امجد عثمانیکالمز

یہ صدیوں کا قصہ ہے۔۔۔!!!!امجد عثمانی

کچھ دن ہوئے لاہور کی نہر کنارے "ختم نبوت اسلامک سنٹر" میں سجے علمائے کرام کے ملک گیر اجتماع میں حاضری کیا تھی ایک حکم کی تعمیل تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ انٹرنیشنل ختم نبوت کی مجلس شوریٰ کا اجلاس تھا۔۔

میں ابھی عقیدہ ختم نبوت کے موضوع پر قابل صد احترام علمائے کرام کی ایک "دل پذیر مجلس”کی "روحانی کیفیات”سے سر شار تھا کہ نامور اسلامی سکالر جناب ڈاکٹر طاہر مصطفے نے دل کے” تار”ہلا دیے۔۔۔۔۔
"مان کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن الرسول اللہ و خاتم النبیین” کی حلاوت وہی جانے جسے عقیدہ ختم نبوت کا فہم نصیب ہوا ہو۔۔۔یہ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے عطا”انمول تحفہ” ہے۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب سید عطا اللہ شاہ بخاری سے فیض یاب مولانا عبد المجید عارف کے فرزند ارجمند ہیں اور کیا ہی خوش بخت آدمی ہیں۔۔۔۔۔۔وہ لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں شعبہ اسلامی فکر و تہذیب کے رکن رکین اور سیرت چئیر کے ڈائریکٹر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اسمائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پی ایچ ڈی ہیں۔۔۔۔۔انہیں درس کلام اللہ کے عنوان سے اردو زبان کی تاریخ میں قرآن مجید کے پہلے تفسیری ترجمے کی سعادت بھی ملی ہے۔۔۔۔۔وہ ایک نجی چینل پر صدائے قرآن کے نام سے مارننگ شو بھی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے آپ اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں ختم نبوت کی دلنشین تفہیم پیش کی ہے کہ جو بھی سنے جھوم اٹھے۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ آخری نبی کی تعریف یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی پیدا ہی نہیں ہوگا اور کسی کو نبوت بھی عطا نہیں کی جائے گی۔۔۔۔انہوں نے” ایک مغالطے”کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے کہا کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیدا ہوئے اور انہیں نبوت بھی آپ سے پہلے عطا ہوئی۔۔۔۔جب وہ قرب قیامت پر آسمان سے نزول فرمائیں گے تو بطور نبی نہیں بلکہ امت محمدیہ کا رکن بن کر جلوہ افروز ہونگے۔۔۔۔۔اسی طرح معراج کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والےتمام انبیائے کرام علیہم السلام بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیدا ہوئے اور انہیں نبوتیں بھی آپ سے پہلے ملیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دن ہوئے لاہور کی نہر کنارے "ختم نبوت اسلامک سنٹر” میں سجے علمائے کرام کے ملک گیر اجتماع میں حاضری کیا تھی ایک حکم کی تعمیل تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ انٹرنیشنل ختم نبوت کی مجلس شوریٰ کا اجلاس تھا۔۔۔۔۔۔۔جماعت کے امیر جناب ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ اور سیکرٹری جنرل جناب ڈاکٹر احمد علی سراج نے خاکسار کو بھی شرکت کی تاکید کی۔۔۔۔۔عقیدہ ختم نبوت کے موضوع پر اتنا خوب صورت اجتماع دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔۔۔۔