
اسرائیل ’الاقصیٰ‘ کا انچارج ہے؛ دائیں بازو کے انتہاپسند صہیونی وزیر کا شرانگیز دعویٰ
صہیونی وزیر کا اشتعال انگیز بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ہی یہودی نوجوانوں کے ایک گروپ نے القدس کے شہرِقدیم میں قوم پرستوں کے مارچ کے دوران میں فلسطینیوں کے ساتھ دھینگا مشتی کی تھی اور نسل پرستانہ نعرے لگائے تھے۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے سکیورٹی وزیر ایتمار بن غفیر نے اتوار کے روز مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں واقع مسلمانوں اور یہود، دونوں کے لیے مقدس مقام مسجد الاقصیٰ کا ایک اور متنازع دورہ کیا ہے اوروہاں شرانگیز بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل اس کا’انچارج‘ہے جبکہ فلسطینیوں نے صہیونی وزیرکی اس شرانگیزحرکت کی مذمت کی ہے۔
صہیونی وزیر کا اشتعال انگیز بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ہی یہودی نوجوانوں کے ایک گروپ نے القدس کے شہرِقدیم میں قوم پرستوں کے مارچ کے دوران میں فلسطینیوں کے ساتھ دھینگا مشتی کی تھی اور نسل پرستانہ نعرے لگائے تھے۔
بن غفیر نے کہا:’’مجھے ٹیمپل ماؤنٹ پر چڑھنے کی خوشی ہے۔ یہ اسرائیلی عوام کے لیے سب سے اہم جگہ ہے‘‘۔انھوں نے کہا:’’حماس کی طرف سے تمام دھمکیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہم یروشلم اور اسرائیل کی پوری سرزمین کے انچارج ہیں‘‘۔
یہود انتہائی حساس مسجد الاقصیٰ کو ٹیمپل ماؤنٹ اور اپنے لیے مقدس ترین جگہ قرار دیتے ہیں ، جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین ہزار سال قبل پہلا ہیکل تعمیر کیا تھا اور جہاں رومیوں نے ایک دوسرے ہیکل کو مسمار کردیا تھا۔ پہاڑی مقام پر واقع اس جگہ پراسلام کی تیسری مقدس ترین اور قبلۂ اوّل مسجد الاقصیٰ ہے۔ اس کے احاطے میں چٹان کے ساتھ ہی وہ سنہرا گنبد (صخرہ) واقع ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سفرمعراج کے دوران میں آسمان کی طرف روانہ ہوئے تھے۔
’’جوں کے توں‘‘ (اسٹیٹس کو) انتظامات کے تحت اردن مقبوضہ بیت المقدس میں مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات کا انچارج ہے اوراس انتظام کے تحت غیر مسلم پرانے شہر کے وسط میں واقع اس مقام مسجد الاقصیٰ میں جا تو سکتے ہیں لیکن انھیں عبادت کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم یہودی زائرین کم و بیش روزانہ کھلے عام اس پابندی کی خلاف ورزی کرتے نظرآتے ہیں۔
فلسطینی انتہا پسند یہودکی جانب سے آئے دن اس پابندی کی خلاف ورزی کو اشتعال انگیزی سمجھتے ہیں اور انھیں خدشہ ہے کہ اسرائیل اس مقام پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
دریں اثناء فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے صحن میں چوروں کی طرح بن غفیرکی دراندازی سے حقیقت تبدیل نہیں ہوگی اور نہ ہی اس پر اسرائیل کی خودمختاری مسلط کی جائے گی۔
حماس کے ایک ترجمان نے بھی کہا کہ اسرائیل کو مسجد اقصیٰ پر بن غفیر کے ’’وحشیانہ اوراشتعال انگیز‘‘ حملے کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔انھوں نے فلسطینیوں پرزوردیا ہے کہ وہ مسجد میں اپنی آمد کا سلسلہ تیز کردیں اوراسے ناپاک کرنے اور یہودی بنانے کی تمام کوششوں کا مقابلہ کریں۔
یادرہے کہ اسرائیل نے سنہ1967ء کی مشرق اوسط کی جنگ میں یروشلم کے قدیم شہر(مشرقی حصے) پر قبضہ کر لیا تھا۔اس میں مسجد الاقصیٰ اور اس سے ملحقہ مغربی دیوار شامل ہے، جو یہودیوں کے لیے عبادت کی مقدس جگہ ہے۔
اس کے بعد اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس کو صہیونی ریاست میں ضم کرلیا تھا لیکن بین الاقوامی برادری اس کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کرتی۔اسرائیل پورے شہر کو اپنا ابدی اور غیر منقسم دارالحکومت قراردیتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو اپنی مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست کا دارالحکومت بنانے چاہتے ہیں۔