص53ایضاً)
نئی تعلیم ، نئے مذہب، نئی دنیا، نئی حکومت اور نئی تہذیب کے ان نوگرفتاروں اور پرستاروں کے بارے نئے آقاﺅں کے حقیقی خیالات کیا تھے؟ یہ جاننے کیلئے یہ ایک شہادت ہی کافی ہے جو انیسویں صدی کے آخر میں ایک طنز نگار نے انڈین ایمپائر کے متعلق ایک کتاب میں لکھی ہے۔ کتاب کا نام ”سرعلی کا سفرنامہ“ ہے۔ طنز نگار تضحیک و تعریض کے ملے جلے پیرائے میں لکھتا ہے:
”ہم بابو ازم کو ایمپائر میں کتنا ہی فروغ دیں، بابو کے وجود پر ہمیں آنسو بہاناچاہئیں کہ بابو سخت قابل ِرحم شے ہے۔ یہ بابو نئے مذہب، نئی موسیقی، آرٹ اور سائنس سے خوب پیٹ بھر کر جب موٹاہو جائے گاتو ایسی دولتی جھاڑے گا کہ اس کا مذاق اڑانا بھول جائیں گے۔ اس کے پیٹنٹ لیدر جوتے، اس کی ریشمی چھتری، اس کے دس ہزار پاور کے انگریزی الفاظ اور جملے اس کی مغربی خیالات کی جگالی۔۔۔یہ سب ایک روز بے حد خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ سائنس، مغربی فلسفے اور مشنریوں نے اس کے دماغ کواتنا چکاچوند کر دیا ہے کہ اب اس کا پرانی حیثیت پر واپس جانا مشکل ہے۔“
یہ ”نومسیحی“ دیسی عیسائی کہلائے۔ ان کامحبوب ہیرو بشپ ہیبر تھا۔ انگلستان سے آیا ہوایہ پادری پورے بنگال کو تن تنہا کرسچنائز کرنے کے جنونی مشن کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے ڈھاکہ پہنچا۔ بشپ ہیبر 1825ءکے بعد سری لنکا پہنچا۔ سری لنکا کا جزیرہ سمندر کے دامن میں فطرت کی آنکھ سے ٹپکا ہوا ایک خشک آنسو ہے۔ ہیبر اس جزیرے میں عیسائیت کے فروغ کے امکانات کا جائزہ لینے پہنچا۔ یہاں اسے فروغ عیسائیت کے امکانات کا مطلع خاص روشن دکھائی دیا۔ ایک انتھک اور رجائی باہمت کسان کی طرح اس نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا۔۔۔اور۔۔۔پھر سر جھکا کر اس بے آباد زمین کے سینے کو تبلیغ کے ہل سے ہموار کرنا شروع کیا۔ اس کی ”تخم ریزی، آبیاری اور کاشتکاری“ دیکھتی آنکھوںبرگ و بار لائی۔ سری لنکا میں مشنری سکولوں کی داغ بیل ڈال دی گئی۔
یہ اسکول محض اسکول نہ تھے بلکہ انہیں ایک کثیر المقاصد پروجیکٹ کے طور پر متعارف کرایا جا رہا تھا۔
بشپ ہیبر اوراس کے پیش رو اور پس رو مشنریوں کو بالتدریج ایسٹ انڈیا کمپنی اور توسیع پسند سامراج برطانیہ کی مکمل آشیرباد حاصل رہی۔ مقامی آبادی تک روحانی نجات کا پیغام وسیع پیمانے پر پہنچانے کیلئے انہوں نے چھاپہ خانے قائم کئے، تبلیغی لٹریچر شائع کیا، مشن کمپاﺅنڈ متعارف کروائے، چرچ تعمیر کئے، ان چرچوں کو عوامی توجہات کا مرکز بنانے کیلئے ان کے آس پاس مشنری سکولوں کی زنجیر بُن دی۔
