پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے ہے کہ ’جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو گڈ لک کہتا ہوں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’فوجی عدالتوں کا مطلب ہے کہ جمہوریت ختم اور انصاف کا قتل ہوگیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ فوجی عدالتیں صرف میرے لیے بنائی جا رہی ہیں۔‘
جمعرات کو اپنے خلاف 16 مقدمات میں ضمانت حاصل کرنے لیے عمران خان لاہور سے اسلام آباد آئے۔ پہلے وہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے جہاں سخت سکیورٹی اور شیلڈز کے حصار میں تیسری منزل پر واقع کمرہ عدالت نمبر ایک میں چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں لایا گیا۔
محرابی کورٹ روم میں یہ عمران خان کی پہلی پیشی تھی لیکن حسب سابق انھیں کمرہ عدالت میں خاصی تگ و دو کا سامنا کرنا پڑا۔
عمران خان جب کمرہ عدالت کے دروازے پر پہنچے تو وہاں پر تعینات پولیس نے عمران خان کی سکیورٹی کی کمرہ عدالت میں داخل ہونے کی کوشش کو ناکام بنایا۔ اس دوران پولیس اہلکاروں کے درمیان دھکم پیل اور سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تاہم عمران خان کی سکیورٹی کو ہار مانتے ہوئے انھیں تنہا ہی کمرہ عدالت میں داخل ہونے کے آگے نکالنا پڑا۔
عمران خان جب کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو پسینے سے کافی بھیگ چکے تھے۔ قمیض کے نیچے پہنی ہوئی بلٹ پروف جیکٹ کی وجہ سے انھیں سکون سے بیٹھنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔
عمران خان نے اپنے پاس موجود ٹشوز سے پسینہ خشک کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن ایئر کنڈیشنر چلتے ہونے کے باوجود انھیں مسلسل پسینہ آ رہا تھا۔
اس دوران کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں نے انھیں گھیر لیا اور سوالات کرنا شروع کر دیے۔
عمران خان سے شاہ محمود قریشی کی ملاقات، اس میں ملنے والے پیغامات، مستقبل کی حکمت عملی، جہانگیر ترین گروپ کی تشکیل، ان کے خاموشی ہونے یا باہر جانے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے متعدد سوال ہوئے۔
ان سوالات کے جواب میں عمران خان کہا کہ ’میں باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہوں، پاؤنڈ اتنا مہنگا ہو گیا ہے۔ لندن میں رہنے والوں نے جائیدایں بنائی ہوئی ہیں میرے پاس تو جائیدادیں نہیں ہیں۔‘
عمران خان نے مزید کہا کہ اس وقت نہ عدلیہ کی کوئی آواز سن رہا ہے اور نہ ہی میڈیا کی آواز بلند ہو رہی ہے۔ جمہوریت میں صرف وہ مائنس ہوتا ہے جسے عوام مائنس کرتی ہے۔
شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے سوال پر عمران خان نے کہا ’شاہ محمود سے میٹنگ کیسی رہنی تھی وہ بندہ ایک ماہ جیل گزار کر آیا ہے۔ وہ کارکنان کو جیلوں سے رہا کرانے کا پلان لے کر آئے تھے۔ مجھے خاموش رہنے کا کوئی پیغام شاہ محمود نے نہیں دیا اور نہ ہی ہمارے درمیان کوئی تلخی ہوئی ہے۔‘
عمران خان نے کہا کہ انڈر ایج بچوں کو بھی پکڑا ہوا ہے۔ نو مئی کے واقعے کی آزادانہ انکوائری ہونی چاہیے، اگر شفاف انکوائری ہوئی تو ہم ثبوت پیش کریں گے۔ نو مئی کے واقعات میں جنہوں نے عمارات جلائیں ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ پر امن احتجاج کرنا تو آئینی حق ہے۔‘
عمران خان نے کہا کہ مسائل کا حل صرف شفاف انتخابات ہیں، لیڈر کو صرف ووٹرز اور عوام مائنس کرتے ہیں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ مذاکرات اپنے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے کرنا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کسی جماعت کو ڈس مینٹل کرنا جمہوریت کو ڈس مینٹل کرنا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اللہ نے تحریک انصاف کو ایلیکٹیبلز سے آزاد کروا دیا ہے۔ اب تحریک انصاف کا ٹکٹ جیتے گا۔ ہمارے پاس ایک ایک حلقے میں 7 امیدوار ہیں، ایلیکٹیبلز سے اب فرق نہیں پڑتا۔
اردو نیوز نے سوال کیا کہ کل جہانگیر ترین کے گھر پر نئی پارٹی کی لانچنگ میں اپنے ساتھیوں میں کس کو دیکھ کر سب سے زیادہ دکھا ہوا؟ اس پر عمران خان نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہا ’جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو گڈ لک کہتا ہوں۔‘
گذشتہ دنوں رینجرز کی کارروائی پر بات کرتے ہوئے، جس میں عمران خان کوگرفتار کر لیا گیا تھا، آرمی چیف کا نام لینے سے متعلق سابق وزیر اعظم نے کہا ’مجھے جب کمانڈوز اٹھا کر لے جائیں گے تو کیا میں پولیس کا نام لوں گا؟
عمران خان نے مزید کہا کہ ’فوجی عدالت میں ٹرائل کا مطلب ہے کہ جمہوریت ختم ہوگئی ہے۔ یہ ایک غیر قانونی ٹرائل ہوگا، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ میرے خلاف بننے والے تمام کیس بوگس ہیں اس لیے اب ملٹری ٹرائل کا کہا جارہا ہے۔‘
دریں اثنا عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف کی 9 مقدمات میں 5 روز کی حفاظتی ضمانت منظور کر لی۔ عدالت نے عمران خان کو 12 جون تک متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
بعد ازاں عمران خان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے لیے جوڈیشل کمپلیکس روانہ ہوگئے۔