اجلاس میں ڈاکٹر احمد علی سراج۔۔۔۔۔مولانا الیاس چنیوٹی۔۔۔۔۔مولانا زاہد محمود قاسمی۔۔۔۔۔مولانا یاسین صدیقی۔۔۔۔۔۔مولانا قاضی محمود الحسن۔۔۔۔۔۔۔قاری رفیق وجھعوی ۔۔۔۔۔۔مولانا افتخار اللہ شاکر۔۔۔۔۔۔قاری احمد علی ندیم۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا پیر الیاس حقانی۔۔۔مفتی جمال الدین۔۔۔۔۔مفتی اختر حسین اور مولانا مجیب انقلابی سمیت بیسیوں علمائے کرام شریک تھے۔۔۔۔۔۔عزت مآب ڈاکثر سعید احمد عنایت اللہ نے مکہ مکرمہ سے آن لائن خطاب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے بھی بطور مبصر علمائے کرام سے مخاطب ہونے کا موقع ملا۔۔۔۔۔۔۔میں نے تنقید کے ساتھ ساتھ برملا اعتراف بھی کیا کہ الحمد للہ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ پاکستان کے ڈی این اے میں شامل ہے اور اس کا کریڈٹ علمائے کرام کو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ایک دو دن کی بات نہیں سوا صدی بلکہ صدیوں کا قصہ ہے۔۔۔۔۔۔مجھے اس موقع پر انٹر نیشنل ختم نبوت کے بانی امیر مولانا عبدالحفیظ مکی اور سیکرٹری جنرل مولانا منظور چنیوٹی شدت سے یاد ائے۔۔۔۔میں نے ان سے جڑی ایک آدھ یاد بھی تازہ کی۔۔۔۔۔عقیدہ ختم نبوت کے فہم اور علمائے ختم نبوت سے "میرے قرب” کی کہانی بھی بڑی ایمان افروز ہے۔۔۔۔۔عقیدہ ختم نبوت کا فہم مجھے وراثت میں ملا۔۔۔۔۔یادش بخیر۔۔۔۔بیس پچیس گھروں پر مشتمل ہمارے پسرور والے آبائی گائوں میں "مسیلمہ سکول آف تھاٹ”کا ایک پڑھا لکھا "مشنری” تھا…..وہ والد صاحب سمیت سب کے پاس بیٹھتا کہ شاید "دال”گل جائے…..اباجی اسے چائے اور حقہ پلاتے لیکن جب” ممنوع گروہ” کے من گھڑت”دھرم” کی بات آتی تو ابا جی اسے کہتے محمد دینا۔۔۔۔۔دین دین اپنا اور وہ برا سا منہ لے کر چل دیتا۔۔۔….آخر وہ اس گائوں سے "خالی ہاتھ” کہیں "بے نام و نشان "ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ 2006 کے رمضان المبارک کی بات ہے کہ مجھے نیوز ڈیسک پر بیٹھے بٹھائے مدینہ سے بلاوا آگیا۔۔۔۔۔روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری ہوئی تو میں نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ کریم آقا کا واسطہ دیکر عرضی پیش کی یا اللہ کریم۔۔۔۔۔۔بد اعمال سا صحافی ہوں۔۔۔۔۔۔گناہوں کے سوا پلے کچھ نہیں۔۔۔۔۔بس ایک گذارش ہے کہ مجھے اپنے آخری نبی کی ختم نبوت کے چوکیداروں کی فہرست میں شامل کرلے۔۔۔۔۔۔واپسی پر اس دعا کی قبولیت نے رنگ دکھائے۔۔۔۔۔۔۔۔کہہ لیں کمال ہی ہو گیا۔۔۔۔۔اگلے سالوں میں حیران کن طور پر انٹر نیشنل ختم نبوت کے امیر جناب مولانا عبدالحفیظ مکی صاحب۔۔۔۔نائب امیر (اب امیر) جناب ڈاکٹر سعید عنایت اللہ۔۔۔۔۔۔سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جناب احمد علی سراج۔۔۔۔۔۔اور شیخ حرم کعبہ مولانا مکی حجازی میرے ساتھ "لائن اپ” ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ایک سے بڑھ کر ایک مہربان۔۔۔۔۔پہلے ڈاکٹر احمد سراج ملے اور ہمیشہ کے لئے دل میں گھر کرگئے….مدینہ منورہ میں مقیم ڈاکٹر احمد علی سراج تب کویت کی وزارت اوقاف کے خطیب اور اور کویت اسلامی بینک میں افسر تھے۔۔۔۔۔۔