اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

’ٹوئٹر ہینڈل ’انڈی بیل‘ کا پتہ چلائیں، کہاں سے آپریٹ ہوتا ہے؟‘چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا اور پیمرا سے جواب مانگیں گے کہ ججز پر الزامات کی تشہیر کیسے کی گئی۔ قرآن پاک بھی کسی پر الزام تراشی سے منع کرتا ہے،’انڈی بیل‘ کاپتہ چلا؟ اس ٹوئٹر ہینڈل کا پتہ کریں کہ وہ ملک سے یا بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہا ہے؟

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ’انڈی بیل‘ ہیکر سے کہہ کر ججز کے خلاف جھوٹی خبریں لگوا سکتا ہے، ایسے نہیں ہوتا کہ کوئی اعتراض اٹھائے اور جج بینچ سے الگ ہو، سوشل میڈیا کے منفی پہلو بھی ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظر میں درست ہیں؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملے پر ابھی صرف کمیشن بنایا ہے، یہ نہیں معلوم کہ آڈیوز واٹس ایپ کال کی ہیں یا فون کال کی۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو نے اختیارات کی تقسیم میں مداخلت کی۔ اب حکومت آکر کہہ رہی ہے کہ یہ ججز کیس نہ سنیں۔ بغیر تحقیق بیان دینے پر تو اس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہو جاتا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا یہ کیس بالکل نہیں کہ کیس میں ججز کی بدنیتی شامل ہے، وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکراؤ کا ہے۔ کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں کمیشن کے ذریعے تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے گا، معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے میرے علاوہ دو اور ججز پر بھی اعتراض کیا ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ باری باری سب پر اعتراض کیا جائے۔ کیا یہ اعتراض صرف جوڈیشل کارروائی پر بنتا ہے یا انتظامی امور کی انجام دہی پر بھی ہے؟
اٹارنی جنرل کے بینچ پر اعتراض سے متعلق دلائل مکمل ہوئے تو درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل کا آغاز کیا۔
وکیل شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل جس فیصلےکا حوالہ دے رہے ہیں وہ تو اقلیتی رائے تھی، اگر کسی جج پر اعتراض ہو تو بھی اس پر کیس سننے کی ممانعت نہیں۔ حکومت انتخابات سمیت تمام مقدمات میں مدعی ہے اور خود ہی بینچ بناناچاہتی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button