
چترال کے علاقے بیستی کے عوام کا زمرد کے کان کی لیز ہولڈر کے احتجاج، ہمیں لیز ہولڈر کے ظلم اور غنڈہ گردی سے نجات دی جایے مظاہرین کی دوہائی۔
انہوں نے جلسہ عام میں کہا کہ ابھی تک لیز ہولڈر نے یہاں سے تقریبا ایک ارب روپے کا زمرد اور قیمتی پتھر ، معدنیات نکال چکے ہیں مگر وہ یہ مال رات کے اندھیرے میں لے جاتا ہے تاکہ اس کا کوی چییکنگ نہ کرے
چترال پاکستان(نمائندہ وائس آف جرمنی گل حماد فاروقی): چترال کے علاقے بیستی کے عوام نےلیز ہولڈر کے ظالمانہ رویے کے حلاف اختجاجی جلسہ کرتے ہویے بیستی کا سڑک بلاک کیا اور احتجاج کے طور پر دھرنا بھی دیا۔ بیستی کے میں چوک میں اس اختجاجی جلسے کی صدارت مرزا خان کرہے تھے جو تین مرتبہ اس علاقے سے منتحب ہوچکے ہیں۔ جلسہ سے خطاب کرتے ہویے مقررین نے کہا کہ بیستی کے پہاڑوں میں زمرد کے قیمتی پتھروں اور دیگر معدنیات کے ذحایر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران نامی ایک غیر مقامی شحص نے انوار الدین کے ساتھ مل کر اس کا لیز لیا ہوا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ محکمہ معدنیات سے جو بیستی کے کان یعنی پہاڑ کا لیز لیا ہوا ہے وہ کسی کمزور معدنیات کے نام پر ہے مگر یہاں قیمتی معدنیات جیسے زمرد وغیرہ نکلتی ہے۔ انہوں نے جلسہ عام میں کہا کہ ابھی تک لیز ہولڈر نے یہاں سے تقریبا ایک ارب روپے کا زمرد اور قیمتی پتھر ، معدنیات نکال چکے ہیں مگر وہ یہ مال رات کے اندھیرے میں لے جاتا ہے تاکہ اس کا کوی چییکنگ نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ لیز ہولڈر عمران اور انورا لدین بیستی بالا کے اکتالیس گھرانوں کو رایلٹی اور سروس چارجز کے مد میں سالانہ کروڑوں روپے دیتے ہیں حالانکہ ان لوگوں کے مال بردار گاڑیاں سات کلومیٹر تک بیستی پایین کے اندر سے سڑک اور لوگوں کے گھروں سے گزرتی ہیں انہوں نے کہا کہ یہ ایک دیہی سڑک ہے جسے علاقے کے عوام نے اپنی مدد اپ کے تحت بنایا تھا۔انہوں نے کہا کہ مروجہ قوانین کے مطابق جس علاقے میں کوی قدرتی ذحایر یا وسایل ہو جیسے معدنیات، قیمتی پتھر، پانی، جنگلی حیات، جنگلات وغیرہ وہاں کے مقامی لوگوں کو رایلٹی دی جاتی ہے اور سروس چارجز کے مد میں ان کو بھی وہاں سے ہونے والی امدنی میں حصہ ملتی ہے۔مگر مذکورہ لیز ہولڈر ہمیں اپنے جایز حق سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے گاوں کے نوجوانوں کو مزدوری کیلیے بھی نہیں بلاتے اور اس نے غیر مقامی مزدوروں کو یہاں لایا ہے جس کی وجہ سے ہماری چادر اور چاردیواری کی تقدس پامال ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چترال ایک عورت اباد ضلع ہے جہاں مال مویشی پالنا اور ان کیلیے چارہ لانے کا کام اکثر خواتین کرتی ہیں مگر ان غیر مقامی مزدوروں کی موجودگی کی وجہ سے یہاں کے خواتین اپنے مال مویشی بھی اپنے کھیتوں میں نہیں لے جاسکتی اور کاثر لوگوں نے مجبورا اپنی مال مویشی اونے پونے دام پر فروخت کیا۔
انہوں نے کہا کہ لیز ہولڈر کے گاڑیاں جب یہ قیمتی معدنیات اور پتھر لاتی ہیں تو ہماری ماییں بہنیں اکثر اپنی مال مویشی کو بچانے کی حاطر کسی دوسرے کے کھیتوں مِیں گھس جاتی ہیں کیونکہ وہ نہایت بے احتیاطی اور لاپرواہی سے گاڑی چلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ ایک سینکچوری علاقہ ہے جہاں ای بیکس، مارخور، تیتر، اور قومی پرندہ چکور اپنی نسل بڑھاتے ہیں پاکستان کے مروجہ قوانین کے مطابق پروٹیکٹڈ ایریا میں کسی کو بلاسٹنگ کرنے یا اس قسم کی سرگرمیوں کیلیے این او سی دینا سراسر غیر قانونی بلکہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔مگر ان لوگوں کو محکمہ جنگلی حیات اور معدنیات وغیرہ نے این او سی دیا ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان لوگوں کی امد کے بعد ان قیمتی پتھروں کو پہاڑ یعنی کان سے نکالنے کیلیے بارود سے دھماکہ کرواتے ہیں جس کی وجہ سے یہ حسین اور جنگلی جانور اور پرندے یہاں سے غایب ہوچکے ہیں۔ جبکہ ماضی میں یہاں انگریز لوگ اکر ای بیکس کا ہنٹنگ ٹرافی کے تحت باقاعدہ شکار کرتے تھے جس سے اس پسماندہ علاقے کو کروڑوں روپے کی امدنی ہوا کرتی تھی۔ مگر اب یہ جنگلی حیات یہاں سے غایب ہوچکے ہیں اور وہ پڑوسی ملک افغانستان کو ہجرت کرچکے ہیں جو ہمارے سرحد پر واقع ہے۔ جس کی وجہ سے اس علاقے کی حسن اور قدرتی نیچر کو سخت نقصان پہنچا ہےاور اس علاقے کی حسن ناپید ہوچکی ہے۔
مقررین نے کہا کہ کمر توڑ مہنگای کی وجہ سے یہاں کے لوگ انتہای مشکل حالات میں زندگی کے تلخ دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ جب یہ لیز ہولڈر ہماری غاریوں یعنی چراہ گاہوں میں اگیے تو ان کی امد کی وجہ سے ہماری خواتین ان چراہ گاہوں میں جانے سے محروم ہوگیے کیونکہ ہمیں عزت کا مسلہ درپیش ہوا اب ہم ان کی وجہ سے مجبور ہوکر اپنا مال مویشی بھی بیچ دیے۔ مگر بدقسمتی سے ان کے ساتھ روابط رکھنے کی وجہ سے بستی پایین اور سفید ارکاری کے لوگوں کو سروس چارجز سے محروم رکھا ہوا ہے جو کہ ایک اخلاقی جرم بھی ہے۔ مقررین نے کہا کہ یہ لیز ہولڈر نہایت غیر ساینسی اور غیر تیکنیکی طریقے سے زمرد اور دیگر قیمتی پتھر اور معدنیات کو پہاڑ یعنی کان سے بلاسٹنگ کرکے نکال رہے ہیں جس کی وجہ سے گلیشیر بھی گررہے ہیں اور اس کے باعث یہاں سالانہ دریا میں طغیانی اور سیلاب کی وجہ سے فصلیں، زیر کاشت زمین، پھلدار درختو ں کے باغآت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام پانیوں کے بیچ گلیشیر یعنی برفانی تودے ہیں جن کو گرایے جاتے ہیں اگر یہ عمل جاری رہا تو چند سالوں میں بیستی کا ذرحیز علاقہ بنجر ہوکر رہ جایے گا اور نتیجے کے طور پر یہاں کے لوگ مزید یہاں زندگی نہیں گزار سکیں گے اور وہ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ماضی مِیں ہر سال غیر ملکی شکاری یہان اکر ای بکس کا شکار کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے لوگوں کو بھاری رقم ملتے تھے مگر ان لوگوں کی امد سے یہ تمام چیزیں یہاں سے ناپید ہوگیے۔ علاقے کا ایک اہم قدرتی حسن تباہ ہوگیا جس کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس علاقے پر نہایت منفی اثرات پڑتے ہین۔
یہاں گلیشیر کے درمیان محتلف قسم کے واش روم بنایے گیے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے پینے کا پانی نہایت گندہ ہوچکی ہے اور ساتھ یہاں محتلف بارود اور زہریلی گیس اور کیمیکل بھاری مقدار میں استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے یہاں کا ماحول نہایت گندہ ہوچکی ہے۔اور ساتھ ہی انسانی صحت بھی گرتی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری کیی حیوانات ہر سال محتلف امراض کے شکار ہوکر مرنے پر مجبور ہوگیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ یہ لوگ یہاں سرنگ یعنی ٹنل بنارہے ہیں اس سال یہاں محتلف اٹھ ٹنل بنایے جاچکے ہیں۔ حدشہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں یوریا اور ڈی اے پی بڑے مقدار میں سٹاک کیا جارہا ہے جونہی سات ٹنل کو بارود اور ڈی اے پی دیگر بارود سے بھر کر ایک بہت بڑا دھماکہ کرنے کا امکان ہے جس کی وجہ سے نہ صرف بڑا دھماکہ ہوگا بلکہ اس کی وجہ سے مکانات کو سخت نقصان پہنچنے کا قوی امکان ہے۔ بھاری مقدار میں بارود اور ڈی اے پی کی استعمال سے یہاں کا پانی محتلف زہریلی گیسوں کا مرکب بن جایے گا۔ کافی عرصے تک یہاں پانی ہمارے لیے موت کا باعث بنے گا۔ زیادہ مقدار میں بارود کی استعمال سے ہماری فصلیں بھی سالانہ حراب ہوتی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں علاقے کے نوجوان بے روزگار ہیں مگر لیز کے مالکان نیچے اضلاع سے لوگوں کو یہاں لاکر ان سے مزدوری کرواتے ہیں جبکہ مقامی نوجوان بے روزگار پھر رہے ہیں یہ اس پسماندہ علاقے کے لوگوں کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ مقررین نے کہا کہ یہاں کے لیز ہولڈر کے پاس این او سی فلورایٹ اور بیرل معدنیات کا ہے مگر یہ لوگ یہاں سے زمرد نکال کر اسمگلنگ کررہے ہیں جس سے نہ صرف چترال، ارکاری کےعوام کا بلکہ پورے پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ غیر تربیت یافتہ افراد سے کان کنی کیا جارہا ہے یہاں ایک کروڑ روپے کے راڈ کے اوپر سے بارود سے بلاسٹنگ کیا جارہا ہے تو کروڑوں روپے کی زمرد مٹی میں ملیا میٹ جاتی ہیں جس کی وجہ سے یہاں قیمتی پتھر کو سخت نقصآن پہنچایا جارہا ہے۔
مقررین نے کہا کہ ہماری سڑکیں اور لکڑی کی پلوں کو بھاری مشنری کی امد ورفت کی وجہ سے بہت نقصان پہنچ چکا ہے کافی عرصے سے یہاں بارش نہیں ہوی ہےاور حفاظتی دیواریں تمام حراب ہوچکی ہیں اگر یہ سلسلہ مزید جاری رہا تو ایک سال کے بعد یہاں چھوٹے گاڑیوں کیلیے بھی یہاں سے ان بوسیدہ پلوں اور سڑک پر گزرنا نہایت مشکل ہوجایے گا۔ انہوں نے کہا کہ لیز ہولڈر نے ہمارے ساتھ باقاعدہ سٹام پیپر پر تحریری معاہدہ کیا تھا کہ وہ ان لوگوں کو ان کا جایز حق دینے کے ساتھ ساتھ ان کا مال لے جانے کی وجہ سے جو سڑکیں اور پل حراب ہوچکی ہیں ان کی بھی تعمیر اور مرمت کرے گا مگر اب وہ اپنے وعدے سے مکر گیا۔ انہوں نے چیف جسٹس سپریم کورت اف پاکستان، چیف جسٹس پشاور ہای کورٹ، وزیراعلے اور معدنیات کے وزیر اور سیکرٹری سے پرزور مطالبہ کیا کہ ان کو لیز ہولڈر کی ظلم اور غنڈہ گردی سے نجات دلادے اور اس سلسلے مِیں باقاعدہ جوڈیشل انکوایری کی جایے کہ ایا لیز ہولڈر کو واقعی زمرد کا لیز ملا ہے یا کسی کمزور معدنیات کے لیز پر قیمتی زمرد نکال رہا ہے اور اس کا حکومت پاکستان یا صوبای حکومت کو کوی فایدہ بھی پہنچ رہا ہے یا چند افسران اور لیز ہولڈر کے ملی بگھت کی وجہ سے قومی خزانے کو بھِی چونا لگایا جارہا ہے۔
عمایدین نے الزام لگایا کہ جب ہم لیز ہولڈر سے اپنے جایز حق کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ ہمیں دھمکیاں دیکر کہتا ہے کہ ان کے بڑے لمبے ہاتھ ہیں اور ان کا اعلے عہدہ داروں تک رسای ہے جس کی وجہ سے ان کا کوی بھِی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ اختجاجی دھرنا ڈی ایس پی گرم چشمہ تمیزالدین کے تحریری یقین دہانی کے بعد حتم کیا گیا کہ وہ مذکورہ لیز ہولڈر کو بھی بلاکر مذاکرات کے میز پر بٹھایں گے اور ان لوگوں کو ان کا جایز حق دلوانے میں کردار ادار کرے گا۔ جلسہ میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر لوگوں نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ بھی اٹھارکھے تھے جس پر لیز ہولڈر کے حلاف اور انصاف کی حصول کے بارے میں محتلف نعرے درج تھے۔ یہ اختجاجی جلسہ بعد میں پرامن طور پر منتشر ہوا۔