پھر ڈاکٹر سعید سے ملاقات ہوئی اور پہلی نظر میں ہی ان سے انس ہو گیا۔۔۔۔۔۔ مولانا عبدالحفیظ مکی نے تو "ذرہ نوازی” کی حد کردی۔۔۔۔۔۔..وہ اپنے چہیتےخلیفہ جناب مفتی شاہد صاحب اور معتبر سیکرٹری جنرل ڈاکٹر احمد سراج صاحب کو ساتھ لئے چل کر میرے دفتر آئے ….میں نے بہت روکا کہ حضرت ادھر سیڑھیاں چڑھنا پڑیں گی میں خود حاضر ہو جاتا ہوں مگر نہ مانے اور قہقہہ لگا کر کہا بھئی مجھے ڈاکٹر سعید صاحب کا حکم ہے کہ ہر صورت آپ سے مل کر آئوں۔۔۔۔۔میں نے مکہ مکرمہ جا کر "رپورٹ” دینی ہے۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ ایسا دلپذیر امیر۔۔۔۔۔۔میرا مشاہدہ ہے کہ مکی صاحب کو اپنے دونوں پی ایچ ڈی جانشنیبوں پر ناز تھا۔۔۔۔۔وہ ڈاکٹر سعید عنایت اللہ کی تحریری اور ڈاکٹر احمد سراج کی تقریری صلاحیتوں کے قدران تھے۔۔۔۔۔اس لئے وہ ان سے ایسے لاڈ کرتے جیسے باپ لائق بیٹوں کے نخرے اٹھاتا ہے۔۔۔۔۔۔خیر مکی صاحب دفتر پہنچے۔۔۔۔۔گلے لگایا۔۔۔۔۔چائے پر چاہت بھری باتیں کیں اور جانے سے پہلے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیے۔۔۔۔۔۔اٹھےتو اپنا مرید کر کے اٹھے۔۔۔۔۔۔ایک دو مزید نشستوں کے بعد ہم نے باقاعدہ اپنا ہاتھ بیعت کیلئے بڑھایا تو اپنے سمندر جتنے دل میں ہمیشہ کے لئے جگہ دیدی…… وہ میرے ساتھ قدرے فرینک بھی ہو گئے تھے….صحافی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ان سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی کر لیتا….کبھی برا نہیں منایا بلکہ خندہ پیشانی سے تنقید سنتے اور مسکرا دیتے۔۔۔۔۔2015میں خاکسار کو دوسری بار اہلیہ اور ننھی ہادیہ کے ساتھ عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی……مکہ میں تھے تو بڑی محبت سے گھر دعوت پر بلایا۔۔۔۔۔اپنے جانشین صاحب زادے جناب عمر مکی کو گاڑی دیکر بھیجا۔۔۔۔۔مکہ کی زیارات کے لئے دوسرے بیٹے معاذ مکی کی ڈیوٹی لگائی۔۔۔۔مدینہ میں بھی اپنے بھتیجے احمد کے گھر پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا۔۔۔۔۔۔مکی صاحب سے آخری ملاقات 2016کی ایوان اقبال کانفرنس پر ہوئی۔۔۔۔۔اسی سال اللہ نے مجھے لاہور میں گھر دیا۔۔۔۔۔۔میں نے انہیں دعا کیلئے آنے گھرانے دعوت دی….وہ بوجوہ نہ آسکے تو میں نے مفتی شاہد صاحب سے ویسے ہی بات کردی۔۔۔انہوں نے مکی صاحب کو بتا دیا۔۔۔اگلے لمحے ہی فون آگیا۔۔۔۔۔عثمانی صاحب!مفتی صاحب نے آپ کا شکوہ پہنچایا ہے۔۔۔۔۔رائیونڈ اجتماع کی وجہ سے شیڈول بہت سخت تھا۔۔۔۔اس لیے آپ کے ہاں حاضری نہ ہو سکی….آئندہ دورے کے دوران یہ” قضا” پورے آداب کیساتھ اداکرینگے……اسی سال جنوبی افریقہ جانے سے کوئی ایک ماہ قبل مکہ میں تھے تو فون پر آخری گفتگو ہوئی…..میں نے کال کی تو کہا بند کریں میں فون کرتا ہوں…..ان کی عادت تھی کہ میں نے جب بھی فون کیاتو کاٹ کر خود کال کی…..میں نے کہا کہ کافی عرصہ ہو گیا بات نہیں ہوئی……دل کررہا تھا آپ سے دعائیں لینے کو…..حسب معمول دعا دی اور کہنے لگے واقعی اس بار سستی ہوگئی۔۔۔۔۔آئندہ غفلت نہیں ہوگی۔۔۔۔۔