ان اسکولوں میں صبح سویرے بائبل سے سرمن پڑھا جاتا اور بچوں کے جذبات اور مذاہب کی پروا کئے بغیر انہیں یہ سرمن سننے پر مجبور کیا جاتا۔ فروغ عیسائیت کے ہدف کے پیش نظر شفاخانے اُسارے گئے، جہاں ہر مریض کے سرہانے انجیل کا نسخہ رکھا جاتا۔ بنیاد پرست عیسائی نرسیں بیماروں کا دل جیتنے کیلئے ہر قسم کے ”ایثار“ کیلئے تیار رہتیں۔ ہندو سماج کے پرت در پرت طبقاتی نظام کے ستائے شودر ان مشنریوں کے ہتھے چڑھ کر یہ سمجھتے کہ اب شاید انہیں نئے آقا ”عزت کی مسند“ پر بٹھا دیں گے، ان کی توقعات کے برعکس گوری چمڑی والے پادری اور ان کے ہم مذہب ”صاحب لوگ“ بھی انہیںکالٹیئن، چمریشین اور پپلی صاحب کہہ کر پکارتے۔۔۔عزت کی تلاش میں جو شودر حلقہ بگوش عیسائیت ہوئے، مذہب کی تبدیلی بھی ان کے دکھوں کا مداوا، زخموں کا مرہم اور درد کا درماں نہ بن سکی۔
وہ پہلے خاک نشین تھے۔۔۔”پرموٹ“ہوئے تو ”خاکروب“ بن گئے ،ان کی طرح طرح سے تذلیل کی گئی ، نئے عیسائی سماج میں بھی انہےں درجہ چہارم کا شہری گردانا گیا،گورا صاحب بہادر ان سے ہاتھ ملانے سے قبل ہاتھوں پردستانے چڑھاتا، ہاتھ ملا چکتا تو فوراً بعد ٹائیلٹ سوپ سے رگڑ رگڑ کر دھوتا اور بار بار سونگھتا، پہروںاس کا دل متلاتا رہتا۔۔۔جبکہ۔۔۔مفادات کیلئے کرسچین بن جانیوالے اونچی ذات کے برہمن بابو، رائے بہادر اور سر کہلاتے۔۔۔اور انہےں ان کے دفتروں اوردرباروں میں کرسی پیش کی جاتی۔
یہ ایک ناقابل تردید سچ ہے کہ برصغیر میں مذہبی مناظروں کی بنیاد ان نومسیحی جوشیلے پادریوں نے رکھی جنہیں برطانوی صلیبی سامراج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ بازار ی مقاتلوں کے علمبرداروں نے بعدازاں درآمدی مشنری پادریوں کے توسط سے بازاری مناظروں کی ”بدعت“ کی ترویج کا بینر لہرا دیا۔ اس سے قبل برصغیر میں بین المذاہب بازاری مناظروں کا کوئی رواج اور روایت سرے سے موجود نہ تھی۔ ان مناظروں کے انعقاد کیلئے طے شدہ حکومتی حکمت عملی کے تحت چوکوں، بازاروں، میدانوں اور پبلک مقامات کا انتخاب کیا جاتا۔ یونین جیک کی حکومت کے ابتدائی دور میں جب چار سے زیادہ مقامی اور دیسی شہری کسی مقام پر اکٹھے ہوتے تو مقامی بدیسی انتظامیہ نقص امن عامہ کے خدشہ کے تحت انہیں یکدم گرفتار کر کے کالے پانی کے جزیرے میں محبوس کر دیتی۔ عیسائی پادری حکومتی شہ پرمسلمانوں اور ہندوﺅں کے دینی اور مذہبی رہنماﺅں کو انتہائی دل آزارانہ، مضحکانہ اور تمسخرنہ انداز میں چیلنج کرتے اور جا بجا مجمعے لگاتے اور قانون پڑا سوتا رہتا۔
آج دنیا بھر میں اسلام اور اسلامی تعلیم کے فروغ کے اداروں کے ساتھ ادنیٰ لگاﺅ رکھنے والے مسلمانوں کو بنیاد پرست، انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دینے والے حکمرانوں کو فرصت ملے تو برصغیر میں مشنری اداروں کی برطانوی سرپرستی کی تاریخ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں۔۔۔آخر کوئی تو وجہ ہے کہ آزادی سے قبل ان اداروں کی سرپرستی برطانوی سامراج کر رہا تھا تو اب ان کا مربی امریکی استعمار بن چکا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button