
یونان کے ساحل کے قریب سمندر میں ڈوبنے والی تارکینِ وطن کی کشتی کے بہت سے مسافروں کے بارے میں ابھی تک پتا نہیں چل سکا ہے۔
منگل اور بدھ کی درمیانی شب یونان کے جنوبی ساحل کے قریب ڈوبنے والی یہ کشتی پاکستانی، مصری اور شامی تارکین وطن کی بڑی تعداد کو اٹلی لے کر جا رہی تھی۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق سمندر سے 80 کے قریب لاشیں نکال کر کالا ماتا کی بندرگاہ تک پہنچائی گئی ہیں جبکہ زخمی افراد اس وقت ایتھنز کے ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
کشتی حادثے کا شکار ہونے والے افراد کے لواحقین اس وقت یونان میں موجود ہے اور وہ اپنے پیاروں کی تلاش یا انہیں شناخت کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان تارکین کے پاکستان میں موجود رشتہ دار بھی اپنے پیاروں کے بارے معلومات جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’کشتی میں میرے 12 سے 14 رشتہ دار تھے‘
راجا فریاد کا تعلق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع کوٹلی سے ہے۔ وہ اس حادثے کی خبر سن کر برطانیہ سے ایتھنز پہنچے ہیں۔ وہ کشتی میں موجود پاکستانیوں کی فہرست تیار کر رہے ہیں تاکہ ان کی شناخت کی جا سکے۔
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر راجا فریاد نے بتایا کہ ’اس کشتی میں 12 سے 14 میرے رشتہ دار نوجوان تھے۔ ان تک کشمیر کے بچ جانے والے دو نوجوانوں سے میری ملاقات ہوئی جن کے نام عدنان بشیر اور حسیب الرحمان ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اب تک کے اندازوں کے مطابق تارکین وطن کی کشتی میں 25 سے 30 نوجوانوں کا تعلق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے تھا۔‘
اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے نوجوان عدنان بشیر سے ملاقات کے حوالے سے راجا فریاد نے بتایا کہ ’اس کی کیفیت ویسی ہی تھی جیسی کسی بڑی مصیبت سے بچ نکلنے والے شخص کی ہوتی ہے۔ وہ بہت پریشان تھا کیونکہ یہ اس کی زندگی کا بھیانک ترین تجربہ تھا۔‘
راجا فریاد کے بقول عدنان نے بتایا کہ ’ہم سب کشتی میں اکٹھے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے۔ جب کشتی اُلٹنے لگی تو کشتی میں عجیب منظر تھا۔‘