وہ بڑے آدمی تھے اور یہ ان کا بڑا پن تھا کہ وہ ایسی بڑی بڑی باتیں کر کے ہم ایسے چھوٹوں کو چھوٹے ہونے کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے…..۔۔۔مولانا چنیوٹی کی بھی سن لیجیے۔۔۔۔میری ان سے پہلی ملاقات 1998میں شکرگڑھ کی جامعہ رشیدیہ کے پروگرام میں ہوئی۔۔۔۔۔وہ اس وقت رکن پنجاب اسمبلی تھے۔۔۔۔۔مولانا چنیوٹی سے دوسری بار تحصیل پسرور کے ایک گائوں بکھو بھٹی میں ملے۔۔۔۔۔ "چڑھتے سورج کی دھرتی”پر میرے پہلے دوست "قبلہ” حافظ ابرار صدیقی بھی ساتھ تھے۔۔۔۔ہم نے ان سے شکرگڑھ کے ایک تعلیمی ادارے میں ختم نبوت سیمینار کے لئے وقت لیا…۔۔۔انتظار کرتے کرتے شام ہوگئی….رابطہ ہوا تو مولانا چنیوٹی کہنے لگے آج چناب نگر کے نام کیلئے وزیر مال سے ملاقات تھی۔۔۔۔۔میں سمجھا کہ عشا کے بعد کا پروگرام ہے۔۔۔۔۔پھر ہمارے جذبات تھے اور ان کی بردباری۔۔۔۔۔۔کوئی خاص شناسائی نہ قریبی تعلق۔۔۔۔۔پھر بھی ہم نے "چڑھائی” کردی۔۔۔۔۔خطوط کا زمانہ تھا۔۔۔۔۔اسی شام ایک انتہائی جذباتی لیٹر لکھ مارا۔۔۔۔۔۔۔آداب کے ساتھ بھرپور احتجاج ریکارڈ کرادیا۔۔۔۔۔پتہ نہیں کس شاعر نے اپنے محبوب کے لئے شعر گھڑا تھا۔۔۔۔۔ہم نے وہ مولانا کی نذر کردیا۔۔۔۔۔

تمہارے آنے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا اہتمام ہوا
نا جانے کتنے جذبوں کا قتل عام ہوا

چند دن گذرے کہ مولانا چنیوٹی کا اپنے لیٹر پیڈ پر جوابی خط موصول ہوا۔۔۔۔اس کا خلاصہ یوں ہے کہ عزیزی القدر۔۔۔۔۔آپ کا محبت و عقیدت نامہ ملا جو دراصل گلہ اور شکوہ نامہ ہے۔۔۔۔۔۔میں نے آپ کا مکتوب اپنے ان احباب کو پڑھایا ہے جو مجھے ہر صورت وعدہ ایفائی کے طعنے دیتے ہیں کہ جلسہ والوں کے جذبات کا کس طرح” قتل عام "ہوتا ہے….ہمارے ہاں پروگرام بعد نماز عشا ہی لکھا ہے۔۔۔۔۔یہ غلطی لکھنے والے ہمارے ڈرائیور کی ہے یا لکھا نے والے کی۔۔۔۔۔اس کا مجھے علم نہیں۔۔۔۔۔۔لہذا با امر مجبوری حاضری نہ ہو سکی۔۔۔۔۔اس وضاحت کیساتھ انتہائی ندامت کے معذرت خواہ ہوں۔۔۔۔۔چاہیں تو عید کے بعد قرضہ چکادونگا اور نارووال کے لئےختم نبوت کے سلسلہ میں ہر خدمت کے لئے تیارہوں۔۔۔۔۔۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔۔۔۔غالبا یہ 2014 کی ایوان اقبال ختم نبوت کانفرنس سے ایک روز پہلے کی شام تھی۔۔۔۔۔سبزہ زار لاہور کی خانقاہ میں حضرت مکی صاحب کے قدموں میں بیٹھے تھے۔۔۔۔جناب ڈاکٹر احمد علی سراج۔۔۔۔۔عزیز دوست حافظ ظہیر اعوان اور جناب مفتی شاہد بھی شریک محفل تھے۔۔۔۔۔۔چائے کادور ختم ہوا تو اجازت چاہی۔۔۔۔۔حضرت کہنے لگے بیٹھیں….سمندر پار سے آپ کے ہم نام مہمان اور ختم نبوت کے محقق آرہے ہیں۔۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد ایک دراز قد۔۔۔سرخ و سپید اور وضع قطع سے عربی صاحب اندر داخل ہوئے۔۔۔۔مکی صاحب اپنے بیڈ سے اٹھ کر ان سے بڑے تپاک سے ملے اور بولے یہ ہیں امجد سقلاوی صاحب۔۔۔۔یہ اردن سے ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہیں۔۔۔۔۔پھر ہم سب کا باری باری تعارف کرایا۔۔۔۔ہم نام اور پھر صحافی کا سن کر ما شا اللہ ما شا اللہ کہتے ہوئے خلوص بھرا معانقہ کیا۔۔۔۔ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب ہمارے مترجم تھے۔۔۔۔۔۔مہمان ذی وقار نے جلدی جلدی چائے پی اور کہا مجھے فوری چنیوٹ پہنچنا ہے۔۔۔۔۔۔مکی صاحب نے بتایا کہ وہ مولانا منظور احمد چنیوٹی کی قبر پر حاضری دینا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ہم گھر واپس جبکہ امجد سقلاوی ڈاکٹر صاحب کی معیت میں اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔۔۔لیکن ہمارا تجسس بڑھا کہ ایک بندہ اردن سے آتا ہے اور سامان میزبان کے پاس رکھتے ہی رات کے سفر کی پرواہ کئے بغیر سیدھا مولانا چنیوٹی کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے روانہ ہو جاتا ہے۔۔۔۔کہانی کیا ہے؟؟؟؟اگلے دن ہم نے پھر خانقاہ جا کر جناب امجد سقلاوی کو پکڑ لیا۔۔۔۔ کافی فرینک گپ شپ ہوئی۔۔۔۔ہم نے سر دست دل کی بات سامنے رکھ دی کہ مولانا چنیوٹی سے شناسائی کیسے ہوئی اور اتنی عقیدت کیوں؟؟؟…..اردن کے دلکش مہمان نے بھی دل کھول کے سامنے رکھ دیا….کہنے لگے پیشے کے اعتبار سے فیشن ڈیزائنر ہوں۔۔۔۔بد قسمتی کہہ لیجئے کہ ایک فلسطینی دوست کی” باتوں "میں آگیا۔۔۔۔۔چلتے چلتے اسرائیل کے شہر حیفا میں” ارتدادی مرکز” پہنچ گیا۔۔۔۔۔”روبوٹ نما لوگ "برین واشنگ کے لئےسرگرم ہوگئے۔۔۔۔۔کئی ماہ "قصے کہانیاں” سن سن کے عاجز آگیا۔۔۔۔۔میں سوال کرنے والا آدمی ہوں۔۔۔۔۔۔سوال اٹھائے تو آئیں بائیں شروع ہو گئی….میں بھانپ گیا کہ "دلدل” میں پھنس گیا ہوں۔۔۔۔۔وہاں سے واپس بھاگ نکلنے میں تو کامیاب ہو گیا لیکن سوال اپنی جگہ تھے۔۔۔۔۔عجیب شش و پنج میں تھا کہ روشنی کی ایک کرن دکھائی دی۔۔۔۔پاکستانی عالم دین مولانا منظور احمد چنیوٹی کی کتاب کا عربی ترجمہ ملا۔۔۔۔۔اوراق پلٹتا گیا اور سوالوں کے جواب ملتے گئے۔۔۔۔واللہ !مولانا چنیوٹی نے میرا ایمان بچالیا۔۔۔۔۔وہ میرے محسن ہیں۔۔۔۔۔ان کا حق تھا کہ ان کے دیس آنے کے بعد سب سے پہلے ان کی قبر پر حاضری دیتا تو اس لئے کل شب میں لاہور پہنچتے ہی چنیوٹ چلاگیا۔۔۔۔۔۔وہ صرف میرے ہی نہیں امت کے محسن ہیں۔۔۔۔میں نے یہ سفر ہی ان کو خراج عقیدت پیش کرنے لئے کیا۔۔۔۔.واللہ میں سرخرو ہو گیا۔۔۔۔۔!! جادو وہ سر چڑھ کر بولے….انسپائریشن دیکھیئے کہ آج امجد سقلاوی اپنے ملک میں تن تنہا ختم نبوت کے لئے دن رات ایک ہوئے ہیں۔۔۔۔۔یوں کہہ لیجئیے کہ وہ اردن کے مولانا منظور چنیوٹی بن چکے ہیں۔۔۔۔۔۔چناب کنارے” متنازعہ شہر "کا نام تبدیل ہوا تو انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے باادب اور بامراد سیکرٹری جنرل جناب ڈاکٹر احمد علی سراج نے مولانا چنیوٹی کو کویت بلا کر سونے سے مزین صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایوارڈ سے ںوازا….سچی بات ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے زندگیاں بتانے والے یہ "گراں قدر "لوگ سونے میں ہی تولے جانے کے قابل تھے۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کیا کریں صاحب کہ ہمارا المیہ یہ ہے ہم زندگی میں "بیش قیمت” لوگوں کی” قدر” نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ہم کسی کو "بزرگ” ماننے کے لیے اس کی "موت” کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔۔!!!!

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button